مسلمانوں کو دو ہی عیدیں دی گئی ہیں، عید الفطر اور عید الاضحیٰ۔ ان کے علاوہ تمام عیدیں، جو مذہب کے نام پر منائی جاتی ہیں، بدعت کے زمرے میں آتی ہیں، عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان میں سے ایک ہے۔
مفتی نعیمی صاحب کا میلاد کے متعلق نظریہ:
❀ مفتی احمد یار خان نعیمی بریلوی رحمہ اللہ (1971ء) لکھتے ہیں:
محفل میلاد شریف اچھی چیز ہے، کیونکہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا ذکر ہوتا ہے۔
(تفسیر نور العرفان، ص 176)
محفل میلاد بدعت ہے اور بدعت کبھی اچھی نہیں ہوتی، بھلا یہ کیسی اچھائی ہے، جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین محروم رہے اور علمائے حق اسے بدعت قرار دیتے رہے۔ جو کام عیسائیوں سے مستعار ہو اور روافض کے ذریعہ اسلام میں داخل ہو، وہ اچھی چیز کیسے ہو سکتی ہے؟
میلاد پر خرچ کرنا:
❀ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
اس خرچ کرنے میں زکوٰۃ، صدقات، محفل میلاد میں خرچ، گیارہویں شریف وغیرہ۔ غرض کہ ہر کار خیر میں خرچ کرنا شامل ہے۔
(تفسیر نور العرفان، ص 3)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کو یوم عید قرار دینا روافض کا طریقہ ہے۔ عید میلاد بدعت ہے۔ اس کا کوئی شرعی جواز نہیں۔ مسلمانوں کے دو مذہبی تہوار ہیں، ان کے علاوہ کوئی مذہبی تہوار نہیں، لہذا عید میلاد منانا، یا اس پر خرچ کرنا درست نہیں۔
میلاد پڑھنا سنت ہے؟:
❀ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
ان ساری آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد شریف ارشاد فرمایا، ان کی تشریف آوری اور ان کے فضائل۔ معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد پڑھنا سنت الہیہ ہے، نبیوں نے بھی ان کا میلاد شریف پڑھا، لہذا میلاد سنت انبیا بھی ہے۔
(تفسیر نور العرفان، ص 329، 638)
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالے سے غلو ہے۔ یہ اہل سنت والجماعت کی مخالفت ہے۔ کسی صحابی، تابعی، تبع تابعی اور ثقہ امام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کو عید منانا ثابت نہیں۔ اگر یہ دین ہوتا، تو وہ زیادہ حق دار تھے کہ اسے اختیار کرتے، کیونکہ وہ راہ حق کی پہچان رکھتے تھے۔ لہذا ہر ایک کو چاہیے کہ اپنے آپ کو محدثین کی جماعت کا پیروکار بنائے، ان کے خلاف راہ اختیار نہ کرے، کیونکہ محدثین کے عقائد و اعمال قرآن و حدیث سے ماخوذ ہیں اور حق ہیں۔ جس قدر انسان سبیل مومنین سے دور ہوتا چلا جائے گا، اس قدر گمراہی کے قریب ہوتا جائے گا۔
رب کی رحمت کی خوشی:
❀ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے مہینے یعنی ربیع الاول میں خوشی منانا، عبادات کرنا بہتر ہے، کیونکہ رب کی رحمت ملنے پر خوشی کرنی چاہیے۔ (تفسیر نور العرفان، ص 342)
بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہر مومن کے لیے باعث خوشی ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ معنی نہیں کہ اپنی طرف سے عبادت نکال لی جائے۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مسلمین ربیع الاول میں بطور خاص عبادت نہیں کرتے تھے۔ یہ سبیل مومنین ہے، اس کی پیروی راہ حق کی پیروی ہے، اس کی مخالفت گمراہی اور ضلالت ہے۔ اسلاف امت ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، ان کا علم ہماری دلیل ہے، وہ سب سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کو پانے والے تھے۔
❀ مفتی صاحب سورت مائدہ (11) کے تحت لکھتے ہیں:
معلوم ہوا کہ اللہ کی نعمت یاد کرنا حکم ربانی ہے محفل میلاد شریف میں بھی اللہ کی بڑی نعمت کی یاد کی جاتی ہے، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت رب کی سب سے بڑی نعمت ہے۔
(تفسیر نور العرفان، ص 173)
بے شک اللہ کی نعمت یاد کرنا حکم ربانی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت بھی بہت بڑی نعمت ہے، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بہت بڑی نعمت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کا نزول بہت بڑی نعمت ہے۔ مگر نعمت یاد کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم بدعات و خرافات کو دین بنا لیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ دین اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرتے تھے، انہوں نے کبھی بھی محفل میلاد کا انعقاد نہیں کیا، بلکہ علمائے حق نے محفل میلاد کو بدعت قرار دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کو محفل میلاد منعقد کرنا عیسائیوں کا طریقہ ہے۔ ہمیں اہل کتاب کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔
محفل میلاد کو حرام سمجھنا بے دینی ہے؟:
❀ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
محفل میلاد شریف اور بزرگوں کی فاتحہ وغیرہ کو بلا دلیل شرعی حرام سمجھ لینا بے دینی ہے۔
(تفسیر نور العرفان، ص 342، 193)
❀ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
میلاد شریف کی مجلس ایمانی مجلس ہے۔
(تفسیر نور العرفان، ص 868)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن محفل منعقد کرنا روافض کا دین ہے۔ جو عیسائیوں سے مستعار لیا گیا ہے۔ وہ بھی عیسیٰ علیہ السلام کے یوم ولادت کو یوم عید قرار دیتے ہیں۔ اسلاف امت سے عید میلاد ثابت نہیں۔ اسے دین قرار دینا قطعاً درست نہیں۔ بزرگوں کی فاتحہ، یہ محض شکم پروری کے بہانے ہیں۔ لوگوں کا مال ناحق اور باطل طریقے سے ہڑپ کرنا ہے۔ یہ دین نہیں، بلکہ ایجاد دین ہے۔ یہ کیسا دین ہے، جس سے اسلاف امت ناواقف تھے۔ اگر اس پر دلیل ہوتی، وہ سب سے بڑھ کر اس کی پیروی کرتے۔ ان کا بزرگوں کی فاتحہ نہ دلوانا دلیل ہے کہ یہ دین نہیں، بلکہ بے دینی ہے۔
❀ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
جو میلاد شریف کی شیرینی، فاتحہ کے کھانے بغیر ثبوت حرام کہتے ہیں، وہ جھوٹے ہیں، یہ تمام چیزیں حلال ہیں۔
(تفسیر نور العرفان، ص 446)
میلاد اور فاتحہ خوانی کرنا بدعت ہیں، اسلاف امت ان سے ناواقف تھے۔ میلاد کی شیرینی اور فاتحہ کا کھانا حرام نہیں، لیکن اس لیے نہیں کھانا چاہیے کہ اس میں بدعت کی حوصلہ افزائی ہے اور گناہ میں تعاون ہے۔
میلاد سے روکنا اللہ کی راہ سے روکنا ہے؟:
❀ مفتی صاحب سورت توبہ (10) کے تحت لکھتے ہیں:
اس سے وہ لوگ عبرت پکڑیں، جو میلاد شریف، ختم بزرگان اور دوسرے نیک اعمال سے بلا وجہ لوگوں کو روکتے ہیں۔ یہ بھی اللہ کی راہ سے روکنا ہے، کیونکہ یہ سارے کام اللہ کے لیے کیے جاتے ہیں۔
(تفسیر نور العرفان، ص 314, 300, 985)
جب میلاد اور ختم بزرگان ثابت ہی نہیں، تو ان سے روکنا، اللہ کی راہ سے روکنا کیسے؟ بلکہ یہ بدعات ہیں۔ جو دیگر اقوام سے مستعار لی گئی ہیں، لہذا ان سے روکنا، عین حق اور مذہبی فریضہ ہے، جیسا کہ علمائے حق روکتے ہیں۔ ہم مفتی صاحب کی زبان میں کہیں گے کہ سچے دین کی پہچان ہے کہ وہ سلف صالحین کا دین ہو، یہ حضرات ہدایت کی دلیل ہیں۔
(تفسیر نور العرفان، ص 30)
میلاد میں علماء سے وعظ کروانا:
❀ مفتی صاحب سورت ابراہیم (5) کے تحت لکھتے ہیں:
میلاد، معراج و شب قدر میں علما سے وعظ کرانا محمود ہے کہ وہ واعظین اللہ کے دن یاد دلاتے ہیں۔
(تفسیر نور العرفان، ص 407)
میلاد کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، علمائے کرام نے اسے بدعت کہا ہے۔ انسانوں کے یوم ولادت اور یوم وفات میں کوئی خاص عمل مشروع ہوتا، تو اللہ تعالیٰ تمام انبیا کے یوم ولادت اور یوم وفات کے متعلق ہمیں مطلع فرما دیتے۔ معراج حق ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت بیداری میں جسمانی معراج ہوا۔ کب ہوا؟ اس کا صحیح علم اللہ کے پاس ہے۔ جب ہمیں اس کی صحیح تاریخ ہی معلوم نہیں، تو وعظ کرانا محمود کیسے ہوا؟ تو واعظین اللہ کے دن کیسے یاد دلائیں گے؟ شب قدر میں عبادت مشروع اور مستحب قرار دی گئی ہے۔ اس کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے، اس رات بطور خاص وعظ کا ثبوت نہیں۔ معلوم ہوا شب قدر کے ساتھ میلاد اور معراج کو ملانا درست نہیں۔
ثوبیہ لونڈی والا قصہ:
❀ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
ابو لہب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے دوزخ میں انگلی سے پانی ملتا ہے۔
(تفسیر نور العرفان، ص 37, 577)
یہ بات درست نہیں۔ اس کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں:
❀ تابعی عروہ بن زبیر کا بیان ہے:
تويبة مولاة لأبي لهب، كان أبو لهب أعتقها، فأرضعت النبى صلى الله عليه وسلم، فلما مات أبو لهب أريه بعض أهله بشر حيبة، قال له: ماذا لقيت؟ قال أبو لهب: لم ألق بعدكم غير أني سقيت فى هذه بعتاقتي تويبة
ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی، ابو لہب نے اسے آزاد کر دیا، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا، موت کے بعد اس کے اہل خانہ میں سے کسی نے خواب میں اسے بری حالت میں دیکھا، اس نے اس (ابو لہب) سے پوچھا، تو نے کیا پایا ہے؟ ابو لہب بولا کہ تمہارے بعد میں نے کوئی راحت نہیں پائی، ماسوائے اس کے کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے اس (انگوٹھے اور انگشت شہادت کے درمیان گڑھے) سے پلایا جاتا ہوں۔
(صحیح البخاری معلقاً، تحت الحدیث: 5101، نصب الرایہ للزیلعی: 168/3، مصنف عبدالرزاق: 62/9، ح: 16350، اس کی سند عبدالرزاق صنعانی کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے)
➊ یہ عروہ بن زبیر کا مرسل قول ہے، لہذا ضعیف و ناقابل استدلال ہے، حیرانی ہے کہ جو لوگ عقائد میں خبر واحد کو حجت نہیں مانتے، وہ تابعی کے اس ضعیف قول سے استدلال لے رہے ہیں!
➋ ایک کافر کے بعض اہل خانہ کے خواب کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
➌ یہ خواب نص قرآنی کے خلاف ہے، فرمان باری تعالیٰ ہے:
تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ﴿١﴾ مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ ﴿٢﴾
(111-المسد:1، 2)
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور وہ خود بھی ہلاک ہو گیا، اسے اس کے مال اور اعمال نے کچھ فائدہ نہ دیا۔
➍ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًا ﴿٢٣﴾
(25-الفرقان:23)
ہم ان کے اعمال کا جائزہ لیں گے اور انہیں اڑتا ہوا اخبار بنا دیں گے۔
➎ یہ ثابت نہیں کہ اس نے اپنی لونڈی ثویبہ کو اس وجہ سے آزاد کیا تھا کہ اس نے ابو لہب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشخبری سنائی تھی، لہذا مفتی صاحب کا یہ کہنا درست نہیں:
بات یہ تھی کہ ابو لہب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بھائی تھا، اس کی لونڈی ثویبہ نے آکر اس کو خبر دی کہ آج تیرے بھائی عبداللہ رضی اللہ عنہ کے گھر فرزند (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) پیدا ہوئے، اس نے خوشی میں اس لونڈی کو انگلی کے اشارے سے کہا کہ جا تو آزاد ہے۔
(جاء الحق: 235/1)
مائدہ کے دن کو عید بنانے سے استدلال:
❀ مفتی صاحب سورت مائدہ (114) کے تحت لکھتے ہیں:
اس سے معلوم ہوا کہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے دن کو عید میلاد منانا سنت پیغمبر سے ثابت ہے، کیونکہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مائدہ سے بڑی نعمت ہے، نیز اس سے نعمتوں کی تاریخیں منانا، انہیں بڑا متبرک دن کہنا جائز، بلکہ سنت نبی ہے، تقرر اور تعین بھی سنت ہے۔ عیسائیوں کا بڑا دن اسی کی یادگار ہے۔
(تفسیر نور العرفان، ص 193)
عیدیں ہر شریعت کی اپنی ہیں، ہمیں عید الفطر اور عید الاضحیٰ دی گئیں ہیں، ورنہ جس دن عیسیٰ علیہ السلام نے عید منائی، اس دن آپ عید کیوں نہیں مناتے؟ کیا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی خوشی میں شریک نہیں آپ؟ اگر شریک ہیں اور یقیناً ہیں، تو اس کار خیر سے پیچھے رہ جانے کا کیا جواز؟
عید میلاد منانا سنت پیغمبر سے ثابت نہیں ہے۔ بلا شبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مائدہ سے بڑی نعمت ہے، اس سے اسلاف امت بخوبی واقف تھے۔ اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، اتباع تابعین اور ائمہ نے عید میلاد نہ منائی۔ اگر یہ دین ہوتا، تو اسلاف امت اول حق دار تھے کہ اس پر عمل کرتے، کیونکہ وہ سب سے بڑھ کر کتاب و سنت کی تعبیروں کو سمجھنے والے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت کرنے والے تھے۔
❀ مفتی صاحب حافظ سخاوی رحمہ اللہ (902ھ) سے نقل کرتے ہیں:
لم يفعله أحد من القرون الثلاثة، إنما حدث بعد
یہ کام (عید میلاد) تینوں زمانوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور تبع تابعین) میں سے کسی نے نہیں کیا۔ یہ تو بعد میں ایجاد ہوا۔
(جاء الحق: 236/1)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) فرماتے ہیں:
أصل عمل المولد بدعة لم تنقل عن أحد من السلف الصالح من القرون الثلاثة
میلاد کی اصل بدعت ہے۔ یہ عمل تین (مشہود لہا بالخیر) زمانوں کے سلف صالحین میں سے کسی سے منقول نہیں۔
(الحاوی للفتاوی للسیوطی: 196/1)
❀ علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ (737ھ) فرماتے ہیں:
إن خلا منه وعمل طعاما فقط ونوى به المولد ودعا إليه الإخوان، وسلم من كل ما تقدم ذكره، فهو بدعة بنفس نيته فقط؛ لأن ذلك زيادة فى الدين وليس من عمل السلف الماضين، واتباع السلف أولى، ولم ينقل عن أحد منهم أنه نوى المولد، ونحن تبع فيسعنا ما وسعهم
اگر میلاد گانے سے خالی ہو، صرف کھانا تیار کیا جائے، نیت میلاد کی ہو اور کھانے پر دوست احباب کو مدعو کیا جائے۔ یہ کام اگر مذکورہ قباحتوں سے خالی بھی ہو، تو یہ صرف میلاد کی نیت کی وجہ سے بدعت بن جائے گا، کیونکہ یہ دین میں زیادت ہے۔ سلف صالحین کا اس پر عمل نہیں۔ سلف کا اتباع ہی لائق عمل ہے۔ سلف صالحین میں سے کسی سے یہ منقول نہیں کہ اس نے میلاد کی نیت سے کوئی کام کیا ہو۔ ہم سلف صالحین کے پیروکار ہیں۔ ہمیں وہی عمل کافی ہو جائے گا، جو سلف کو کافی ہوا تھا۔
(الحاوی للفتاوی للسیوطی: 195/1)
نعمتوں پر شکر کا طریقہ شریعت نے واضح اور متعین کر دیا ہے۔ ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم عبادات کے طریقے متعین کریں، نیز کوئی بڑا یا چھوٹا متبرک دن نہیں۔ دن مبارک ہوتے ہیں، متبرک نہیں۔ غلو سے بچنا چاہیے، کیونکہ پہلی قوموں کی ہلاکت کا سبب غلو ہی بنا۔