یتیم کے مال کے احکام و شرعی حدود
تحریر: عمران ایوب لاہوری

یتیم کو مال میں تصرف کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک کہ اس کی فہم و فراست کا علم نہ ہو جائے
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ [النساء: 6]
”جب تم ان میں رشد (فہم و فراست ) محسوس کرو تو انہیں (یتیموں کو ) ان کے مال ادا کر دو ۔“
(جمہور ، احناف ، حنابلہ ، مالکیہ ) ان سب کے نزدیک رشد مال کا استعمال ، اس سے فائدے کا حصول ، اس کی حفاظت ، اس کی اصلاح اور اس کے ساتھ حسن تصرف کے طریقوں کی پہچان کو کہتے ہیں اگرچہ وہ شخص فاسق ہی کیوں نہ ہو ۔
[بدائع الصنائع: 170/7 ، الدر المختار: 105/5 ، بداية المجتهد: 278/2 ، المغنى: 467/4 ، كشاف القناع: 433/3]
منہاج السنہ میں ہے کہ بچے کے بالغ ہونے پر اس سے پابندی اٹھا لی جائے گی لیکن اگر وہ بلوغت کے بعد بھی سمجھدار نہ ہو تو پابندی پہلے کی طرح ہی برقرار رہے گی ۔
[منهاج مع معنى المحتاج: 166/2]
بلوغت کی علامات
بچے کے بالغ ہونے کے متعلق مختلف احادیث ہیں:
لايتم بعد احتلام
”احتلام کے بعد یتیم نہیں ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2497 ، كتاب الوصايا: باب ما جآء متى ينقطع اليتم ، ابو داود: 2873 ، بيهقي: 320/7 ، طيالسي: 1667]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جنگ اُحد کے دن چودہ سال کے تھے تو انہیں جنگ میں شرکت کی اجازت نہ ملی لیکن جنگ خندق کے دن پندرہ سال کے تھے تو انہیں اجازت دے دی گئی ۔
[بخاري: 4097 ، كتاب المغازي: باب غزوه الخندق وهى الأحزاب ، مسلم: 1868 ، ابو داود: 4406 ، ترمذي: 1711 ، ابن ماجة: 2543 ، احمد: 17/2]
➌ جنگ قریظہ کے دن جس شخص کے زیر ناف بال اُگے ہوتے اسے قتل کر دیا جاتا اور جس کے بال نہ ہوتے اسے چھوڑ دیا جاتا ۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 3704 ، كتاب الحدود: باب فى الغلام يصيب حدا ، ابو داود: 4404 ، ترمذي: 1584 ، نسائي: 155/6 ، ابن ماجة: 2541 ، عبد الرزاق: 18742 ، احمد: 130/4 ، ابن حبان: 1499]
درج بالا احادیث سے بلوغت کی تین علامات سامنے آتی ہیں:
① احتلام
② پندرہ سال عمر
③ زیر ناف بال اُگنا
اس پر اجماع ہے کہ احتلام مع انزال بلوغت کی علامت ہے ۔
[نيل الأوطار: 637/3]
(ابو حنیفہؒ) لڑکا اٹھارہ (18) سال کی عمر میں اور لڑکی سترہ (17) سال کی عمر میں بالغ ہوتی ہے ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ديكهيے: الأم: 247/3 ، الحاوى: 342/6 ، الهداية: 284/3 ، الاختيار: 95/2 ، الـمـغـنـي: 598/6 ، كشاف القناع: 444/3]
(جمہور ) لڑکا اور لڑکی دونوں پندرہ (15) برس کی عمر میں بالغ ہوتے ہیں ۔
[نيل الأوطار: 637/3]
زیر ناف بال اُگنا بھی بلوغت کی علامت ہے ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ديكهيے: حلیة العلماء: 533/4 ، روضة الطالبين: 412/3 ، بدائع الصنائع: 71/7 ، شرح فتح القدير: 202/8 ، المغنى: 597/6 ، الإنصاف: 320/5]
اس کے ولی کے لیے اس کے مال سے معروف طریقے سے کھانا جائز ہے
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [النساء: 6]
”غنی کو بچنا چاہیے اور فقیر معروف طریقے سے (یتیم کے مال سے ) کھا لے ۔“
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ آیت یتیم کے ولی کے متعلق نازل ہوئی کہ وہ جب فقیر ہو تو معروف طریقے سے اس کے مال سے کھا لے ۔
[بخاري: 4575 ، كتاب التفسير: باب ومن كان فقيرا فلياكل بالمعروف ، مسلم: 3019]
➌ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں فقیر ہوں میرے پاس کچھ نہیں ہے اور میرے پاس ایک یتیم ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كل من مال يتيمك غير مسرف ولا مبادر ولا متأثل
”تم یتیم کے مال سے کھا لو لیکن تم اسراف کرنے والے نہ ہو ، نہ جلدی ختم کرنے والے ہو اور نہ ہی ذخیرہ کرنے والے ہو ۔“
[حسن: إرواء الغليل: 277/5 ، 1456 ، مسند احمد: 215/2 ، ابو داود: 2872 ، كتاب الوصايا: باب ما جآء فيما لولى اليتيم أن ينال من مال اليتيم ، نسائي: 3668 ، ابن ماجة: 2718 ، بيهقى: 284/6 ، ابن الجارود: 952 ، شرح السنة: 305/8]
ناحق یتیموں کے اموال کھانا حرام ہے
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا ‎ [النساء: 10]
”بے شک جو لوگ ظلم کرتے ہوئے یتیموں کے اموال کھاتے ہیں وہ صرف اپنے پیٹوں میں (جہنم کی) آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے ۔“
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات ہلاک کر دینے والی اشیا میں:
أكل مال اليتيم
”نا حق یتیم کا مال کھانا“ بھی شمار کیا ۔
[بخاري: 2560 ، كتاب الوصايا: باب قول الله تعالٰى: إن الذين ياكلون أموال اليتيمى ظلما ، مسلم: 129]
یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یتیموں کے اموال تجارت کے لیے دے دیا کرتی تھیں ۔
[مؤطا: 251/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے