شرعی فیصلے کا اختیار کن کے پاس
تحریر: عمران ایوب لاہوری

فیصلہ صرف اس کا درست ہوگا جو مجتہد ہو
لغوی وضاحت: لفظِ قضاء کا معنی ہے ”حکم ، فیصلہ وغیرہ ۔“ اس کی جمع أقضية ہے۔ باب قضٰى يَقُضِى (ضرب) فیصلہ کرنا ، باب قَضَّى يُقَضى (تفعيل ) قاضی بنانا ، باب قاضٰى يُقَاضِي (مفاعلة) اور باب تَقَاضي يَتَقَاضي (تفاعل) حاکم کے پاس فیصلہ لے کر جانا ۔ قَاضِي شرعی حاکم کو کہتے ہیں ، اس کی جمع قُضَاءَ ہے۔ قَضِيَّة کا معنی ہے ”معاملہ“ اور اس کی جمع قَضايا ہے ۔
[القاموس المحيط: ص / 1192]
اصطلاحی تعریف: جھگڑوں کا فیصلہ اور تنازعات کا خاتمہ کرنا ۔
[الدر المختار: 309/4 ، الشرح الكبير: 129/4 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 4231/8]
اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ [المائدة: 49]
”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان اس چیز کے ساتھ فیصلہ کیجیے جو اللہ نے اتاری ہے ۔“
فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ [المائدة: 42]
”ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو ۔“
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ [النساء: 105]
”بلاشبہ ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے تا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ رہنمائی کے مطابق لوگوں کے مابین فیصلہ کریں ۔“
لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ [المائدة: 8]
”کسی قوم کی عداوت تمہیں عدل کے خلاف آمادہ نہ کرے ، عدل کرو کیونکہ یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے ۔“
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ [المائدة: 44]
هُمُ الظَّالِمُونَ [المائدة: 45]
هُمُ الْفَاسِقُونَ [المائدة: 47]
”اور جو اللہ تعالٰی کے نازل کردہ فرامین کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں ۔ “
(دوسری آیت میں ہے )
”وہ ظالم ہیں ۔“
(اور تیسری آیت میں ہے )
”وہ فاسق و نا فرمان ہیں ۔“
یہ تمام آیات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دکھلائے ہوئے عدل و انصاف پر مبنی فیصلہ کرنا فرض ہے اور عدل و انصاف کو وہی شخص جانتا ہے جو کتاب و سنت کو جانتا ہے اور کتاب و سنت کو وہی جانتا ہے جو مجتہد ہو کیونکہ مقلد کو محض اپنے امام کے قول کی پہچان ہوتی ہے اس کی دلیل کی نہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دکھلائے ہوئے راستے کے مطابق صرف مجتہد ہی فیصلہ کر سکتا ہے کیونکہ مقلد تو اپنے امام کے دکھلائے ہوئے راستے پر ہی اکتفا کر چکا ہے ۔ فیصل و قاضی کے مجتہد ہونے کی دلیل درج ذیل حدیث بھی ہے:
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
القضاة ثلثة واحد فى الجنة واثنان فى النار فأما الذى فى الجنة فرجل عرف الحق فقضى به ورجل عرف الحق و جار فى الحكم فهو فى النار و رجل قضى للناس على جهل فهو فى النار
”قاضی کی تین اقسام ہیں جن میں سے دو جہنمی ہیں اور ایک جنتی ہے ایک وہ شخص جس نے حق کو پہچانا اور اس کے ساتھ فیصلہ کیا وہ جنتی ہے ۔ دوسرا وہ جس نے حق کی پہچان کر لی مگر فیصلہ حق کے ساتھ نہ کیا بلکہ فیصلہ میں ظلم کیا وہ دوزخی ہے اور تیسرا وہ جس نے نہ حق کو پہچانا نہ حق کے ساتھ فیصلہ کیا بلکہ اس نے لوگوں میں جہالت و نادانی سے فیصلہ کر دیا وہ بھی دوزخی ہے ۔
[صحيح: إرواء الغليل: 236/8 ، ابن ماجة: 2315 ، كتاب الأحكام: باب الحاكم يجتهد فيصيب الحق ، ابو داود: 3572 ، ترمذي: 1322 ، حاكم: 90/4]
اس حدیث میں محل شاہد یہ ہے کہ حق کو مجتہد ہی پہچان سکتا ہے نہ کہ مقلد ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے