قاضی کے آدابِ مجلس و فیصلے سے پہلے سننا لازم ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

اس پر لازم ہے کہ فریقین سے (مجالس میں ) مساوات کا سلوک کرے الا کہ ان میں سے کوئی ایک کافر ہو
➊ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
قضي رسول الله صلى الله عليه وسلم أن الـخـصـمـيـن يقعدان بين يدى الحاكم
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ جھگڑا کرنیوالے دونوں حاکم کے روبرو بیٹھیں گے ۔“
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 769 ، كتاب القضاء: باب كيف يجلس الخصمان بين يدي القاضي ، ابو داود: 3588 ، احمد: 4/4 ، بيهقي: 135/10 ، شيخ حازم على قاضي نے اس حديث كو صحيح لغيره قرار ديا هے ۔ التعليق على سبل السلام: 1927/4]
➋ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک یہودی کے ساتھ جھگڑا ہوا ، فیصلہ کرانے کے لیے قاضی شریح کے پاس آئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ قاضی کے ساتھ بیٹھ گئے اور کہا اگر میرا مد مقابل مسلمان ہوتا تو میں اس کے ساتھ بیٹھتا لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:
لاتسا ووهم فى المجالس
”مجالس میں ان (غیر مسلموں) سے برابری اختیار نہ کرو ۔“
[تلخيص الحبير: 355/4 ، الحليلة لأبي نعيم: 139/4 ، العلل لابن الجوزي: 388/2 ، سبل السلام: 1927/4 ، نيل الأوطار: 369/5]
اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت میں کچھ ضعف ہے لیکن معناََ اس کی تصدیق مختلف احادیث سے ہوتی ہے مثلاً:
وإذا لقيتموهم فى طريق فاضطروهم إلى أضيقه
” (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ) جب تم ان سے کسی راستے میں ملو تو انہیں اس کی تنگ جگہ کی طرف مجبور کر دو ۔“
[مسلم: 2167 ، كتاب السلام: باب النهي عن ابتداء أهل الكتاب بالسلام ، ترمذي: 2624 ، احمد: 7251]
ایک اور حدیث میں یہ لفظ ہیں:
الإسلام يعلو ولا يعلى عليه
”اسلام بلند ہوتا ہے اس پر کوئی (اور دین) بلند نہیں کیا جا سکتا ۔“
[صحيح: صحيح الجامع الصغير: 2778 ، إرواء الغليل: 1268]
فیصلے سے پہلے فریقین سے معاملے کو سنے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمايا:
إذا جلس إليك الخصمان فلا تقض بينهما حتى تسمع من الآخر كما سمعت من الأول فإنك إذا فعلت ذلك تبين لك القضاء
”جب دو جھگڑنے والے تیرے پاس (فیصلے کے لیے ) آ کر بیٹھیں تو کسی ایک کے حق میں اس وقت تک فیصلہ نہ کرو جب تک کہ دوسروں کی بات نہ سن لو ۔ اس سے تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تم نے فیصلہ کیسے کرنا ہے؟ ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 226/8 ، 2600 ، احمد: 111/1 ، ابو داود: 3582 ، كتاب القضاء: باب كيف القضاء ، ترمذي: 1331 ، ابن حبان: 5042]
حسبِ امکان حجاب دور کرنے کی کوشش کرے
➊ حضرت ابو مریم آزدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من ولاه الله شيئا من أمر المسلمين فاحتجب عن حاجتهم وفقرهم احتجب الله دون حاجته
”جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے کسی کام کا حاکم بنا دیا اور وہ (ان کی ضروریات پوری کرنے کی بجائے ) پردے میں ہی رہا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حاجت (پوری کرنے ) سے پردے میں رہیں گے ۔“
[صحيح: الصحيحة: 629 ، ابو داود: 2948 ، كتاب الخراج: باب فيما يلزم الإمام من أمر الرعية والحجية عنه ، ترمذي: 1333 ، حافظ ابن حجرؒ نے اس كي سند كو جيد كها هے۔ فتح الباري: 133/13]
➋ حضرت عمرو بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من إمـام أو وال يغلق بابه دون ذوى الحاجة والخلة والمسكنة إلا أغلق الله أبواب السماء دون خلته وحاجته و مسكنته
”جو بھی امام یا والی اپنے دروازے کو حاجت مند ، فقیر اور مسکین لوگوں (کے تعاون) سے بند رکھتا ہے اللہ تعالیٰ بھی آسمان کے دروازوں کو اس کے فقر ، اس کی حاجت اور اس کی مسکینی (دور کرنے ) سے بند کر دے گا ۔“
[صحيح: الصحيحة: 629 ، المشكاة: 3728 ، صحيح ابو داود: 2614 ، ترمذي: 1332 ، كتاب الأحكام: باب ماجآء فى إمام الرعية ، احمد: 231/4 ، حاكم: 94/4]
تا ہم حکمران کے لیے بوقت ضرورت حجاب کرنا جائز ہے کیونکہ اس کے نفس ، اس کے اہل وعیال اور اس کے ضیوف کا بھی اس پر حق ہے ۔
[نيل الأوطار: 363/5]
جیسا کہ ایک حدیث میں یہ لفظ ہیں:
إن لربك عليك حقا و لنفسك عليك حقا ولأ هلك عليك حقا
”بیشک تمہارے رب کا ، تمہارے نفس کا ، اور تمہارے گھر والوں کا تجھ پر حق ہے ۔“
[بخاري: 1968 ، كتاب الصوم: باب من أقسم على أخيه ليفطر فى التطوع]
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعض اوقات حجاب اختیار فرما لیا کرتے تھے جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربان تھے ۔
[بخاري: 3674 ، كتاب فضائل أصحاب النبى: باب ، مسلم: 2403]
ایک اور روایت میں یہ مذکور ہے کہ :
أنه كان له (لعمر) حاجب يقال له برفا
”حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے ایک حاجب (دربان ) تھا جسے یرفأ کہا جاتا تھا ۔“
[بخاري: 3094 ، كتاب فرض الخمس: باب ، مسلم: 1757]
(شوکانیؒ) حاکم کو چاہیے کہ عوام کو فیصلے کی جگہ پر یکبارگی نہ بلا لے بلکہ ایک ایک کر کے بلائے تا کہ شور و غل کی وجہ سے فیصلے میں خرابی نہ ہو ۔
[نيل الأوطار: 363/5]
(ابن حجرؒ ) علما کا اتفاق ہے کہ پہلے آنے والے کا پہلے فیصلہ کرنا چاہیے اور اسی طرح مسافر کا مقیم سے پہلے ، اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ جسے دربان یا حاجب مقرر کیا جائے وہ امین ، ثقہ ، پاکدامن ، حسن اخلاق جاننے والا اور لوگوں کے ذہنوں کو سمجھنے والا ہو ۔
[فتح البارى: 30/15]
بقدر ضرورت حاکم اپنے مددگار بھی رکھ سکتا ہے اور صلح کرانے کے لیے سفارش ، جھکاؤ طلبی اور رہنمائی بھی کر سکتا ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
إن قيس بن سعد رضى الله عنه كان يكون بين يدى النبى صلى الله عليه وسلم بمنزلة صاحب الشرط من الأميز
”حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایسے تھے جیسے امیر کا کوئی سپاہی ہوتا ہے ۔“
[بخارى: 7155 ، كتاب الأحكام: باب الحاكم يحكم بالقتل على من وجب عليه دون الإمام الذى فوقه ، ترمذى: 3850]
اس حدیث میں یہ جواز موجود ہے کہ حکام و اُمراء نقصان سے بچاؤ کے لیے مددگار (سپاہی وغیرہ ) مقرر کر سکتے ہیں ۔
[فتح البارى: 33/15]
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے ابن أبی حدرد سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا ۔ مسجد میں جب دونوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر سے سن لیا اور کمرے کا پردہ ہٹا کر کعب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہا:
ضع من دينك هذا وأوما إليه أى الشطر
”اپنے قرض سے اتنا چھوڑ دو اور آپ نے نصف کا اشارہ کیا“
تو انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول! میں نے ایسا کر دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقروض سے کہا:
قم فاقضه
”کھڑے ہو جاؤ اور اسے قرض ادا کر دو ۔ “
[بخاري: 457 ، كتاب الصلاة: باب التقاضى والملازمة فى المسجد ، مسلم: 1558 ، ابو داود: 3595 ، ابن ماجة: 2429 ، نسائي: 239/8 ، ابن حبان: 5048 ، احمد: 390/6 ، دارمي: 261/2 ، طبراني: 127/19]
اس معنی کی احادیث پیچھے باب الصلح میں گزر چکی ہیں مزید تفصیل کے لیے اس کی طرف رجوع کریں ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے