نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور وفات کی صحیح تاریخ معلوم نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت میں ایسا تھا کہ بندوں کو اس کے بارے میں علم نہ دیا جائے۔ یاد رہے کہ اسلام میں یوم ولادت یا یوم وفات کے حوالے سے کوئی عمل متعین نہیں۔
❀ شیخ عبد القادر رحمہ اللہ جیلانی فرماتے ہیں:
ولد نبينا محمد صلى الله عليه وسلم فيه
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت دس محرم کو ہوئی ہے۔
(غنية الطالبين: 392/2، طبع بیروت)
یہ اختلاف اپنی جگہ پر، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جو لوگ بارہ ربیع الاول کو جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم مناتے ہیں، ان کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وفات کون سی ہے؟
❀ امام بریلویت احمد رضا خان کہتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت 12 ربیع الاول دوشنبہ کو ہے اور اسی میں وفات شریف ہے۔
(ملفوظات: 220/2)
❀ نیز وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے ہیں:
قول مشہور و معتمد جمہور دوازدہم ربیع الاول شریف ہے۔
(فتاوی رضویہ: 26/415)
امام بریلوی احمد رضا خان کی تحقیق یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور وفات 12 ربیع الاول کو ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے لوگ بارہ ربیع الاول کو بارہ وفات کہہ کر پکارتے تھے اور ختم شریف ہوتا تھا۔
بارہ ربیع الاول کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی غم کے مارے کیا حالت تھی، غموں نے کس قدر ان کو نڈھال کر رکھا تھا۔ اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں کس قدر غمگین تھے، اس کا کچھ اندازہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے:
لما كان اليوم الذى دخل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة أضاء منها كل شيء، فلما كان اليوم الذى مات فيه أظلم منها كل شيء، وما نفضنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم الأيدي وإنا لفي دفنه حتى أنكرنا قلوبنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں (ہجرت فرما کر) تشریف لائے تھے، تو مدینہ کی ہر چیز (خوشی سے) چمک اٹھی تھی، مگر جس روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی، مدینہ کی ہر چیز (غم سے) تاریک ہو گئی تھی۔ ہم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کر رہے تھے، مٹی ابھی نہیں جھاڑی تھی اور ہمارے دل اس حادثہ فاجعہ کو تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں تھے۔
(سنن الترمذي: 3618، سنن ابن ماجه: 1631، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ترمذی، امام ابن حبان (6634) نے صحیح اور امام حاکم (57/1) نے امام مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
❀ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (م: 774ھ) فرماتے ہیں:
إسناده صحيح على شرط الصحيحين
اس کی سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
(البداية والنهاية: 274/5)
اس حدیث پر امام بیہقی (م: 458ھ) نے باب قائم کیا ہے:
باب ما جاء فى عظم المصيبة التى نزلت بالمسلمين بوفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سبب مسلمانوں کو شدید صدمہ پہنچنے کا بیان۔
(دلائل النبوة: 265/7)
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت بایں الفاظ مروی ہے:
شهدته يوم دخل المدينة فما رأيت يوما قط، كان أحسن ولا أضوأ من يوم دخل علينا فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وشهدته يوم موته، فما رأيت يوما كان أقبح، ولا أظلم من يوم مات فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم
جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، میں اس دن مدینہ ہی میں تھا۔ یہ اتنا خوبصورت دن تھا کہ اس سے زیادہ حسین اور روشن دن میں نے نہیں دیکھا اور جس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی، تو بھی میں وہیں موجود تھا۔ میں نے اس سے زیادہ (غم کے حوالے سے) قبیح اور زیادہ تاریک دن نہیں دیکھا۔
(سنن الدارمي: 89، وسنده صحيح)
ایک ضعیف روایت:
❀ البتہ جس روایت میں یہ الفاظ ہیں:
لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم، أظلمت المدينة، حتى لم ينظر بعضنا إلى بعض، وكان أحدنا يبسط يده، فلا يبصرها، فما فرغنا من دفنه حتى أنكرنا قلوبنا
جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی، مدینہ منورہ میں اتنا اندھیرا چھا گیا تھا کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ ہم میں کوئی اگر اپنا ہاتھ دراز کرتا، تو وہ اسے دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین سے فارغ ہو چکے تھے اور ہمارے دل اسے مان نہیں رہے تھے۔
(دلائل النبوة للبيهقي: 265/7)
سند سخت ضعیف ہے۔ محمد بن یونس کریمی سخت مجروح اور متروک ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک من گھڑت روایت:
❀ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
لما رمس رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءت فاطمة رضي الله عنها فوقفت على قبره وأخذت قبضة من تراب القبر، فوضعته على عينيها وبكت وأنشأت تقول: ماذا على من شم تربة أحمد … ألا يشم مدى الزمان غواليا صبت على مصائب لو أنها …. صبت على الأيام عدن لياليا
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کیا گیا، تو فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آ کھڑی ہوئیں۔ قبر نبوی سے مٹی کی ایک مٹھی لے کر اپنی آنکھوں پر رکھی، پھر روتے ہوئے یہ اشعار پڑھنے لگیں: جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک قبر کی مٹی سونگھی ہے، اسے آئندہ زمانے میں کوئی مصیبت پیش نہ آئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی وجہ سے مجھ پر ایسے غم ٹوٹ پڑے ہیں کہ اگر وہ دنوں پر پڑتے، تو وہ راتوں میں بدل جاتے۔
(مثير الغرام الساكن إلى الأشرف الأماكن لابن الجوزي، ص 489، الدرة الثمينة في أخبار المدينة لابن النجار: 290، اتحاف الزائر لابي اليمن ابن عساكر ص 229)
روایت باطل ہے۔
① محمد بن موسیٰ کا تعین و توثیق نہیں ہو سکی۔
② احمد بن محمد کاتب کی توثیق نہیں۔
③ طاہر بن یحییٰ بن حسین بن جعفر مجہول الحال ہے۔
④ یحییٰ بن حسین بن جعفر کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
⑤ حسین بن جعفر بن حسین بن عبید اللہ کا ترجمہ نہیں ملا۔
⑥ابو جعفر باقر رحمہ اللہ کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے، لہذا مرسل بھی ہے۔
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مما ينسب إلى فاطمة، ولا يصح
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے منسوب روایت ثابت نہیں۔
(سير أعلام النبلاء: 134/2)
❀ رفیق غار، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضر و سفر کے ساتھی اور خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی غم کی حالت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
إن أبا بكر دخل على النبى صلى الله عليه وسلم بعد وفاته، فوضع فمه بين عينيه، وضع يديه على صدغيه، وقال: وانبياه، واخليلاه، واصفياه
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ انہوں نے اپنا چہرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے درمیان رکھ دیا اور ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کنپٹیوں پر رکھ دیے۔ کہنے لگے: ہائے میرے نبی، ہائے میرے خلیل، ہائے میرے دوست!
(مسند الإمام أحمد: 31/6، وسنده حسن)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے جری و بہادر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کا سن کر شدت غم میں گھٹنوں کے بل گر گئے تھے:
❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
إن أبا بكر خرج وعمر بن الخطاب يكلم الناس فقال: اجلس يا عمر، فأبى عمر أن يجلس، فأقبل الناس إليه، وتركوا عمر، فقال أبو بكر: أما بعد فمن كان منكم يعبد محمدا صلى الله عليه وسلم، فإن محمدا قد مات، ومن كان منكم يعبد الله فإن الله حي لا يموت، قال الله: ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَى قَوْلِهِ: الشَّاكِرِينَ﴾ (آل عمران: 144)
وقال : والله لكأن الناس لم يعلموا أن الله أنزل هذه الآية حتى تلاها أبو بكر، فتلقاها منه الناس كلهم، فما أسمع بشرا من الناس إلا يتلوها، فأخبرني سعيد بن المسيب، أن عمر قال : والله ما إلا أن سمعت أبا بكر تلاها فعقرت، حتى ما تقلني رجلاي، وحتى أهويت إلى الأرض حين سمعته تلاها، علمت أن النبى صلى الله عليه وسلم قد مات
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ اس وقت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ لوگوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: عمر! بیٹھ جائیں۔ لیکن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نہ بیٹھے۔ لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا:
جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے، اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ اللہ نے خود فرمایا ہے:
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ﴾ إِلَى قَوْلِهِ: ﴿الشَّاكِرِينَ﴾
(آل عمران: 144)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک رسول ہیں۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اللہ کی قسم! ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اس آیت کے نزول کے متعلق پہلے کسی کو خبر ہی نہ تھی۔ لوگوں نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے یہ آیت سیکھی۔ لوگ سنتے جاتے تھے اور پڑھتے جاتے تھے۔
راوی حدیث امام زہری سعید بن مسیب سے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اس وقت ہوش آیا، جب میں نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا۔ میں سکتے میں آ گیا اور ایسے محسوس ہوا کہ میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں سہار پائیں گے اور میں زمین پر گر جاؤں گا۔ جب میں نے ان آیات کی تلاوت سنی، تو مجھے یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واقعی وفات پا گئے ہیں۔
(صحيح البخاري: 4454)
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ جگر گوشہ رسول، سیدہ فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا کے غم کی حالت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
لما دفنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورجعنا قالت فاطمة: يا أنس، أطابت أنفسكم أن دفنتم رسول الله صلى الله عليه وسلم فى التراب ورجعتم
ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین سے فارغ ہو کر واپس آئے، تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں: انس! آپ نے کیسے گوارا کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹی تلے دفن کر کے خود واپس چلے آئے۔
(مسند الإمام أحمد: 204/3، وسنده صحيح)
اور ہم اس دن خوشی مناتے ہیں! نادانستہ ہی سہی، لیکن یہ قباحت سرزد تو ہم سے ہو رہی ہے؟ صرف اس پر بس نہیں، بلکہ عید میلاد کے تحت بے شمار بدعات، خرافات، ہفوات، ترہات، بیسیوں محرمات اور منکرات نے جنم لیا ہے۔ روضۂ رسول کی شبیہ، شرکیہ نعتیں، مجلس کے آخر میں قیام اس عقیدت سے کرنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں خود حاضر ہوتے ہیں (العیاذ باللہ)، شیرینی تقسیم کرنا، دیگیں پکانا، دروازے اور پہاڑیاں بنانا، عمارتوں پر چراغاں کرنا، جھنڈیاں لگانا، ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین شریفین کی تصویر بنانا، مخصوص لباس پہننا، تصویریں اتارنا، رقص و وجد کا اہتمام کرنا، شب بیداری کرنا، اجتماعی نوافل، اجتماعی روزے، اجتماعی قرآن خوانی، عورتوں مردوں کا اختلاط، نوجوان لڑکوں کا جلوس میں شرکت کرنا اور عورتوں کا انہیں دیکھنا، آتش بازی، مشعل بردار جلوس، جو کہ عیسائیوں کا طریقہ ہے، گانے بجانا، فحاشی و عریانی، فسق و فجور، دکھاوا اور ریا کاری، من گھڑت قصے کہانیوں اور جھوٹی روایات کا بیان، انبیاء، ملائکہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں شرکیہ اور کفریہ عقیدے کا اظہار، قوالی، لہو و لعب، مال و دولت اور وقت کا ضیاع وغیرہ، بلکہ اب تو ان پروگراموں میں بدامنی، لڑائی جھگڑا اور قتل و غارت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ خدارا! ان برائیوں کا سدباب کیجئے جو کہ اس صورت ہی ممکن ہے کہ بدعت میلاد سے چھٹکارا حاصل کر لیں۔