قربانی کی کھالیں اور زکوٰۃ کے درست مصارف کیا ہیں؟
ماخوذ: احکام و مسائل، قربانی اور عقیقہ کے مسائل، جلد 1، صفحہ 440

سوال

کیا قربانی کی کھالیں مدارس کے طلباء، ہسپتالوں، سکولوں اور رفاہ عامہ یا دینی کتب کی نشر و اشاعت پر صرف کی جا سکتی ہیں؟ اور کیا زکوٰۃ بھی ان مقاصد کے لیے دی جا سکتی ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زکوٰۃ اور صدقہ کے مصارف:

◈ زکوٰۃ اور صدقہ کی تقسیم کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آٹھ مصارف مقرر فرمائے ہیں، جیسا کہ سورۃ التوبہ، آیت نمبر 60 میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
◈ دینی مدارس، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں کے طلباء اور ہسپتالوں کے مریضوں میں سے صرف وہی افراد زکوٰۃ اور صدقہ کے حقدار ہیں جو ان آٹھ مصارف میں کسی ایک مصرف میں شامل ہوں۔
◈ جو افراد ان شرعی مصارف میں شامل نہیں، ان پر صدقہ و زکوٰۃ خرچ کرنا جائز نہیں۔

> إِنَّمَا کا لفظ قرآن کریم میں قصر و حصر (یعنی خاص کرنے اور محدود کرنے) کے لیے آتا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کے صرف وہی آٹھ مصارف ہیں، اور اس سے ہٹ کر کسی اور جگہ زکوٰۃ کا مصرف بنانا جائز نہیں۔

قربانی کی کھالوں کے متعلق حکم:

◈ قربانی کی کھالوں کے بارے میں بہترین اور افضل عمل یہ ہے کہ انہیں صدقہ کر دیا جائے۔
◈ اس بارے میں حدیث میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:

> «أَمَرَنِیْ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِجِلاَلِ الْبُدْنِ الَّتِیْ نَحَرْتُ وَبِجُلُوْدِهَا»
> (صحیح بخاری، باب الجلال للبدن – کتاب الحج)

یعنی:
"مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں اپنی قربانیوں کی جلیں اور کھالیں صدقہ کر دوں۔”

◈ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ قربانی کی کھالیں صدقہ کی جائیں، اور چونکہ صدقہ کے مصارف وہی ہیں جو قرآن میں مذکور ہیں، لہٰذا کھالیں بھی انہی مصارف میں صرف کی جائیں۔
◈ مزید یہ کہ چونکہ قربانی کی کھالیں قربانی کا جزو سمجھی جاتی ہیں، اس لیے ان کا مصرف بھی قربانی کے دینی اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے