سوال
ایک والد جو ابھی تک زندہ ہے، اس نے اپنا مکان صرف اپنی دو بیٹیوں کے نام کروا دیا ہے جبکہ اپنے بیٹوں کو کچھ بھی نہیں دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر بیٹیاں یہ مکان نہ لیں تو وہ کسی اور کو دے دے گا لیکن کبھی بھی بیٹوں کو نہیں دے گا۔ ایسی صورت میں، جبکہ سب بیٹے اور بیٹیاں شادی شدہ ہیں، کیا بیٹیاں یہ مکان لے سکتی ہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک والد پر لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان انصاف اور برابری کے اصول کو ملحوظ رکھے۔ جیسا کہ
صحیح بخاری
کی روایت میں
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ
کی حدیث اور دیگر احادیث سے واضح ہوتا ہے، انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنی تمام اولاد کے ساتھ – چاہے وہ بیٹے ہوں، بیٹیاں ہوں، یا دونوں – عدل و مساوات کا برتاؤ کرے۔
اگر والد کسی وجہ سے اس ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی برت رہا ہے اور اپنی اولاد میں غیر منصفانہ تقسیم کر رہا ہے، تو ایسی صورت میں اولاد پر (چاہے بیٹے ہوں یا بیٹیاں) لازم ہے کہ:
✿ وہ ایسی خلافِ شرع تقسیم کو قبول نہ کریں۔
✿ اور نہ ہی ایسی ناانصافی پر مبنی تقسیم میں والد کا ساتھ دیں۔
یعنی بیٹیوں کو یہ مکان اس حالت میں لینا جائز نہیں جب وہ جانتی ہوں کہ یہ تقسیم عدل و انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے، اور والد نے جان بوجھ کر بیٹوں کو محروم کیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب