ٹوکن انعام اور نعت محفل قرعہ اندازی کا شرعی حکم
ماخوذ : احکام و مسائل – خرید و فروخت کے مسائل، جلد 1، صفحہ 387

سوال

➊ گھی بیچنے والوں کی جانب سے ایک ٹوکن گھی کے ڈبے سے نکلتا ہے جس میں کوئی انعام رکھا ہوتا ہے۔ جس خریدار کے ڈبے یا بالٹی سے وہ ٹوکن نکل آئے، اسے انعام دے دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات کسی خریدار کے حصے میں کوئی پلاٹ بھی آ جاتا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس میں بیچنے والے کی طرف سے کوئی شرط نہیں ہوتی کہ اتنا گھی خریدو تو انعام ملے گا ورنہ نہیں۔ بس جس کے پیکٹ سے وہ پرچی نکلے، اسے انعام دے دیا جاتا ہے۔

➋ اسی طرح بریلوی فرقہ کی محفل نعت میں یہ رواج پایا جاتا ہے کہ شرکاء (سامعین) آپس میں قرعہ اندازی کرتے ہیں اور جس کے نام پر قرعہ نکلتا ہے، اسے عمرہ کا ٹکٹ دیا جاتا ہے (محفل کے اختتام پر)۔ ان دونوں صورتوں میں پہلا فریق غالباً اس نیت سے یہ عمل کرتا ہے کہ اس کا گھی زیادہ فروخت ہو، جبکہ دوسرا فریق چاہتا ہے کہ محفل میں شرکت کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہو۔ اب اگر کسی کو انعام یا عمرہ کا ٹکٹ نکل آئے تو وہ اسے قبول کرے یا نہ کرے، اس حوالے سے شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1) ٹوکن کے ذریعے انعامی اسکیم کا حکم:

آپ نے جو ٹوکن والی صورت ذکر کی ہے اور اس قسم کی دیگر صورتیں جو آج کل بائع (بیچنے والے) لوگ اختیار کرتے ہیں، یہ تمام صورتیں قمار، میسر اور جوا کے زمرے میں آتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿يَسۡ‍َٔلُونَكَ عَنِ ٱلۡخَمۡرِ وَٱلۡمَيۡسِرِۖ﴾
(البقرة 219)
*”اور وہ آپ سے شراب اور جوا کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔”*

اور ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِنَّمَا ٱلۡخَمۡرُ وَٱلۡمَيۡسِرُ﴾
(المائدة 90)
*”اے ایمان والو! بے شک شراب اور جوا (حرام ہیں)…”*

لہٰذا، ایسی اسکیمز جن میں کسی خریدی گئی شے کے بدلے انعامی ٹوکن نکلنے کی امید رکھی جائے، وہ جوا کے حکم میں شامل ہیں، چاہے بظاہر شرط نہ ہو۔ یہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے اور زیادہ فروخت کی نیت سے کیا جاتا ہے، اور انعام کا حصول قرعہ اندازی یا موقع پر مبنی ہوتا ہے، جو قمار (جوا) کی صورت ہے۔

(2) محفل نعت میں عمرہ ٹکٹ کی قرعہ اندازی کا حکم:

یہ صورت قمار اور میسر کے تحت نہیں آتی بلکہ صرف تحریض و ترغیب کی ایک شکل ہے۔ اس کی مثال ایسی دعوت یا مہمات سے دی جا سکتی ہے جیسے "لَشَہِدَ الْعِشَآئَ” (رات کے کھانے میں شرکت کی رغبت) یا چقندر والی اماں کی دعوت جیسی صورتیں۔

البتہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ:
◈ اس عمل میں کوئی ایسی بات شامل نہ ہو جو انسان کے دین و عقیدہ کے خلاف ہو۔
◈ اگر کوئی شبہ ہو کہ اس طرح کے انعامات سے کوئی غیر شرعی عقیدہ یا بدعتی سوچ فروغ پائے گی، تو عمرہ ٹکٹ لینے والے کو خاص طور پر محتاط رہنا چاہیے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے