نبیﷺ کا ذکر سن کر یا میلاد کا ذکر کرتے ہوئے کھڑے ہو جانا
یہ اقتباس شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری کی کتاب عید میلا النبیﷺ کی شرعی حیثیت سے ماخوذ ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر یا میلاد کا ذکر کرتے ہوئے تعظیماً کھڑے ہو جانے کا عمل بے ثبوت و بے اصل ہے۔ اس کی بنیادیں محض نفسانی خواہشات پر اٹھائی گئی ہیں اور غلو ان کا گلا پکڑے ہوئے ہے۔ احکامات شرعیہ کا ثبوت قرآن و حدیث، اجماع امت اور فہم سلف سے ہوتا ہے اور ان تمام مصادر میں قیام میلاد کا ذکر کیا اشارہ بھی نہیں ملتا، لیکن:
❀ ایک صاحب کہتے ہیں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کھڑے ہو کر پڑھنا انبیائے کرام کی سنت ہے۔
ان کے دلائل پر تبصرہ تو آئندہ سطور میں کیا جائے گا، سردست اس حوالے سے اہل علم کا بیان ملاحظہ فرمائیں۔
❀ علامہ محمد بن یوسف صالحی شامی (م: 942ھ) فرماتے ہیں:
جرت عادة كثير من المحبين إذا سمعوا بذكر وصفه صلى الله عليه وسلم أن يقوموا تعظيما له صلى الله عليه وسلم، وهذا القيام بدعة، لا أصل له
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے بہت سے دعوے داروں میں یہ عادت رواج پا گئی ہے کہ وہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صفت کا ذکر سنتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ قیام ایسی بدعت ہے، جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں۔
(سبل الهدى والرشاد: 415/1)
❀ علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی (م: 1304ه) فرماتے ہیں:
منها أى من القصص المختلقة الموضوعة ما يذكرونه من أن النبى صلى الله عليه وسلم يحضر بنفسه فى مجالس وعظ عند ذكر مولده، فبنوا عليه القيام عند ذكر المولد تعظيما وإكراما، وهذا أيضا من الأباطيل، لم يثبت ذلك بدليل، ومجرد الاحتمال والإمكان خارج عن حد البيان
اہل بدعت کے بیان کردہ من گھڑت قصوں میں ایک قصہ یہ بھی ہے کہ جن مجالس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مجالس میں بنفس نفیس تشریف فرما ہوتے ہیں۔ اسی کو بنیاد بنا کر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے ذکر کے وقت قیام کی روایت ڈالی ہے۔ یہ جھوٹی باتیں ہیں، کسی دلیل سے ان کا ثبوت نہیں ملتا۔ یہ اعمال احتمالات و امکانات پر کھڑے کیے گئے ہیں اور ان پر بھی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
(الآثار المرفوعة لعبد الحي، ص 46)
❀ علامہ ابن حجر ہیثمی رحمہ اللہ (م: 974ھ) کہتے ہیں:
نظير ذلك فعل كثير عند ذكر مولده صلى الله عليه وسلم، ووضع أمه له من القيام، وهو أيضا بدعة، لم يرد فيه شيء على أن الناس إنما يفعلون ذلك تعظيما له صلى الله عليه وسلم، فالعوام معذورون لذلك بخلاف الخواص
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا ذکر کرتے ہوئے بہت سے لوگوں کا تعظیماً کھڑے ہو جانا بھی ایک بدعت ہے۔ اس پر کوئی دلیل نہیں ملتی۔ لوگ یہ عمل تعظیم رسول کی نیت سے کرتے ہیں۔ عوام بیچارے ناسمجھ معذور ہیں جب کہ خواص کی پکڑ ضرور ہوگی۔
(الفتاوى الحديثية، ص 58)
پھر قیام میلاد کے حامیان باہم مختلف ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے بیانات ملتے ہیں اور بیان کا تضاد تحقیق کی عدالت میں قابل ملاحظہ و قابل قبول نہیں ہوتا، مثلاً:
بعض لوگوں کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس اس محفل میں تشریف فرما ہوتے ہیں، جب کہ بعض کہتے ہیں:
”تاہم یہ بات ممکنات میں سے ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روحانی طور پر محفل میلاد میں تشریف لائیں۔ “
❀ بعض نے کہا ہے:
ایسا ہونا گویا صورت معجزہ ممکن ہے۔
المہم! یہ سب ان کے اپنے منہ کی باتیں ہیں۔ قرآن و سنت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔
اسی طرح بعض غالی صوفیا کا دعویٰ ہے کہ وہ حالت بیداری میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی میلادی محافل میں حاضر ہوتے ہیں وغیرہ۔ تو یہ بات کتاب و سنت اور اجماع امت کے صریح مخالف ہے۔ لہذا ان باتوں کا مقام وہی ہے، جو کہ جھوٹ کا ہوا کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں، اللہ کے پاس جا چکے ہیں اور فوت ہو جانے والے روز قیامت ہی اپنی قبروں سے نکالے جائیں گے، اس سے پہلے نہیں۔
❀ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ﴾
(المؤمنون: 15-16)
تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو اور تم روز قیامت زندہ کیے جاؤ گے۔
اللہ بتا رہے ہیں کہ فوت شدگان روز قیامت ہی زندہ ہوں گے، دنیا سے ایک دفعہ چلے جانے کے بعد واپس نہیں آئیں گے۔ جو کہتا ہے کہ انسان فوت ہو جانے کے بعد بھی واپس آسکتے ہیں، تو وہ حق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے، حق جسے سلف نے پہچانا تھا اور جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام چلتے رہے ہیں۔
بعض دیوبندی اکابر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد از وفات محافل میلاد میں تشریف لانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر قیام کو جائز قرار دیتے ہیں۔
❀ حاجی امداد اللہ مکی صاحب(م: 1317ھ) کہتے ہیں:
البتہ وقت قیام کے اعتقاد تولد کا نہ کرنا چاہیے۔ اگر احتمال تشریف آوری کا کیا جائے، تو کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ عالم خلق مقید بزمان و مکان ہے، لیکن عالم امر دونوں سے پاک ہے۔ پس قدم رنجہ فرمانا ذات بابرکات کا بعید نہیں۔
(امداد المشتاق از اشرف علی تھانوی: 56)
❀ علامہ اشرف علی تھانوی کی کتاب میں ہے:
جب مثنوی شریف ختم ہو گئی، بعد ختم حکم شربت بنانے کا دیا اور ارشاد ہوا کہ اس پر مولانا (روم) کی نیاز بھی کی جائے گی۔ گیارہ گیارہ بار سورۃ الاخلاص پڑھ کر نیاز کی گئی اور شربت بٹنا شروع ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ نیاز کے دو معنی ہیں۔ ایک عجز و بندگی اور وہ سوائے خدا کے دوسرے کے واسطے نہیں ہے، بلکہ ناجائز شرک ہے۔ اور دوسرے خدا کی نذر اور ثواب خدا کے بندوں کو پہنچانا، یہ جائز ہے۔ لوگ انکار کرتے ہیں۔ اس میں کیا خرابی ہے؟ اگر کسی عمل میں عوارض غیر مشروع لاحق ہوں تو ان عوارض کو دور کرنا چاہیے، نہ یہ کہ اصل عمل سے انکار کر دیا جائے۔ ایسے امور سے انکار کرنا خیر کثیر سے باز رکھنا ہے، جیسے قیام مولد شریف۔ اگر بوجہ آئے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی شخص تعظیماً قیام کرے تو اس میں کیا خرابی ہے؟ جب کوئی آتا ہے تو لوگ اس کی تعظیم کے واسطے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر اس سردار عالم و عالمیان (روحی فداہ) کے اسم گرامی کی تعظیم کی گئی تو کیا گناہ ہوا؟
(امداد المشتاق از تھانوی: ص 88)
یہ قیاس مع الفارق ہے کہ عالم ارواح کو عالم اجساد پر قیاس کیا جائے، جبکہ دونوں کے احکام جدا جدا ہیں۔ سلف میں ان چیزوں کا کوئی بھی قائل نہیں رہا، قرآن و حدیث میں اس کا کہیں تذکرہ نہیں اور متأخر اہل علم نے بھی اسے بدعت قرار دیا ہے۔

کیا قیام تعظیم کا جائز طریقہ ہے؟

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہر مؤمن کے ایمان کا جزو لازم ہے، لیکن اس تعظیم کی حدود کون متعین کرے گا؟ یقیناً یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی حق ہے۔
❀ علامہ بشیر احمد سہسوانی رحمہ اللہ (م: 1326ھ) فرماتے ہیں:
نحن معاشر أهل الحديث نعظم رسول الله صلى الله عليه وسلم بكل تعظيم جاء فى الكتاب والسنة الثابتة، سواء كان ذلك التعظيم فعليا أو قوليا أو اعتقاديا، والوارد فى الكتاب العزيز والسنة المطهرة من ذلك الباب فى غاية الكثرة ، وأهل البدع؛ فمعظم تعظيمهم تعظيم محدث كشد الرحال إلى قبر الرسول، والفرح بليلة ولادته، وقراءة المولد، والقيام عند ذكر ولادته صلى الله عليه وسلم، وتقبيل الإبهام عند قول المؤذن: أشهد أن محمدا رسول الله، والتمثل بين يديه قياما، وطلب الحاجات منه صلى الله عليه وسلم، والنذر له، وما ضاهاها، وأما التعظيمات الثابتة، فهم عنها بمراحل
ہم تمام اہل حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر وہ تعظیم بجا لاتے ہیں، جو قرآن کریم اور سنت ثابتہ میں وارد ہے، خواہ وہ تعظیم فعلی ہو، قولی ہو یا اعتقادی۔ قرآن عزیز اور سنت مطہرہ میں اس طرح کی بہت زیادہ تعظیم موجود ہے۔۔۔ لیکن اہل بدعت کی تعظیم کی حد یہ ہے کہ وہ لوگ کوئی بدعت جاری کر لیتے ہیں، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف شد رحال، ولادت رسول کی رات جشن، مولد کی قرائت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے ذکر کے وقت قیام کرنا، اذان میں مؤذن کے أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ کہنے کے وقت انگوٹھے چومنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے سامنے بت بن کر کھڑے ہونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاجات طلب کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی نیاز دینا وغیرہ۔ یہ لوگ قرآن و سنت کی ثابت شدہ تعلیمات سے کوسوں دور ہیں۔
(صيانة الإنسان عن وسوسة دحلان، ص 244)
❀شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م: 728ھ) فرماتے ہیں:
إنما تعظيم الرسل بتصديقهم فيما أخبروا به عن الله، وطاعتهم فيما أمروا به، ومتابعتهم، ومحبتهم، وموالاتهم
انبیاء و رسل کی تعظیم کا انحصار ان باتوں پر ہے کہ انبیاء کی لائی ہوئی خبروں کی تصدیق کی جائے، ان کے احکام کی پیروی کی جائے، ان سے محبت و موالات رکھی جائے۔
(کتاب الرد على الأخنائي، ص 24-25)
❀ مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں:
تعظیم میں کوئی پابندی نہیں، بلکہ جس زمانہ میں اور جس جگہ جو طریقہ بھی تعظیم کا ہو، اس طرح کرو، بشرطیکہ شریعت نے اس کو حرام نہ کیا ہو، جیسے کہ تعظیمی سجدہ و رکوع۔ اور ہمارے زمانہ میں شاہی احکام کھڑے ہو کر بھی پڑھے جاتے تھے۔ لہذا محبوب کا ذکر بھی کھڑے ہو کر ہونا چاہیے۔ دیکھو ﴿كُلُوا وَاشْرَبُوا﴾ میں مطلقاً کھانے پینے کی اجازت ہے کہ ہر حلال غذا کھاؤ پیو، تو بریانی، زردہ، قورمہ سب ہی حلال ہوا خواہ خیر القرون میں ہو یا نہ ہو۔
(جاء الحق، جلد اول، ص 254)
اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے وقت کھڑا ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام اور تبع تابعین، ائمہ دین اور سلف صالحین اس تعظیم سے محروم کیوں تھے؟ کہاں ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم جو کہ دین و ایمان ہے اور کہاں کھانے پینے کے دنیاوی مسائل۔ قرآن و سنت کی روشنی میں مسلم اصول ہے کہ دینی معاملات میں کرنے کی دلیل ضروری ہے، جبکہ دنیاوی معاملات میں منع کی دلیل۔

کسی کی تعظیم میں کھڑا ہونا ناجائز ہے:

① سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ما كان أحد من الناس أحب إليهم شخصا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، كانوا إذا رأوه لا يقوموا له أحد منهم، لما يعلمون من كراهيته لذلك
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر محبت کسی نے نہیں کی، لیکن کوئی صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کھڑا نہیں ہوتا تھا، وہ جانتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو پسند نہیں کرتے۔
(مسند الإمام أحمد: 134/3، سنن الترمذي: 2754، وسنده صحيح)
اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (م: 728ھ) فرماتے ہیں:
لم تكن عادة السلف على عهد النبى صلى الله عليه وسلم وخلفائه الراشدين أن يعتادوا القيام كلما يرونه صلى الله عليه وسلم، كما يفعله كثير من الناس
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانے میں یہ رواج نہیں رہا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر تعظیماً کھڑے ہو جائیں، اب یہ رواج عام ہو چکا ہے۔
(مجموع الفتاوى: 374/1)
کسی صحابی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی تعظیم میں کھڑے ہونا قطعاً ثابت نہیں ہے۔
❀ ابو مجلز لاحق بن حمید رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
معاوية على ابن الزبير وابن عامر، فقام ابن عامر وجلس ابن الزبير، فقال معاوية لابن عامر: اجلس، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من أحب أن يتمثل له الرجال قياما، فليتبوأ مقعده من النار
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ، سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عامر کے پاس آئے، تو ابن عامر کھڑے ہو گئے، سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اٹھ کر کھڑے نہیں ہوئے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عامر سے کہا: بیٹھ جائیے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ آدمی اس کے لیے بت بن کر کھڑے ہوں، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم کر لے۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 586/8، مسند الإمام أحمد: 91/4، 93، 100، مسند عبد بن حميد: 413، الأدب المفرد للبخاري: 977، سنن أبي داود: 5229، سنن الترمذي: 2755، تهذيب الآثار للطبري: 568/2، 569، وسنده صحيح)
اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے۔
تهذيب الآثار للطبري (567/2، 568، وسنده حسن) میں الفاظ ہیں:
خرج معاوية ذات يوم، فوثبوا فى وجهه قياما، فقال: اجلسوا، اجلسوا فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من سره أن يستخم بنو آدم قياما؛ دخل النار
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ایک دن باہر تشریف لائے، تو لوگ ان کے سامنے جلدی سے کھڑے ہو گئے۔ فرمایا: بیٹھ جاؤ، بیٹھ جاؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص چاہے کہ لوگ میرے لیے تعظیماً اٹھ کھڑے ہوں، وہ آگ میں داخل ہوگا۔
❀ محدث البانی (م: 1420ھ) فرماتے ہیں:
دلنا هذا الحديث على أمرين؛ الأول تحريم حب الداخل على الناس القيام منهم له، وهو صريح الدلالة بحيث أنه لا يحتاج إلى بيان، والآخر كراهة القيام من الجالسين للداخل، ولو كان لا يحب القيام، وذلك من باب التعاون على الخير، وعدم فتح باب الشر، وهذا معنى دقيق دلنا عليه راوي الحديث معاوية رضي الله عنه، وذلك بإنكاره على عبد الله بن عامر قيامه له، واحتج عليه بالحديث، وذلك من فقهه فى الدين، وعلمه بقواعد الشريعة التى منها سد الذرائع
اس حدیث سے ہمیں دو باتوں کا علم ہوتا ہے:
① پہلی بات تو صریح ہے کہ آنے والے کے لیے یہ خواہش رکھنا حرام ہے کہ لوگ میری تعظیم میں اٹھ کھڑے ہوں۔
②دوسری بات یہ کہ حاضرین مجلس کو خود اس کی تعظیم میں کھڑا نہیں ہونا چاہیے، یہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ جب یہ لوگ کھڑے نہ ہوں گے اور آنے والا اس کو پسند نہ کرے گا، تو اس سے خیر پر تعاون ہوگا اور شر کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اس لطیف معنی کا بیان راوی حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔ انہوں نے عبداللہ بن عامر کو اپنے لیے کھڑے ہونے سے منع کیا اور انہیں حدیث سے دلیل دی۔ یہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی دینی فقاہت ہے اور اس قواعد شریعت سے ان کی واقفیت کی دلیل ہے، سد ذرائع بھی شریعت کا ایک قاعدہ ہے۔
(السلسلة الصحيحة: 629/1)
اس وعید کا تعلق قیام تعظیمی سے ہے، استقبال کے لیے کھڑا ہونا جائز ہے۔
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (م: 728ھ) ان الفاظ کا مطلب بیان کرتے ہیں:
إن ذلك أن يقوموا له وهو قاعد، ليس هو أن يقوموا لمجيئه إذا جاء، ولهذا فرقوا بين أن يقال: قمت إليه، وقمت له، والقائم للقادم ساواه فى القيام بخلاف القائم للقاعد
اس وعید کا تعلق ایسی صورت سے ہے کہ ایک شخص بیٹھا ہو اور لوگ اس کے سامنے کھڑے ہوں۔ کسی کے استقبال کے لیے کھڑا ہونا اس وعید میں نہیں آتا۔ اس لیے علما نے کسی کی طرف کھڑے ہونے اور کسی کے لیے کھڑے ہونے میں فرق کیا ہے۔ قیام استقبال میں، آنے والا اور اس کی طرف لپکنے والا برابر حیثیت میں کھڑے ہوتے ہیں، جب کہ بیٹھے ہوئے شخص کے لیے تعظیماً کھڑے ہونے میں یہ برابری کی سطح ختم ہو جاتی ہے۔
(مجموع الفتاوى: 375/1)
❀ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
كانت إذا دخلت عليه قام إليها، فأخذ بيدها، فقبلها، وأجلسها فى مجلسه، وكان إذا دخل عليها، قامت إليه، فأخذت بيده فقبلته، وأجلسته فى مجلسها
وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے استقبال میں کھڑے ہو جاتے، ان کا ہاتھ تھام کر بوسہ دیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ اسی طرح جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے جاتے، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال میں کھڑی ہوتیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر اس کو بوسہ دیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔
(سنن أبي داود: 5217، سنن الترمذي: 3872، وسنده صحيح)
اس روایت کو امام ابن حبان (6952) اور امام حاکم (264/4) نے صحیح کہا ہے۔ حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
یعنی استقبال کے لیے قیام جائز ہے۔ بظاہر یہ روایت ان احادیث کے معارض ہے، جن میں کھڑے ہونے سے منع کیا گیا ہے، لیکن ان کے درمیان جمع و تطبیق ہو سکتی ہے:
❀ علامہ ابن قیم (م: 751ھ) فرماتے ہیں:
المنهي عنه القيام للرجل، وأما القيام إليه للتلقي إذا قدم؛ فلا بأس به، وبهذا تجتمع الأحاديث
کسی آدمی کے لیے تعظیماً کھڑا ہونا مذموم ہے اور کسی کے استقبال کے لیے کھڑے ہونے میں حرج نہیں۔ اس سے تمام احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے۔
(شرح ابن القيم لسنن أبي داود مع عون المعبود: 127/14)
ایک وضاحت:
❀ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
اشتكى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلينا ورائه وهو قاعد، وأبو بكر يسمع الناس تكبيره، فالتفت إلينا فرآنا قياما، فأشار إلينا، فقعدنا، فصلينا بصلاته قعودا، فلما سلم، قال: إن كدتم آنفا لتفعلون فعل فارس والروم، يقومون على ملوكهم، وهم قعود، فلا تفعلوا، اثتموا بأئمتكم إن صلى قائما فصلوا قياما، وإن صلى قاعدا؛ فصلوا قعودا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں اس طرح نماز ادا کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیر کی آواز لوگوں تک پہنچا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف توجہ کی اور ہمیں کھڑے محسوس کیا، تو اشارے کے ذریعے بیٹھنے کا حکم دیا۔ ہم بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں بیٹھ کر نماز ادا کی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی آپ نے ایرانیوں اور رومیوں جیسا طرز عمل اپنا رکھا تھا، وہ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں اور بادشاہ بیٹھے رہتے ہیں۔ آپ اپنے امام کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہ کریں۔ اگر وہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرے، آپ بھی کھڑے ہو کر نماز ادا کریں اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے، تو آپ بھی بیٹھ کر نماز ادا کریں۔
(صحيح مسلم: 413)
❀ حافظ نووی (م: 676ھ) فرماتے ہیں:
فيه النهي عن قيام العلمان والتباع على رأس متبوعهم الجالس لغير حاجة، وأما القيام للداخل إذا كان من أهل الفضل والخير؛ فليس من هذا، بل هو جائز، قد جاءت به أحاديث، وأطبق عليه السلف والخلف
حدیث میں مذکورہ ممانعت اس قیام کے متعلق ہے، جو چھوٹے بچے اور خادم بغیر ضرورت کے اپنے آقاؤں کے سر کی جانب کھڑے ہوتے ہیں اور وہ (بادشاہ وغیرہ) بیٹھے ہوتے ہیں۔ باقی جو قیام اہل فضل و خیر کی آمد پر ہوتا ہے، وہ اس وعید میں شامل نہیں ہے، وہ تو جائز ہے۔ اس بارے میں احادیث بیان ہوئی ہیں اور سلف و خلف کا اس (کے جواز) پر اتفاق ہے۔
(شرح صحيح مسلم: 135/4)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (م: 728ھ) فرماتے ہیں:
في هذا الحديث أنه أمرهم بترك القيام الذى هو فرض فى الصلاة، وعلل ذلك بأن قيام المأمومين مع قعود الإمام يشبه فعل فارس والروم بعظمائهم، فى قيامهم وهم قعود، ومعلوم أن المأموم إنما نوى أن يقوم لله لا لإمامه، وهذا تشديد عظيم فى النهي عن القيام للرجل القاعد، ونهي أيضا عما يشبه ذلك، وإن لم يقصد به ذلك، ولهذا نهي عن السجود لله بين يدي الرجل، وعن الصلاة إلى ما قد عبد من دون الله، كالنار ونحوها، وفي هذا الحديث أيضا نهي عما يشبه فعل فارس والروم، وإن كانت نيتنا غير نيتهم لقوله: فلا تفعلوا
اس حدیث میں ذکر ہے کہ امام بیٹھا ہو، تو مقتدیوں کے لیے بھی بیٹھنا فرض ہے، کہ امام کے بیٹھے ہونے کے باوجود مقتدیوں کا کھڑا رہنا فارسیوں اور رومیوں سے مشابہت رکھتا ہے، کیونکہ وہ اپنے معززین کی تعظیم میں کھڑے ہوتے ہیں اور ان کے بادشاہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ صرف مشابہت کی وجہ سے ناجائز ہے، کیونکہ مقتدی صرف اللہ کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اس کا قیام امام کے لیے ہوتا ہے۔ یہ ممانعت میں مبالغہ ہے، تعظیمی قیام کی مشابہت سے بھی منع کر دیا گیا، تو خود تعظیمی قیام کتنا قبیح عمل ہوگا۔ جیسے کہ اللہ کو سجدہ کرنا ضروری ہے، لیکن اللہ کو سجدہ کرتے وقت ایسی صورت اختیار کرنا ممنوع ہے، جس سے کسی بندے کو سجدہ ہونے کا گمان گزرے۔ اسی طرح معبودان باطلہ کی طرف منہ کر کے نماز سے روکا گیا ہے، جیسے کہ آگ اور اس جیسی دوسری چیزیں ہیں۔ چنانچہ اس حدیث میں مذکور فارسیوں اور رومیوں سے مشابہت والے قیام کی ممانعت ہے۔
(اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم: 226/1-227)
❀ علامہ ابن قیم (م: 751ھ) فرماتے ہیں:
حمل أحاديث النهي عن القيام على مثل هذه الصورة ممتنع، فإن سياقها يدل على خلافه، وأنه صلى الله عليه وسلم كان ينهى عن القيام له إذا خرج عليهم، ولأن العرب لم يكونوا يعرفون هذا، وإنما هو من فعل فارس والروم، ولأن هذا لا يقال له قيام للرجل، إنما هو قيام عليهم ففرق بين القيام للشخص المنهي عنه، والقيام عليه المشبه لفعل فارس والروم، والقيام إليه عند قدومه الذى هو سنة العرب، وأحاديث الجواز تدل عليه فقط
ممانعت والی احادیث کو ایسی صورت پر محمول کرنا ممکن نہیں، کیونکہ اس حدیث کا سیاق اس کے خلاف ہے، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منع فرماتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لاتے اور عربوں کے ہاں یہ طریقہ معروف نہیں تھا۔ یہ صرف فارسیوں اور رومیوں کا وطیرہ تھا۔ اسے کسی آدمی کے لیے کھڑا ہونا نہیں کہا جائے گا، بلکہ یہ تو کسی آدمی کے پاس کھڑے رہنا ہے۔ لہذا کسی بندے کے لیے کھڑے ہونا، جس سے منع کیا گیا ہے اور فارس و روم کے فعل سے مشابہ قیام، دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، جبکہ کسی آدمی کی آمد پر قیام عربوں کا طرز عمل ہے اور جو احادیث قیام کو جائز ثابت کرتی ہیں، وہ صرف اسی (دوسرے) قیام کے متعلق ہیں۔
(تهذيب السنن: 93/8)

عمرو بن سائب کی مرسل روایت:

عمرو بن سائب بیان کرتے ہیں کہ انہیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی والد آگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنی چادر کا بعض حصہ بچھا دیا۔ وہ اس پر بیٹھ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ آئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کی دوسری جانب ان کے لیے بچھا دی۔ وہ اس پر بیٹھ گئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی آگئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ان کو اپنے سامنے بٹھا لیا۔
(سنن أبي داود: 5145)
سند مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔

سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا سے منسوب جھوٹ:

❀ سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
أتى النبى صلى الله عليه وسلم، فلما رآه النبى صلى الله عليه وسلم قام إليه فقبل ما بين عينيه، ثم أقعده عن يمينه
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آتے دیکھا، تو ان کے استقبال میں کھڑے ہو گئے، پیشانی کو بوسہ دیا اور اپنی دائیں جانب بٹھا لیا۔
(المعجم الكبير للطبراني: 235/10، تاريخ بغداد: 63/1)
روایت جھوٹی ہے۔ حافظ ذہبی نے اسے باطل قرار دیا ہے۔
(ميزان الاعتدال: 97/1)
❀ احمد بن رشدین ہلالی کے بارے میں حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
هو الذى اختلقه بجهل
اسی نے اپنی جہالت کی بنا پر اسے گھڑا ہے۔
(ميزان الاعتدال: 97/1)
اسے صرف ابن حبان نے الثقات (40/8) میں ذکر کیا ہے۔ یہ ان کا تساہل ہے۔

شبہات اور ان کا ازالہ:

بعض لوگ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں کھڑے ہو جاتے تھے۔ اس پر انہوں نے مذکورہ دلائل پیش کیے ہیں۔ ان دلائل کی فنی حیثیت ملاحدہ ہو:
① سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلمح يجلس معنا فى المسجد يحدثنا، فإذا قام، قمنا قياما حتى نراه قد دخل بعض بيوت أزواجه
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ مسجد میں بیٹھے باتیں کرتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے، تو ہم بھی کھڑے ہو جاتے اور اس وقت تک کھڑے رہتے، جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کسی زوجہ مطہرہ کے گھر میں داخل ہوتا نہ دیکھ لیتے۔
(سنن أبي داود: 4775، السنن الكبرى للنسائي: 4780، سنن ابن ماجه مختصراً: 2093، شعب الإيمان للبيهقي: 8930)
یہ حدیث کئی وجہ سے قیام تعظیمی کی دلیل نہیں بن سکتی:
➊ سند ضعیف ہے۔
❀ ہلال بن ابی ہلال مدنی کے بارے میں امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
لا أعرفه
میں اسے نہیں پہچانتا۔
(العلل: 1476)
❀ امام ابن شاہین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا أعرفه
میں اسے نہیں جانتا۔
(النقاط: 1245)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
لا يعرف
یہ غیر معروف ہے۔
(ميزان الاعتدال: 317/4)
حافظ ابن حجر نے اسے مقبول (مستور الحال) کہا ہے۔
(تقريب التهذيب: 7351)
صرف امام ابن حبان نے اسے الثقات (503/5) میں ذکر کیا ہے، لہذا یہ "مجہول الحال” ہے۔
➋ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
الذى يظهر لي فى الجواب أن يقال: لعل سبب تأخيرهم حتى يدخل لما يحتمل عندهم من أمر يحدث له حتى لا يحتاج إذا تفرقوا أن يتكلف استدعاتهم، ثم راجعت سنن أبى داود، فوجدت فى آخر الحديث ما يؤيد ما قلته، وهو قصة الأعرابي الذى جبذ رداءه صلى الله عليه وسلم، فدعا رجلا فأمره أن يحمل له على بعيره تمرا وشعيرا، وفي آخره، ثم التفت إلينا، فقال: انصرفوا رحمكم الله تعالى
میرے خیال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہونے تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شاید اس لیے کھڑے رہتے کہ مبادا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم سے کوئی کام پڑ جائے اور انہیں ہمیں بلانے کی زحمت اٹھانی پڑے۔ پھر میں نے سنن ابی داود کی طرف رجوع کیا، تو اس حدیث کے آخر میں وہ الفاظ مل گئے، جو میری بات کی تائید کرتے ہیں۔ یہ ایک اعرابی کا واقعہ ہے، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک کو کھینچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بلایا اور حکم فرمایا کہ وہ اس اعرابی کے اونٹ پر کھجور اور جو لاد دے۔ اس حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اللہ آپ لوگوں پر رحم کرے، اب آپ جا سکتے ہیں۔
(فتح الباري شرح صحيح البخاري: 52/11-53)
➌ علامہ ملا علی قاری حنفی (م: 1014ھ) فرماتے ہیں:
لعلهم كانوا ينتظرون رجاء أن يظهر له حاجة إلى أحد منهم، أو يعرض له رجوع إلى الجلوس معهم، فإذا أيسوا؛ تفرقوا، ولم يقعدوا لعدم حلاوة الجلوس بعده عليه السلام
شاید کہ وہ اس امید سے انتظار کرتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی سے کوئی کام پڑ جائے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی طرف دوبارہ آنے کا ارادہ بن جائے۔ جب وہ سمجھ لیتے کہ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں آئیں گے یا نہیں بلائیں گے تو چلے جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مجلس کا لطف باقی نہیں رہتا تھا۔
(مرقاة المفاتيح: 488/13)
لہذا اس سے یہ استدلال درست نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں کھڑے ہوتے تھے، پھر یہ تو غلط در غلط ہے کہ اس بات کو بنیاد بنا کر کوئی درود پڑھتے ہوئے تعظیماً کھڑا ہونے لگے۔
② سیدنا ابو جہفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
لما قدم جعفر من هجرة الحبشة؛ تلقاه النبى صلى الله عليه وسلم فعانقه، وقبل ما بين عينيه، وقال: ما أدري بأيهما أنا أسر؛ بفتح خيبر أو بقدوم جعفر؟
جب جعفر رضی اللہ عنہ ہجرت حبشہ سے واپس آئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا استقبال کیا، ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا: مجھے معلوم نہیں کہ دو چیزوں میں زیادہ خوشی مجھے کس بات کی ہے، فتح خیبر کی یا جعفر رضی اللہ عنہ کی آمد کی؟
(المعجم الكبير: 2/108، المعجم الأوسط: 2003، المعجم الصغير للطبراني: 30)
سند ضعیف ہے۔
❀ احمد بن خالد حرانی کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعيف، ليس بشيء، ما رأيت أحدا أثنى عليه
ضعیف ہے، کسی کام کا نہیں، میں نے کسی کو اس کی تعریف کرتے نہیں دیکھا۔
(سؤالات حمزة السهمي للدارقطني، ص: 148)
❀ حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
واه یہ کمزور راوی ہے۔
(المغني: 65/1)
❀ اس کے متابع انس بن سلم کے بارے میں حافظ ہیشمی فرماتے ہیں:
لم أعرفه
میں اسے پہچان نہیں سکا۔
(مجمع الزوائد: 271/9)
❀ اس کی متابعت عثمان بن محمد بن عثمان نے بھی کی ہے۔
(تاريخ بغداد للخطيب: 292/11)
اس کے متعلق بھی توثیق کا کوئی قول ثابت نہیں۔ لہذا یہ روایت بھی "ضعیف” ہے۔
③ عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے:
لما بلغ باب رسول الله صلى الله عليه وسلم استبشر، ووثب له رسول الله صلى الله عليه وسلم قائما على رجليه، فرحا بقدومه
جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر پہنچے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور آنے کی خوشی میں ان کے لیے جلدی سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے۔
(المغازي للواقدي: 850/2-853، المستدرك للحاكم: 269/3)
جھوٹ کا پلندہ ہے۔ محمد بن عمر واقدی ”ضعیف“ اور ”متروک “ہے۔ نیز اس کا استاد ابو بکر بن عبداللہ بن ابو سبرہ وضاع (جھوٹی حدیثیں گھڑنے والا) اور کذاب (جھوٹا) ہے۔
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
يضع الحديث
یہ حدیثیں گھڑتا تھا۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 306/7)
④ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری قیام گاہ میں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا:
فقام إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم عريانا يجر ثوبه، والله، ما رأيته عريانا قبله ولا بعده، فاعتنقه وقبله
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف مکمل لباس کے بغیر اپنے کپڑے کو سنبھالتے ہوئے کھڑے ہوئے۔ اللہ کی قسم! میں نے اس سے پہلے اور بعد کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل لباس کے بغیر کسی سے ملتے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے معانقہ کیا اور انہیں بوسہ دیا۔
(سنن الترمذي: 2732، وقال: حسن، شرح معاني الآثار للطحاوي: 92/4)
سند سخت ضعیف ہے۔
❀ ابراہیم بن یحییٰ بن محمد شجری لیّن الحدیث ہے۔
(تقريب التهذيب لابن حجر: 268)
❀ یحییٰ بن محمد بن عباد مدنی شجری بھی ضعیف ہے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
كان ضريرا يتلقن
یہ نابینا تھا اور تلقین قبول کرتا تھا۔
(تقريب التهذيب: 7637)
❀ محمد بن اسحاق مدنی مدلس ہیں۔
❀ زہری بھی مدلس ہیں۔
دونوں نے سماع کی تصریح نہیں کی، لہذا روایت ضعیف ہے۔
❀ تاريخ ابن عساكر (360/19) کی سند میں محمد بن عمر واقدی متروک ہے۔
⑤ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مسئلہ بتایا:
قمت إليه، فقلت له: بأبي أنت وأمي، أنت أحق بها
میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کھڑا ہوا اور ان سے عرض کی: میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں! آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔
(مسند الإمام أحمد: 6/1، مسند البزار: 4، مسند أبي يعلى: 24)
سند "رجل مبہم” کی وجہ سے "ضعیف” ہے۔
⑥ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا بھیجا، تو وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے۔ جب وہ مسجد کے قریب پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا:
قوموا إلى سيدكم
اپنے سردار کی طرف اٹھیں۔
(صحيح البخاري: 6262، صحيح مسلم: 1768)
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنے سردار کی تعظیم میں کھڑے ہو جاؤ، بلکہ مطلب یہ تھا کہ کھڑے ہو کر ان کو سواری سے اتارو، کیونکہ اس وقت وہ زخمی تھے۔ اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قوموا إلى سيدكم فأنزلوه، فقال عمر: سيدنا الله عز وجل، قال: أنزلوه، فأنزلوه
اپنے سردار کی طرف لپکیں اور سواری سے نیچے اتاریں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ہمارا سردار اللہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سعد کو نیچے اتاریں، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں نیچے اتار دیا۔
(مسند الإمام أحمد: 141/6-142، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ابن حبان (7028) نے صحیح کہا ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس کی سند کو "حسن” قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
هذه الرواية تخدش فى الاستدلال بقصة سعد على مشروعية القيام المتنازع فيه
یہ زائد الفاظ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے واقعے سے متنازع فیہ (تعظیمی) قیام پر استدلال کو باطل قرار دیتے ہیں۔
(فتح الباري: 51/11)
❀ امام مسلم (م: 261ھ) فرماتے ہیں:
لا أعلم فى قيام الرجل للرجل حديثا أصح من هذا، وهذا القيام على وجه البر لا على وجه التعظيم، أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم الأنصار أن يقوموا إلى سيدهم
میرے مطابق تعظیمی قیام کے متعلق یہ حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے۔ البتہ اس قیام سے مراد بطور خوش خلقی کے کھڑا ہونا ہے، بطور تعظیم نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاریوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے سردار کی طرف لپکیں۔
(المدخل إلى السنن للبيهقي: 708، وسنده صحيح)
امام بیہقی (م: 458ھ) فرماتے ہیں:
هذا القيام يكون على وجه البر والإكرام، كما كان قيام الأنصار لسعد، وقيام طلحة لكعب بن مالك، ولا ينبغي للذي يقام له أن يريد ذلك من صاحبه، حتى إن لم يفعل يحقد عليه، أو شكاه، أو عاتبه
اس قیام سے مراد حسن سلوک اور بطور عزت کھڑے ہونا ہے، جیسے کہ انصاریوں کا سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کا سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے لیے کھڑا ہونا ثابت ہے۔ البتہ جو آدمی اپنے لیے کسی کے کھڑے ہونے کو پسند کرے اور جو اس کے لیے کھڑا نہ ہو، اس پر غصے اور شکایت کے ساتھ ساتھ برہمی کا اظہار کرے، اس کے لیے کھڑا ہونا درست نہیں ہے۔
(شعب الإيمان: 277/11)
❀ شاہ ولی اللہ دہلوی (م: 1176ھ) فرماتے ہیں:
عندي أنه لا اختلاف فيها فى الحقيقة، فإن المعاني التى يدور عليها الأمر والنهي مختلفة، فإن العجم كان من أمرهم أن تقوم الخدم بين أيدي سادتهم، والرعية بين أيدي ملوكهم، وهو من إفراطهم فى التعظيم، حتى كاد يتأخم الشرك، فنهوا عنه، وإلى هذا وقعت الإشارة فى قوله عليه السلام: كما يقوم الأعاجم
میں سمجھتا ہوں کہ ان احادیث اور روایات میں در حقیقت کچھ بھی اختلاف نہیں، کیونکہ جن معانی اور مقاصد پر امر اور نہي کا انحصار ہے، وہ مختلف ہیں، چنانچہ عجمیوں کا یہ دستور تھا کہ خدام اپنے آقاؤں کے سامنے اور رعیت کے لوگ بادشاہ کے سامنے (بیٹھتے نہیں تھے، بلکہ دست بستہ) کھڑے رہتے تھے۔ ایسا کرنا تعظیم میں افراط تھا اور شرک کے ساتھ اس کے تانے بانے مل جاتے تھے۔ لہذا اس قسم کے قیام سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو روک دیا گیا۔ اسی بات کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں اشارہ موجود ہے کہ عجمیوں کی مانند کھڑے نہ ہو جائیں۔
(حجة الله البالغة: 306/2)
❀ علامہ شمس الحق عظیم آبادی (م: 1329ھ) فرماتے ہیں:
قد أورد المؤلف فى هذا الباب حديثين دالين على جواز القيام، ثم ترجم بعد عدة أبواب بلفظ: باب الرجل يقوم للرجل يعظمه بذلك، وأورد فيه حديثين يدلان على النهي عن القيام، فكأنه أراد بصنيعه هذا الجمع بين الأحاديث المختلفة فى جواز القيام وعدمه، بأن القيام إذا كان للتعظيم مثل صنيع الأعاجم؛ فهو منهي عنه، وإذا كان لأجل العلم، والفضل، والصلاح، والشرف، والود، والمحبة؛ فهو جائز
امام ابو داود اس باب کے تحت دو احادیث لائے ہیں، یہ قیام کے جواز پر دلالت کرتی ہیں، پھر کئی ایک ابواب کے بعد بہین الفاظ باب قائم کیا ہے: آدمی کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونے کا بیان اور اس میں بھی دو حدیثیں نقل کی ہیں، جن سے اس قیام کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ گویا اس طرز عمل سے امام صاحب قیام کے جواز اور عدم جواز کے متعلق مختلف احادیث میں جمع و تطبیق کی یہ صورت بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جب قیام تعظیم کی خاطر ہو، جیسا کہ عجمی لوگ کرتے ہیں، تو یہ منع ہے اور جب قیام علم و فضل، نیکی و شرف اور الفت و محبت کی وجہ سے ہو، تو جائز ہے۔
(عون المعبود: 84/14)
❀ علامہ غزالی (م: 505ھ) فرماتے ہیں:
القيام مكروه على سبيل الإعظام، لا على سبيل الإكرام
تعظیم کی نیت سے کھڑا ہونا مکروہ ہے، نہ کہ بطور اکرام و احترام۔
(إحياء علوم الدين: 205/2)
❀ حافظ نووی (م: 676ھ) فرماتے ہیں:
أما إكرام الداخل بالقيام؛ فالذي نختاره أنه مستحب لمن كان فيه فضيلة ظاهرة من علم أو صلاح أو شرف أو ولاية مصحوبة بصيانة، أو له ولادة أو رحم مع سن ونحو ذلك، ويكون هذا القيام للبر والإكرام والاحترام، لا للرياء والإعظام، وعلى هذا الذى اخترناه استمر عمل السلف والخلف
تعظیمی قیام سے متعلق ہمارا مختار مسلك یہ ہے کہ اس میں بظاہر فضل و کمال ہو، مثلاً وہ علم و معرفت، صلاح و تقویٰ، عزت و شرف، پرہیزگاری پر مبنی ولایت و جاہ، عمر کی درازی و کبر سنی اور رشتہ داری و قرابت وغیرہ ہو، تو اس کی وجہ سے ایسا کرنا مستحب ہے، بشرطیکہ اس کا کھڑا ہونا بر و صلہ اور احترام و اکرام کی وجہ سے ہو، نہ کہ دکھاوے یا تعظیم کے طور پر۔ ہمارے اسی اختیار کردہ مسلك کے مطابق ہی خلف و سلف کا عمل رہا ہے۔
(الأذكار، ص 368)
❀ علامہ ابن الحاج (م: 737ھ) اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
لو كان القيام المأمور به لسعد هو المتنازع فيه؛ لما خص به الأنصار، فإن الأصل فى أفعال القرب التعميم، ولو كان القيام لسعد على سبيل البر والإكرام؛ لكان هو صلى الله عليه وسلم أول من فعله، وأمر به من حضر من أكابر الصحابة، فلما لم يأمر به، ولا فعله، ولا فعلوه؛ دل ذلك على أن الأمر بالقيام لغير ما وقع فيه النزاع، وإنما هو لينزلوه عن دابته لما كان فيه من المرض، كما جاء فى بعض الروايات، ولأن عادة العرب أن القبيلة تخدم كبيرها، فلذلك خص الأنصار بذلك دون المهاجرين، مع أن المراد بعض الأنصار لا كلهم، وهم الأوس منهم، لأن سعد بن معاذ كان سيدهم دون الخزرج، وعلى تقدير تسليم أن القيام المأمور به حينئذ لم يكن للإعانة، فليس هو المتنازع فيه، بل لأنه غائب قدم، والقيام للغائب إذا قدم؛ مشروع
اگر سعد رضی اللہ عنہ کے لیے قیام کے حکم سے مراد متنازع فیہ (تعظیمی) قیام ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم میں انصار کو خاص نہ کرتے، کیونکہ نیکی کے کاموں میں اصل عموم ہوتا ہے (یعنی وہ سب کے لیے مشترک ہوتے ہیں)۔ اگر سعد رضی اللہ عنہ کے لیے کھڑا ہونا عزت اور نیکی کے لیے ہوتا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے خود ایسا کرتے اور وہاں موجود اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کا حکم دیتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم نہیں دیا، نہ خود ایسا کیا، نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قیام کیا، تو معلوم ہوا کہ قیام کا یہ حکم اس مقصد کے لیے نہیں تھا، جس میں نزاع ہے (تعظیمی نہیں تھا)۔ یہ حکم تو صرف سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو سواری سے اتارنے کے لیے تھا، کیونکہ وہ اس وقت بیمار تھے، جیسا کہ بعض روایات میں یہ بات مذکور ہے۔ نیز عربوں کی یہ عادت بھی تھی کہ پورا قبیلہ اپنے بڑے کی خدمت کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم صرف انصار کو دیا تھا، مہاجرین کو نہیں۔ پھر اس سے مراد سارے انصار بھی نہیں، بلکہ بعض انصار، یعنی قبیلہ اوس کے لوگ تھے، کیونکہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اوس کے ہی سردار تھے، خزرج کے نہیں۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اس وقت قیام کا حکم سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو سواری سے اتارنے میں مدد کرنے کے لیے نہیں تھا، تو بھی یہ قیام متنازع فیہ (تعظیمی) نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ قیام ایک غائب کے آنے کی وجہ سے تھا اور کسی آنے والے کے لیے کھڑا ہونا شرعاً جائز ہے۔
(فتح الباري: 51/11)
اگر کوئی اس قیام کو اکرام پر محمول کرے، تو یہ بھی ہمارے نزدیک مشروع ہے۔
❀ امام حماد بن زید (م: 179ھ) کہتے ہیں:
كنا عند أيوب، فجاء يونس، فقال حماد: قوموا لسيدكم، أو قال: لسيدنا
ہم ایوب سختیانی کے پاس تھے۔ یونس آئے، تو حماد نے فرمایا: اپنے یا ہمارے سردار کے لیے کھڑے ہو جائیں۔
(الجامع لأخلاق الراوي للخطيب: 302، وسنده حسن)
❀ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قام إلى طلحة بن عبيد الله يهرول حتى صافحني وهنأني، والله، ما قام إلى رجل من المهاجرين غيره
میری طرف سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے کھڑے ہوئے، انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارک باد دی۔ اللہ کی قسم! میری طرف ان کے علاوہ مہاجرین میں سے کوئی آدمی کھڑا نہیں ہوا۔
(صحيح البخاري: 4418، صحيح مسلم: 2769)
یہ استقبال کی غرض سے قیام تھا جو کہ جائز و مباح ہے۔

جنازہ کے لیے کھڑا ہونا:

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے پوچھا کہ کافر کے جنازے کے لیے کھڑا ہوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نعم، قوموا لها، فإنكم لستم تقومون لها، إنما تقومون إعظاما للذي يقبض النفوس
ہاں! آپ اس کو دیکھ کر کھڑے ہوا کریں، کیونکہ آپ اس میت کی تعظیم میں کھڑے نہیں ہوتے، بلکہ اس ذات کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، جو روحوں کو قبض کرتی ہے۔
(مسند الإمام أحمد: 168/2، مسند عبد بن حميد: 1340، المعجم الكبير للطبراني: 271/13، ح: 47، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ابن حبان (3035)، امام حاکم (1/357) نے صحیح کہا ہے۔ حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
❀ حافظ ہيشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رجال أحمد ثقات
(اس روایت میں) مسند احمد کے راوی ثقہ ہیں۔
(مجمع الزوائد: 27/3)
علامہ عینی حنفی نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔
طبرانی کے الفاظ ہیں:
إنما تقومون لمن معها من الملائكة
آپ تو ان کے ساتھ موجود فرشتوں کی وجہ سے کھڑے ہوتے ہیں۔
(نخب الأفكار: 275/7)
❀ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔
مر على النبى صلى الله عليه وسلم بجنازة، فقام وقال: قوموا؛ فإن للموت فزعا
ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے جنازہ گزرا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے، فرمایا: کھڑے ہو جائیں، کیونکہ موت کی ایک گھبراہٹ ہوتی ہے۔
(مسند الإمام أحمد: 287/2، سنن ابن ماجه: 1543، وسنده حسن)
حافظ ہيشمی نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔
(مجمع الزوائد: 27/3)
❀ حافظ بوصيري رحمہ اللہ کہتے ہیں:
هذا إسناد صحيح، رجاله ثقات
یہ سند صحیح اور راوی ثقہ ہیں۔
(مصباح الزجاجة: 37/2، ح: 556)
❀ حافظ ابن حجر (م: 852ھ) ان احادیث میں تطبیق دیتے ہیں:
لأن القيام لفزع الموت فيه تعظيم لأمر الله، وتعظيم للقائمين بأمره فى ذلك، وهم الملائكة
موت کی سختی کی وجہ سے کھڑا ہونا دراصل اللہ تعالیٰ کے امر اور ان فرشتوں کی تعظیم ہے، جو اللہ تعالیٰ کے مامور کردہ ہیں۔
(فتح الباري: 180/3)
یاد رہے کہ جنازہ کو دیکھ کر کھڑا ہونا جائز اور مستحب ہے۔ اس کا وجوب منسوخ ہو چکا ہے، جبکہ استحباب باقی ہے۔
قارئین کرام! اب ہم دوبارہ تعظیمی قیام کی طرف آتے ہیں۔ یہ تو آپ نے جان لیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر یا درود پڑھنے کے لیے یا ذکر میلاد پر کھڑا ہونا کسی وضعی اور من گھڑت روایت سے بھی ثابت نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہیے کہ قرآن و حدیث میں اس کا قطعاً کوئی ثبوت نہیں، لہذا یہ بدعت ہے۔

سلف صالحین کا قیام

❀ مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب (م: 1391ھ) لکھتے ہیں:
ان (بیک ملایم) کے ذکر پر کھڑا ہونا سنت سلف صالحین ہے۔ (جاء الحق /2352)
یہ سلف کی عجیب سنت ہے کہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ، تابعی یا تبع تابعی، حتی کہ امام ابوحنیفہ اور شیخ عبدالقادر جیلانی سے بھی قطعاً اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ اس پر ہم کیا تبصرہ کریں؟
❀ مفتی صاحب مزید لکھتے ہیں:
ولادت پاک کے وقت ملائکہ در دولت پر کھڑے ہوئے تھے۔ اس لیے ولادت کے ذکر پر کھڑا ہونا فعل ملائکہ سے مشابہ ہے۔
(جاء الحق: 253/1)
یہ بے اصل اور بے ثبوت ہے۔ فرشتوں سے ہماری ملاقات ممکن نہیں اور روایت اس پر کوئی ملتی نہیں، مفتی صاحب کو جانے کیسے علم ہو گیا؟
❀ مزید لکھتے ہیں:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوصاف اور اپنا نسب شریف منبر پر کھڑے ہوکر بیان فرمایا تو اس قیام کی اصل مل گئی۔
(جاء الحق: جلد اول 253)
یہ روایت مسند احمد (210/1) اور سنن ترمذی (3608، وقال: حسن صحیح) میں موجود ہے۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ یزید بن ابی زیاد جمہور کے نزدیک ضعیف ہیں۔
❀ حافظ ابن حجر عسقلانی (م: 852ھ) فرماتے ہیں:
ضعيف، كبر، فتغير، صار يتلقن، وكان شيعيا
یہ ضعیف راوی تھا۔ بوڑھا ہو کر اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا اور یہ لوگوں کی باتوں میں آنے لگا تھا، نیز شیعہ تھا۔
(تقریب التہذیب: 777)
❀ حافظ ہیشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قد ضعفه جمهور الأئمة
اسے جمہور ائمہ نے ضعیف کہا ہے۔
(مجمع الزوائد: 56/5-57)
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
الجمهور على تضعيف حديثه
جمہور اس کی حدیث کو ضعیف کہتے ہیں۔
(ہدی الساری، ص 459)
❀ حافظ بوصیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخرجه مسلم فى المتابعات، ضعفه الجمهور
امام مسلم نے اس کی حدیث متابعات میں بیان کی ہے۔ جمہور اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔
(زوائد ابن ماجہ: 705)
اس میں سفیان ثوری کا عنعنہ بھی ہے۔ لہذا یہ روایت ضعیف ہوئی، تو اس پر قائم استدلال کیا ہوا؟
❀ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
شریعت نے اس کو منع نہیں کیا اور ہر ملک کے عام مسلمان اس کو ثواب سمجھ کر کرتے ہیں اور جس کام کو مسلمان اچھا جانیں، وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔
(جاء الحق: 253/1)
شرعی احکام میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اذن و اجازت ضروری ہوتی ہے۔ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور ائمہ عظام کا اس پر عمل ہے؟ کیا وہ بھی اسے اچھا سمجھتے تھے؟ اگر جواب ہاں میں ہے، تو یہ عمل اللہ کے ہاں بھی اچھا ہوگا، لیکن اگر جواب نفی میں ہے، تو اس کے بدعت سیئہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اللہ رب العزت اس بات کو یوں بیان کرتے ہیں:
أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا
(35-فاطر:8)
کیا جس کے لیے اس کا برا عمل (بدعت) مزین کر دیا جاتا ہے اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے۔
قاعدہ یاد رہے کہ اولاً تو بدعات عمومی دلائل کے تحت نہیں آتیں۔ دوسرے یہ کہ اس طریقہ سے سلف صالحین کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوتی ہے کہ وہ تو ان دلائل سے وہ کچھ نہ سمجھ پائے، جن سے آج کے لوگوں نے دین کشید کر لیا ہے۔

نئی دریافت:

ایک صاحب کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کھڑے ہوکر پڑھنا انبیائے کرام کی سنت ہے۔
① سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سفر معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا:
مررت على موسى، وهو يصلي فى قبره
میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا، تو وہ قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔
(صحیح مسلم: 2375)
اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بھی فرمایا:
إذا إبراهيم قائم يصلي
ابراہیم علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔
(صحیح مسلم: 172)
❀ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
إذا عيسى ابن مريم قائم يصلي
عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔
(صحیح مسلم: 172)
ان صاحب کا کہنا ہے کہ لفظ صلوٰۃ کا معنی یہاں نماز نہیں، بلکہ درود و سلام پڑھنا ہے، کیونکہ صلوٰۃ کا لفظ صرف نماز کے لیے ہی استعمال نہیں ہوتا، بلکہ رحمت بھیجنا، تعریف کرنا اور درود و سلام پڑھنے جیسے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
بلا شبہ لفظ صلوٰۃ کے کئی معانی ہیں، لیکن مذکورہ بالا احادیث میں درود و سلام کا معنی کرنا عربیت سے عدم واقفیت کا ثبوت، حدیث کی معنوی تحریف اور سلف صالحین کی مخالفت ہے۔
یہاں صلوٰۃ کا لفظ درود و سلام کے معنی میں ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ
➊ سلف صالحین میں سے کسی نے بھی یہ معنی ومفہوم بیان نہیں کیا۔
➋ صلوٰۃ کا لفظ اسی وقت درود و سلام کے معنی میں ہوگا، جب اس کے بعد علی آئے۔ احادیث میں انبیاء کے بارے میں قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ کے الفاظ ہیں، قائم يصلي عليه فى قبره کے نہیں۔
لہذا ہمارے محترم کے استدلال کا سقم اس سے واضح ہو جاتا ہے۔
❀ علامہ عبد الرؤف مناوی (م: 1031ھ) فرماتے ہیں:
أى يدعو ويثني عليه ويذكره، فالمراد الصلاة اللغوية، وهى الدعاء والثناء، وقيل المراد الشرعية، وعليه القرطبي
یعنی وہ دعا کر رہے تھے، اللہ کی حمد و ثنا اور اس کا ذکر کر رہے تھے۔ لہذا یہاں مراد لغوی صلوٰۃ ہے، جو دعا اور حمد و ثنا کے معنی میں ہے۔ ایک قول کے مطابق شرعی نماز مراد ہے۔ علامہ قرطبی کا یہی موقف ہے۔
(فیض القدیر: 519/5-520)
انبیاء کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بھی قبر میں نماز پڑھنا ثابت ہے۔
② سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مؤمن کو قبر میں بیٹھنے کا کہا جائے گا، وہ بیٹھ جائے گا۔ اسے سورج غروب ہوتا دکھایا جائے گا اور کہا جائے گا: وہ آدمی جو تم میں مبعوث ہوا تھا، اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ کی گواہی اس کے متعلق کیا ہے؟ کہے گا:
دعوني حتى أصلي، فيقولون: إنك ستفعل، فأخبرني عما نسألك عنه
مجھے چھوڑو کہ میں عصر کی نماز پڑھ لوں۔ فرشتے کہیں گے: پہلے سوال کا جواب دے دو، پھر نماز پڑھ لینا۔
(صحیح ابن حبان: 3113؛ المستدرک للحاکم: 379/1-380، وسندہ حسن)
امام حاکم نے اسے امام مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
❀ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی اس کی سند کو حسن کہا ہے۔
(مجمع الزوائد: 51/3-52)
ثابت بنانی فرماتے تھے:
أللهم إن كنت أعطيت أحدا أن يصلي لك فى قبره؛ فأعطني ذلك
اے اللہ! اگر تو نے کسی کو قبر میں اپنے لیے نماز پڑھنے کی توفیق دی، تو مجھے بھی یہ توفیق دے۔
(مسند علی بن الجعد: 1379، المعرفة والتاریخ للفسوی: 59/2، شعب الایمان للبیہقی: 155/3؛ ح: 1391، وسندہ صحیح)
عظیم تابعی کے اس قول سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قبر میں صلوٰۃ سے مراد نماز ہی ہے، نہ کہ درود وغیرہ۔
❀ علامہ ابن الحاج مالکی (م: 737ھ) ایک بدعت کے رد میں فرماتے ہیں:
ما حدث بعد السلف رضي الله عنهم لا يخلو إما أن يكونوا علموه، وعلموا أنه موافق للشريعة ولم يعملوا به، ومعاذ الله أن يكون ذلك، إذ إنه يلزم منه تنقيصهم وتفضيل من بعدهم عليهم، ومعلوم أنهم أكمل الناس فى كل شيء، وأشدهم اتباعا، وإما أن يكونوا علموه وتركوا العمل به، ولم يتركوه إلا لموجب أوجب تركه، فكيف يمكن فعله؟ هذا مما لا يتحلل، وإما أن يكونوا لم يعلموه، فيكون من ادعى ذلك أعلم منهم وأعرف بوجوه البر وأحرص عليها، ولو كان ذلك خيرا؛ لعلموه ولظهر لهم، ومعلوم أنهم أعقل الناس وأعلمهم
جو چیزیں سلف صالحین رضی اللہ عنہم کے بعد ظہور پذیر ہوئیں، وہ تین حالتوں سے خالی نہیں: یا تو سلف کو ان کا علم تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ وہ چیزیں شریعت کے موافق ہیں، اس کے باوجود انہوں نے ان پر عمل نہیں کیا۔ معاذ اللہ! ایسا تو ممکن نہیں، اس سے سلف صالحین رضی اللہ عنہم کی تنقیص ہوتی ہے اور بعد والوں کی فضیلت و فوقیت ثابت ہوتی ہے۔ حالانکہ وہ ہر چیز میں کامل تھے اور سب سے بڑھ کر شریعت کا اتباع کرنے والے تھے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ سلف صالحین رضی اللہ عنہم کو ان چیزوں کا علم تو تھا، لیکن انہوں نے ان پر عمل چھوڑ دیا تھا۔ تو یہ عمل انہوں نے کسی ایسی دلیل کی وجہ سے چھوڑا تھا، جس سے ثابت ہوتا تھا کہ اس کو چھوڑنا واجب ہے۔ جب دلیل کی وجہ سے تھا تو اب اس عمل کو کرنا کیوں کر جائز ہوا؟ یہ تو ناجائز کاموں میں سے ہے۔ تیسری صورت یہ فرض کی جا سکتی ہے کہ سلف صالحین رضی اللہ عنہم کو ان چیزوں کا علم ہی نہیں تھا۔ لیکن تب یہ سوال پیدا ہوگا کہ بعد والوں کو اس کا علم کیسے ہوا؟ کیا بعد والے کے پاس سلف سے زیادہ علم ہے؟ وہ امور خیر کو زیادہ جانتا ہے اور نیکی پر زیادہ حریص ہے؟ حالانکہ اگر یہ نیکی کے کام ہوتے، تو سلف صالحین رضی اللہ عنہم ان کو جانتے ہوتے۔ یہ بات مسلم ہے کہ وہ سب لوگوں سے بڑھ کر عقل مند اور عالم تھے۔
(المدخل: 278/4)

الحاصل:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سن کر درود پڑھنے کے لیے کھڑا ہونا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کے ذکر پر تعظیماً کھڑا ہونا بدعت ہے۔ اگر یہ نیکی کا کام ہوتا، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین اور ائمہ دین اس سے قطعاً غافل نہ رہتے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے