مفلس کی شرعی حیثیت اور قرض خواہوں کے حقوق
تحریر: عمران ایوب لاہوری

قرض خواہوں کے لیے جائز ہے کہ انہیں جو کچھ بھی اس کے پاس ملے پکڑ لیں البتہ وہ چیزیں نہ پکڑیں جس کے بغیر گزارہ ممکن نہیں اور وہ ہے گھر ، لباس ، سردی سے بچاؤ کا سامان اور اہل وعیال سمیت اس کی خوراک
لغوی وضاحت: دیوالیہ ہونے والے شخص کو مفلس کہتے ہیں ۔ باب أَفَلَسَ يُفْلِسُ (إفعال) ”مال باقی نہ رہنا۔“ دیوالیہ ہو جانا ، باب فَلسَ يُفَلِّسُ (تفعيل) دیوالیہ قرار دینا ۔
[لسان العرب: 318/10 ، المنجد: ص / 653]
اصطلاحی تعریف: حاکم کا مقروض کو دیوالیہ قرار دیتے ہوئے مال میں تصرف سے روک دینا ۔
[سبل السلام: 1160/3 ، بداية المجتهد: 280/2 ، القوانين الفقهية: ص / 318 ، الشرح الكبير: 261/3 ، مغنى المحتاج: 146/2 ، المغني: 408/4 ، كشاف القناع: 405/3]
امام شوکانیؒ رقمطراز ہیں کہ مفلس وہ ہے جس کا قرض مال سے زائد ہو جائے ۔
[نيل الأوطار: 267/3]
➊ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوت میں ایک شخص کو پھلوں کی تجارت میں کافی نقصان ہوا جس وجہ سے اس پر قرض کا بوجھ بہت زیادہ ہو گیا حتٰی کہ وہ کنگال ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تصدقوا عليه
”اس پر صدقہ کرو ۔“
لوگوں نے اس پر صدقہ کیا مگر وہ صدقہ اتنا نہیں تھا کہ قرض پورا ادا ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قرض خواہوں سے کہا:
خذوا ما وجدتم وليس لكم إلا ذلك
” (اس کے پاس تو یہی ہے ) جو کچھ ملتا ہے لے لو اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں ہے ۔“
[مسلم: 1556 ، كتاب المساقاة: باب استحباب الوضع من الدين]
(شوکانیؒ) اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ مفلس کے پاس جب معلوم قرض سے کم ادائیگی کی رقم ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ تمام مال (اشیائے ضروریہ کے سوا) قرض خواہوں کے سپرد کر دے اس کے علاوہ اس پر کچھ لازم نہیں اور حدیث کا ظاہری مفہوم یہ بھی بتلاتا ہے کہ اگرچہ وہ بعد میں مالدار بھی ہو جائے اس سے بقیہ قرض ساقط ہو جائے گا ۔
[نيل الأوطار: 628/3]
اور اشیائے ضروریہ کی قید اس لیے لگائی گئی ہے کیونکہ حدیث میں یہ موجود نہیں کہ انہوں نے مفلس شخص کے کپڑے بھی چھین لیے ہوں ، اسے گھر سے نکال دیا ہو یا اسے مع اہل وعیال اس حال میں چھوڑا ہو کہ ان کے پاس اپنی ضروری حاجات کے لیے اشیا موجود نہ ہوں ۔
[الروضة الندية: 516/2 ، تلخيص الحبير: 37/3]
جو شخص اپنا مال بعینہ پا لے تو وہی اس کا زیادہ حق دار ہے
➊ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من وجد متاعه عند مفلس بعينه فهو أحق به
”جو شخص مفلس کے پاس اپنا سامان بعینہ پا لے تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہے ۔“
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 1758 ، كتاب البيوع: باب فى الرجل يجد عين ماله عند رجل ، ابو داود: 3531 ، احمد: 10/5]
اگرچہ اس روایت میں ضعف ہے لیکن آئندہ صیح احادیث اس کے لیے شاہد ہیں ۔
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أدرك مـالـه بـعيـنـه عند رجل أفلس فهو أحق به من غيره
”جو شخص اپنا مال بعینہ مفلس کے پاس پا لے تو وہ دوسروں سے اس کا زیادہ حقدار ہے ۔“
[بخارى: 2402 ، كتاب الاستقراض: باب إذا وجد ماله عند مفلس فى البيع والقرض والوديعة فهو أحق به ، مؤطا: 678/2 ، مسلم: 1559 ، ابو داود: 3519 ، ترمذي: 1262 ، نسائي: 311/7 ، ابن ماجة: 2360 ، دارمي: 262/2 ، دارقطني: 29/3 ، ابن الجارود: 630 ، بيهقى: 33/6 ، الحلية لأبي نعيم: 361/5 ، شرح السنة: 339/4]
➌ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
أيما رجل أفلس فوجد رجل عنده ماله ولم يكن اقتضى من ماله شيئا فهو له
”جو شخص بھی مفلس ہو جائے اور قرض خواہ اس کے پاس اپنا مال پا لے لیکن اس نے ابھی کچھ (قیمت سے ) وصول نہ کیا ہو تو یہ اسی کا ہے ۔“
[احمد: 228/2 – 258]
➍ صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
قال فى الرجل الذى بعدم إذا وجد عنده المتاع ولم يفرقه إنه لصاحبه الذى باعه
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محتاج شخص کے متعلق فرمایا کہ اگر اس کے پاس تبدیلی کے بغیر سامان مل جائے تو وہ اس کے بیچنے والے مالک کا ہی ہے ۔“
[مسلم: 1559 ، كتاب المساقاة: باب من أدرك ما باعه عند المشترى وقد أفلس ، نسائي: 311/7]
➎ حضرت ابو بکر بن عبد الرحمٰن (تابعی) اسی معنی میں روایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
وإن مات المشترى فصاحب المتاع أسوة الغرماء
”اگر خریدار مر جائے تو صاحب مال دوسرے قرض خواہوں کے برابر ہے ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 1442 ، ابو داود: 3520 ، كتاب البيوع: باب فى الرجل يفلس فيجد الرجل متاعه بعينه عنده ، موطا: 678/2 ، ابن عبدالبر: 405/8]
(شافعیؒ ، جمہور) اگر بائع بعینہ اپنا مال مفلس کے پاس پا لے تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہے ۔
(احناف) بائع اس کا زیادہ حقدار نہیں خواہ وہ بعینہ اپنا مال مفلس کے پاس پا لے ۔
[الأم: 229/3 ، الحاوى: 273/6 ، الكافى: ص / 417 ، حاشية الدسوقي: 290/3 ، المغنى: 538/6 ، كشاف القناع: 425/3]
واضح رہے کہ گذشتہ صحیح احادیث احناف کا رد کرتی ہیں ۔
[مزيد يد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: نيل الأوطار: 630/3 ، الروضة الندية: 517/2]
اگر بائع نے مشتری سے کچھ رقم وصول کر لی ہو
تو پھر بائع اس چیز کا زیادہ حقدار نہیں ہو گا بلکہ وہ بھی بقیہ قرض خواہوں کے مساوی ہو گا ۔
(جمہور ) اسی کے قائل ہیں ۔
(شافعیؒ) اگرچہ بائع نے کچھ رقم وصول کر لی ہے پھر بھی وہی اس مال کا زیادہ مستحق ہے ۔
❀ امام صنعانیؒ اور امام شوکانیؒ فرماتے ہیں کہ لفظ بعينه سے یہ مسئلہ اخذ ہوتا ہے کہ جب قرض دینے والا یا فروخت کرنے والا اپنی چیز اس حالت میں نہ پائے جس حالت میں دی تھی اور اس کا کوئی وصف تبدیل ہو چکا ہو یا کچھ کمی بیشی ہو گئی ہو تو پھر صاحب مال اس کا زیادہ مستحق نہیں ہو گا بلکہ پھر وہ سارے قرض خواہوں کے برابر ہو گا ۔
[سبل السلام: 1163/3 ، نيل الأوطار: 629/3]
اگر مشتری سامان کی قیمت ادا کیے بغیر فوت ہو جائے
(شوکانیؒ ) اگر مشتری سامان کی قیمت ادا کیے بغیر فوت ہو جائے تو بائع دوسرے قرض خواہوں کے مساوی ہو گا ۔
(مالکؒ ، احمدؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
(شافعیؒ) اس صورت میں بھی بائع ہی اس چیز کا زیادہ مستحقیق ہو گا۔
(ابن حجرؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[فتح البارى: 346/5]
ان کی دلیل حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ہے:
من أفلس أو مات فوجد الرجل متاعه بعينه فهو أحق به
”جو شخص دیوالیہ ہو جائے یا فوت ہو جائے اور انسان اپنا سامان اس کے پاس بعینہ پا لے تو وہی اس کا زیادہ مستحق ہو گا ۔ “
لیکن یہ روایت ضعیف ہے ۔
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 757 ، كتاب البيوع: باب فى الرجل يفلس فيجد الرجل متاعه بعينه عنده ، إرواء الغليل: 1442 ، المشكاة: 2914 ، ابو داود: 3523 ، ابن ماجة: 2360 ، ابن الجارود: 634 ، دارقطني: 29/3 ، حاكم: 50/2 ، بيهقى: 46/6]
❀ صاحب متاع کے لیے جائز ہے کہ وہ حاکم کے حکم کے بغیر بھی اپنا مال وصول کرے ۔
[فتح الباري: 346/5]
أسوة الخرماء: أسوہ کا معنی ہے مساوی و برابر ہونا اور غرماء غریم کی جمع ہے اس سے مراد قرض خواہ ہیں ۔ یعنی وہ شخص بقیہ قرض خواہوں کے برابر حصہ وصول کرے گا ۔
جب مفلس کا مکمل مال بھی پورے قرض کی ادائیگی سے کم ہو تو جو موجود ہو گا وہ تمام قرض خواہوں میں تقسیم کر دیا جائے گا اور جب اس کا مفلس ہونا ثابت ہو جائے تو اسے قید کرنا درست نہیں ہے
اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں یہ لفظ ہیں:
فصاحب المتاع أسوة الغرماء
[صحيح: إرواء الغليل: 1442 ، ابو داود: 3520 ، كتاب البيوع: باب فى الرجل يفلس فيجد الرجل متاعه بعينه عنده ، مؤطا: 678/2 ، ابن عبدالبر: 405/8]
ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ [البقرة: 280]
”اگر وہ تنگ دست ہو تو اسے آسانی تک مہلت دو .“
مالدار شخص کی ٹال مثول ظلم ہے جو اس کی عزت کو پامال کر دیتی ہے اور اسے سزا کا مستحق بنا دیتی ہے
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والظلم مطل الغنى
”اور مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے ۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 4371 ، كتاب البيوع: باب مطل الغنى ، نسائي: 4692]
➋ حضرت عمرو بن شرید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لـى الــواجــد يــحــل عـرضـه و عقوبته
”مالدار شخص کی ٹال مٹول اس کی عزت پامال کر دیتی ہے اور اسے سزا کا موجب بنا دیتی ہے ۔“
[حسن: صحيح نسائي: 4372 ، كتاب البيوع: باب مطل الغنى ، نسائي: 4693 ، ابو داود: 3628 ، كتاب القضاء: باب فى الدين هل يحبس به]
❀ اگر اس شخص کا مفلس یا غنی ہونا مجہول ہو تو تفتیش کرائی جائے اگر وہ غنی ثابت ہو جائے تو حبس و قید اور عقوبت و سزا کے ذریعے اس سے مال نکلوایا جائے اور اگر مفلس ہو تو اسے آسانی ہونے تک مہلت دی جائے ۔
[الروضة الندية: 519/2]
حاکم وقت کے لیے جائز ہے کہ وہ مفلس کو اس کے مال میں تصرف سے روک دے اور اس کے مال کو قوض کی ادائیگی کے لیے فروخت کر دے
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم حجر على معاذ وباع ماله فى دينه
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ان کے مال میں تصرف سے روک دیا پھر اسے (مال کو ) قرض کی ادائیگی کے لیے فروخت کر دیا ۔“
[ضعيف: إرواء الغليل: 1435 ، حاكم: 58/2 ، دار قطني: 523 ، بيهقى: 48/6 ، ابن عساكر فى تاريخ دمشق: 1/315/16 ، طبراني اوسط: 1/146/1 ، الضعفاء للعقيلي: ص / 23 ، امام حاكمؒ نے اسے شيخين كي شرط پر صحيح كها هے اور امام ذهبيؒ نے بهي ان كي موافقت كي هے۔]
(ابو حنیفہؒ) نہ تو مقروض کو مال میں تصرف سے روکنا جائز ہے اور نہ ہی مال کو فروخت کرنا درست ہے ۔
[اس مسئلے كي مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: الأم: 242/3 ، فتح الوهاب: 201/1 ، بدائع الصنائع: 173/7 ، الهداية: 104/3 ، الاختيار: 98/2 ، الكافى: ص / 418 ، الخرشي: 669/5 ، المغنى: 585/6 ، كشاف القناع: 420/3 ، تبيين الحقائق: 199/5]
یاد رہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فعل سے بھی ثابت ہے کہ انہوں نے مقروض کو مال میں تصرف سے روک دیا تھا اور اس کا مال قرض خواہوں میں تقسیم کر دیا تھا ۔
[مؤطا: 770/2 ، بيهقي: 49/6 ، اس كي سند منقطع هے جيسا كه حافظ ابن حجرؒ نے فرمايا هے۔ تلخيص الحبير: 91/3 ، امام دارقطنيؒ نے اسے موصول بهي بيان كيا هے۔ دار قطني فى العذل: 147/2]
(شوکانیؒ ) فرماتے ہیں کہ کسی ایک صحابی سے بھی اس (یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فعل) پر انکار ثابت نہیں ہے ۔
[نيل الأوطار: 632/3]
اسی طرح حاکم وقت فضول خرچ اور نا معاملہ فہم شخص پر بھی پابندی عائد کر سکتا ہے
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ [النساء: 5]
”بے وقوفوں کو اپنے اموال مت دو ۔“
تفسیر کشاف میں ہے کہ :
السفهاء المبذرون
”آیت میں سفہاء سے مراد فضول خرچی کرنے والے ہیں جو نا مناسب جگہوں میں مال خرچ کرتے ہیں ۔ اور آیت میں خطاب ان کے اولیاء کو ہے کہ وہ ان کے مال پر پابندی عائد کریں ۔“
[تفسير الكشاف: 471/1]
➋ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے کچھ خریدا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے تم پر لازما پابندی لگواؤں گا ۔ یہ بات عبد اللہ بن جعفر نے زبیر رضی اللہ عنہ کو بتلا دی تو انہوں نے کہا میں تجارت میں تمہارا شریک ہوں (اُدہر ) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا آئیے اس پر (مالی تصرف میں ) پابندی لگائیے تو زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا میں اس کا شریک ہوں ۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا:
أحجر على رجل شريكه الزبير؟
”کیا میں ایسے شخص پر پابندی لگاؤں جس کے شریک زبیر رضی اللہ عنہ ہیں ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 1449 ، مسند شافعي: 1229 ، بيهقى: 61/6]
➌ ایک آدمی نے اپنا غلام یوں آزاد کیا کہ وہ اس کے مرنے کے بعد آزاد ہو گا حالانکہ اس کے پاس کوئی اور مال بھی نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا رد کرتے ہوئے غلام کو نعیم بن نحام کے ہاتھوں فروخت کر دیا ۔
[بخاري: 2415 ، كتاب الخصومات: باب من رد أمر السفيه والضعيف العقل ]
اس حدیث کو نقل کرنے سے پہلے امام بخاریؒ نے یہ باب قائم کیا ہے:
من رد أمر السفيه والضعيف العقل وإن لم يكن حجر عليه الإمام
”نادان یا کم عقل شخص کے معاملے کو رد کیا جائے گا اگرچہ اس پر حاکم نے پابندی نہ لگائی ہو ۔“
(ابن حجرؒ) فرماتے ہیں کہ بے وقوف پر مالی تصرف کی پابندی لگانے میں حکمت یہ ہے کہ اموال کی حفاظت ہو سکے ۔ کیونکہ انہیں انتفاع کے لیے بنایا گیا ہے کہ ضیاع کے لیے نہیں ۔
[فتح الباري: 350/5]
❀ بڑے آدمی پر پابندی لگانے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے ۔
(جمہور ) بڑے آدمی پر پابندی لگانا جائز ہے ۔
(ابوحنیفہؒ) جائز نہیں ۔
[فتح البارى: 350/5 ، الأم: 251/3 ، روضة الطالبين: 363/3 ، بدائع الصنائع: 169/7 ، الاختيار: 96/2 ، الكافي: ص / 423 ، المغنى: 593/6 ، كشاف القناع: 417/3 ، بداية المجتهد: 231/2 ، نيل الأوطار: 633/3]
(طحاویؒ ) فرماتے ہیں کہ میں نے صحابہ اور تابعین میں سے سوائے ابراہیمؒ اور ابن سیرینؒ کے کسی ایسے کو نہیں دیکھا جس نے کبیر (بڑے آدمی ) پر پابندی لگانے سے روکا ہو ۔
[ابن أبى شيبة: 362/4]
(راجح) بڑے آدمی پر بھی پابندی لگانا جائز ہے (کیونکہ بڑا آدمی بھی نادان و کم عقل ہو سکتا ہے ) ۔
[نيل الأوطار: 633/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے