❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م: 852ھ) فرماتے ہیں:
ليس له أصل فى الشرع، ويسمى فى عرف الشرع بدعة، وما كان له أصل يدل عليه الشرع، فليس ببدعة، فالبدعة فى عرف الشرع مذمومة بخلاف اللغة.
”جس کام کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو، شرعا اسے بدعت کہا جاتا ہے۔ جس کام کی اصل و دلیل شریعت میں موجود ہو، وہ بدعت نہیں۔ لہٰذا شریعت میں جسے بدعت کہا جاتا ہے، وہ مذموم ہے، جبکہ لغوی معنی کے اعتبار سے بدعت مذموم نہیں۔“
(فتح الباری: 253/13)
❀ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ (م: 795ھ) فرماتے ہیں:
كل بدعة ضلالة من جوامع الكلم، لا يخرج عنه شيء، وهو أصل عظيم من أصول الدين، وهو شبيه بقوله: من أحدث فى أمرنا ما ليس منه فهو رد، فكل من أحدث شيئا ونسبه إلى الدين، ولم يكن له أصل من الدين يرجع إليه، فهو ضلالة، والدين بريء منه، وسواء فى ذلك مسائل الاعتقادات أو الأعمال أو الأقوال الظاهرة والباطنة، وأما ما وقع فى كلام السلف من استحسان بعض البدع، فإنما ذلك فى البدع اللغوية، لا الشرعية
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بدعت گمراہی ہے۔ یہ فرمان جامع کلمات میں سے ہے، کوئی عمل اس کے حکم سے خارج نہیں۔ یہ حدیث دین کا ایک عظیم قاعدہ ہے اور اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہے: جو شخص ہمارے دین میں ایسا کام جاری کرے جس کی اصل اس (کتاب و سنت اور اجماع) میں نہ ہو، وہ باطل ہے۔ چنانچہ جو کوئی کسی کام کو دین کی طرف منسوب کرے اور اس کی بنیاد دین کے کسی اصول پر نہ ہو، وہ گمراہی ہے، اور دین اس سے بری ہے۔ خواہ اس کا تعلق اعتقادی مسائل سے ہو یا ظاہری و باطنی اقوال و اعمال سے۔ بعض سلف کے کلام میں بعض بدعات کی تحسین وارد ہوئی ہے، یہ تحسین لغوی بدعات کی ہے، شرعی بدعات کی نہیں۔“
(جامع العلوم والحکم: ص 193)
معلوم ہوا کہ ہر بدعت مذموم ہے، خواہ اس کا تعلق عقیدے سے ہو یا اعمال سے، لہٰذا یہ کہنا بالکل غلط ہے :
”ثابت ہوا کہ بدعت عقیدے کو فرمایا گیا ۔ “
(جاء الحق: ص 205)
کیونکہ جن نصوص میں بدعات کی مذمت وارد ہوئی ہے، وہ عام ہیں اور ان میں تخصیص یا تقسیم ثابت نہیں۔
عہد صحابہ کے بعد کوئی بدعت ”حسنہ“ نہیں:
❀ علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (م: 792ھ) فرماتے ہیں:
إن ما أحدث بعد عهد الصحابة لا يكون حسنا.
”عہد صحابہ کے بعد جاری ہونے والی کوئی بدعت حسنہ نہیں ہو سکتی۔“
(التنبیہ علی مشکلات الہدایہ: 493/1 )
ثابت ہوا کہ صحابہ کرام کے اعمال بدعت نہیں ہوتے۔ جس کسی نے انہیں بدعت کہا، اس کی مراد لغوی بدعت ہے، نہ کہ شرعی بدعت۔