رشوت لینا اور ایسے تحفے کو قبول کرنا جو اسے قاضی ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہے حرام ہے
نواب صدیق حسن خانؒ رقمطراز ہیں کہ رشوت کے دو معنی ہیں:
① جس کے قبول کرنے والے پر حق کے خلاف فیصلے کی شرط لگائی جائے ۔
② مال خرچ کر کے کسی کے جاہ و منصب کے وسیلے سے اپنے (خفیہ ) مقاصد کو پہنچنا ۔
[الروضة الندية: 542/2]
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ [البقرة: 188]
”ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو اور نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا کر لیا کرو حالانکہ تم جانتے ہو ۔“
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لعنة اللــه عـلـى الراشي والمرتشي فى الحكم
”کسی فیصلے میں بھی رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر اللہ کی لعنت ہے ۔“
[احمد: 387/2 ، ابن حبان: 1196 – الموارد ، ابن الجارود: 585 ، حاكم: 103/4]
➌ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
لعن رسول الله الراشي والمرتشى
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت کی ہے ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي ، ترمذي: 1337 ، كتاب الأحكام: باب ما جاء فى الراشي والمرتشي فى الحكم]
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ [المائدة: 42]
”وہ لوگ حرام کھانے والے ہیں ۔“
حضرت حسنؒ اور حضرت سعید بن جبیرؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں موجود لفظ سحت کا معنی رشوت ہے ۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی نے دریافت کیا تو انہوں نے کہا: سحت یہ ہے کہ ایک آدمی تجھ سے اپنے ظلم پر مدد طلب
کرے اور پھر وہ تجھے ہدیہ بھی دے ۔ تم اسے قبول مت کرو ۔
[تفسير طبرى: 580/4 ، الدرا المنثور للسيوطى: 502/2]
➋ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من اسـتـعـمـلـنـاه على عمل فرزقناه رزقا فما أخذه بعد ذلك فهو غلول
”جسے ہم کسی کام پر والی بنائیں اور ہم اسے اس کا مقرر معاوضہ بھی دیں تو پھر وہ جو کچھ بھی اس کے علاوہ پکڑے گا خیانت ہو گی ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2550 ، كتاب الخراج: باب فى أرزاق العمال ، ابو داود: 2943]
➌ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من شـفـع لأخيه شفاعة فأهدى له هدية عليها فقبلها فقد أتى بابا عظيما من أبواب الربا
”جو شخص اپنے بھائی کی سفارش کرے پھر اس پر اسے ہدیہ بھی دے اور وہ اسے قبول کر لے تو یہ سود کے دروازوں میں سے ایک دروازے کو آیا ہے ۔“
[حسن: صحيح ابو داود: 3025 ، كتاب البيوع: باب فى الهدية لقضاء الحاجة ، ابو داود: 3541 ، احمد: 261/5]
➍ بنی اسد کے ایک آدمی ابن الا تبیہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کی وصولی کے لیے تحصیلدار بنایا ۔ جب وہ واپس آیا تو اس نے کہا کہ یہ آپ کا ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے ۔ (یہ سن کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور حمد وثنا کے بعد فرمایا:
مابال العامل نبعثه فياتي يقول: هذا لك وهذا لي فهلا جلس فى بيت أبيه وأمه فينظر أيهدى له أم لا
”اس عامل کا کیا حال ہو گا جسے ہم تحصیل کے لیے بھیجتے ہیں پھر وہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مال تمہارا ہے اور یہ میرا ہے ۔ کیوں نہ وہ اپنے باپ یا ماں کے گھر میں بیٹھا رہا اور دیکھا کہ اسے ہدیہ دیا جاتا ہے یا نہیں ۔“
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے عامل جو چیز بھی (ہدیہ کے طور پر ) لے گا اسے قیامت کے دن اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا ۔ اگر اونٹ ہو گا تو وہ اپنی آواز نکالتا آئے گا ، اگر گائے ہو گی تو وہ اپنی آواز نکالتی آئے گی ، اگر بکری ہو گی تو وہ بھی بولتی آئے گی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے حتی کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے پہنچا دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا ۔
[بخارى: 7174 ، كتاب الأحكام: باب هدايا العمال]
ہدیہ اگر بغیر کسی غرض کے ہو مثلا کوئی شخص قاضی کو اس عہدہ سے پہلے بھی ہدیے دیتا تھا تو اسے قبول کرنے میں اور اس کا بدلہ دینے میں کوئی حرج نہیں ۔ اور اگر ایسا نہیں تو پھر لازماََ ہدیہ دینے والا حکام کو اپنی طرف مائل کر کے اپنے مقاصد کا حصول مثلاََ دشمن پر دباؤ ، اپنے حق میں فیصلہ وغیرہ جیسے کام کروانا چاہتا ہے اور قاضی بھی اس کے حق میں فیصلہ دے گا کیونکہ یہ اس ہدیے کی وجہ سے یہی فیصلہ کرنا درست سمجھ رہا ہے تو رشوت سے بھی یہی کام لیا جاتا ہے اس لیے اس (ہدیے ) سے بھی منع کیا گیا ہے ۔
[نيل الأوطار: 362/5 ، أعلام الموقعين: 232/4]