واقعہ اسراء و معراج: حضرت عائشہؓ و معاویہؓ سے منسوب اقوال اور بعض روایات سے غلط استدلال
یہ اقتباس حافظ صلاح الدین یوسف کی کتاب واقعہ معراج اور اس کے مشاہدات سے ماخوذ ہے۔

معراج کے دو حصے ہیں: پہلے حصے کو اسراء اور دوسرے کو معراج کہا جاتا ہے لیکن عرف عام میں دونوں ہی کو معراج سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اسراء کا ذکر سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں ہے یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک کا سفر، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا﴾
( بنی اسرائیل : 1)
پاک ہے وہ ذات جو رات کے ایک تھوڑے سے حصے میں اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت رکھی ہے تا کہ ہم اسے اپنی قدرت کے کچھ نمونے دکھائیں۔
مسجد حرام (خانہ کعبہ) مکہ میں ہے اور مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) فلسطین کے شہر القدس میں ہے جس کا پرانا نام ”ایلیا “ ہے۔ مکہ سے القدس تک کی مسافت (پرانے زمانے کے مطابق جب کہ آمدورفت کے موجودہ برق رفتار ذرائع نہیں تھے) 40 دن کی تھی لیکن چالیس دن کی یہ مسافت اس رات کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے رات کے ایک تھوڑے سے حصے (گویا پلک جھپکنے) میں طے ہوگئی۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا آغاز لفظ (سُبْحَانَ) سے کیا جو (سَبَّحَ يُسَبِّحُ) کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں: (انزه الله تنزيها) ”میں اللہ کی ہر نقص سے تنزیہ اور براءت کرتا ہوں۔“ عام طور پر اس کا استعمال ایسے موقعوں پر ہوتا ہے جب کسی عظیم الشان واقعے کا ذکر ہو۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک ظاہری اسباب کے اعتبار سے یہ واقعہ کتنا بھی محال ہو، اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ اس لیے کہ وہ اسباب کا پابند نہیں، وہ تو لفظ کُن سے پلک جھپکتے جو چاہے کر سکتا ہے۔ اسباب تو انسانوں کے لیے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پابندیوں اور کمزوریوں سے پاک ہے۔
معراج (عَرَجَ يَعْرُجُ )سے اسم آلہ ہے جس کے معنی "چڑھنے” کے ہیں۔ معراج کے معنی ہوں گے: "چڑھنے کا آلہ یعنی سیڑھی”۔ مسجد اقصیٰ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں پر لے جایا گیا، اس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں "عرج بي” یعنی "مجھے آسمانوں پر چڑھایا گیا” کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ علاوہ ازیں بعض روایات میں معراج سیڑھی کا ذکر بھی ملتا ہے کہ اس کے ذریعے سے آسمانوں پر لے جایا گیا۔ اس لیے آسمانی سفر کے اس دوسرے حصے کو معراج کہا جاتا ہے۔ اس کا کچھ ذکر اللہ تعالیٰ نے سورہ نجم میں کیا ہے اور دیگر تفصیلات احادیث میں بیان ہوئی ہیں۔

اسراء و معراج ایک عظیم معجزہ

ظاہر بات ہے کہ چالیس روز کا سفر رات کے ایک تھوڑے سے حصے میں کر لینا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ اسی طرح رات کے اس حصے میں آسمانوں کی سیر کر لینا بھی ظاہری طور پر ایک انہونا واقعہ ہے۔ لیکن جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو، یعنی اس میں اس کی قدرت کی کارفرمائی اور اس کی مشیت کی جلوہ فرمائی ہو تو پھر اس میں استبعاد (اسے ناممکن سمجھنا) کسی مسلمان کے شایاں نہیں۔ اسی لیے اس قسم کے واقعات کو معجزات کہا جاتا ہے جس کے معنی ہی ”عاجز کر دینے والے واقعات “کے ہیں، یعنی کوئی انسان اپنے طور پر ان کو کرنے پر قادر نہیں۔ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت ہی سے وجود پذیر ہوتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کی تائید و تصدیق کے لیے کوئی معجزاتی واقعہ لوگوں کو دکھلائے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسے صادر کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی انسان ہی تھے، وہ ازخود اس طرح بیت المقدس جا سکتے تھے نہ وہاں سے آسمانوں پر چڑھ سکتے تھے۔ یہ سب کچھ اعجاز اور شان اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ہے کہ اس نے اپنے آخری پیغمبر کو یہ مقام عظمت و فضیلت عطا کرنا تھا تو اس نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ سب کچھ کر کے دکھا دیا۔ بنابریں اسے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے مقابلے میں ناممکن قرار نہیں دیا جا سکتا۔
یہ کشف اور روحانی مشاہدہ نہیں تھا۔ بجسدہ العنصری (روح اور بدن سمیت) ایک سفر تھا۔ اسی لیے علمائے کرام کا متفقہ عقیدہ ہے کہ یہ کشف اور روحانی مشاہدہ نہیں تھا (جیسا کہ بعض حضرات اسے خواب کا واقعہ باور کرانے کی مذموم سعی کرتے ہیں) بلکہ عالم بیداری کا واقعہ ہے۔ آپ فی الواقع اپنی روح اور بدن سمیت پہلے بیت المقدس اور پھر وہاں سے آسمانوں پر تشریف لے گئے۔
اسراء کے معنی ہی روح و بدن سمیت لے جانے کے ہیں نہ کہ عالم خواب میں روحانی سیر کے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کو ایک اور مقام پر بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا:
﴿فَأَسْرِ بِعِبَادِي لَيْلًا إِنَّكُم مُّتَّبَعُونَ﴾
(الدخان:23)
"اے موسیٰ! میرے بندوں کو راتوں رات (فرعون کے پنجے سے) نکال کر لے جا، یقیناً تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔”
یہاں قرآن مجید میں بنو اسرائیل کو لے جانے کا جو حکم ہے وہ کوئی روحانی طور پر لے جانے کا نہیں تھا بلکہ ان کو واقعی حقیقی طور پر لے جانے کا تھا، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام واقعی اپنی قوم کو وہاں سے نکال کر لے گئے جس کے بعد فرعون نے ان کا تعاقب کیا اور اپنے لشکر سمیت ان کو پکڑنے کے لیے ان کے پیچھے گیا۔ یہی لفظ ( أَسْرَىٰ ) اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کے سفر کے لیے بھی استعمال فرمایا ہے: (أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ) پس اس کے بھی وہی معنی ہوں گے جو (أَسْرِ بِعِبَادِي) کے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک جگہ اس کے معنی روحانی سیر کے ہوں اور دوسری جگہ واقعی روح و بدن سمیت لے جانے کے۔
علاوہ ازیں حدیث میں آتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب میرے اس واقعے کی شہرت ہوئی اور کفار و مکذبین کے لیے اس کا ماننا ممکن نہیں ہو رہا تھا تو انہوں نے متعدد سوالات کیے جن کا جواب دینا میرے لیے مشکل تھا تو اللہ تعالیٰ نے میرے اور بیت المقدس کے درمیان سے سارے حجاب اٹھا کر بیت المقدس کو میرے سامنے کر دیا اور میں اسے دیکھ دیکھ کر جواب دیتا رہا۔” صحیح بخاری کے الفاظ ہیں:
لما كذبني قريش قمت فى الحجر فجلى الله لي بيت المقدس فطفقت أخبرهم عن آياته وأنا أنظر إليه
(صحيح البخاري، مناقب الأنصار، باب حديث الإسراء، حديث: 3886، وصحيح مسلم، الإيمان، حديث: 170)
"جب قریش نے مجھے جھٹلایا تو میں حجر (حطیم) میں کھڑا ہو گیا، پس اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میرے سامنے لا کھڑا کیا اور میں اسے دیکھ دیکھ کر ان کو بتلاتا رہا۔”
اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے:
لقد رأيتني فى الحجر وقريش تسألني عن مسراي، فسألتني عن أشياء من بيت المقدس لم أثبتها، فكربت كربة ما كربت مثله قط – قال – فرفعه الله لي أنظر إليه، ما يسألوني عن شيء إلا أنبأتهم به
(صحيح مسلم، الإيمان، باب ذكر المسيح ابن مريم والمسيح الدجال، حديث: 172)
"میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں حجر میں (حطیم، خانہ کعبہ کا وہ حصہ جسے قریش نے باہر چھوڑ دیا تھا اور وہ اب تک اس طرح ہی چلا آ رہا ہے) ہوں اور قریش مجھ سے میری سیر معراج کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں، پس انہوں نے بیت المقدس کے بارے میں مجھ سے بہت سی ایسی چیزیں پوچھیں جنہیں میں اچھی طرح یاد نہیں رکھ سکا تھا تو میں اتنا پریشان ہوا کہ اتنا پریشان اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر اس طرح میرے سامنے کر دیا کہ میں اسے دیکھنے لگا، پھر انہوں نے (اس کی بابت) جو بھی سوال مجھ سے کیا، میں ان کو اس کی بابت بتلاتا رہا۔”
ایک اور روایت میں ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مکہ میں صبح کو میں سخت پریشان ہوا کہ لوگ میری بات پر یقین نہیں کریں گے اور مجھے جھٹلائیں گے۔ میں اسی سوچ میں غمگین اور پریشان بیٹھا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ابو جہل میرے پاس سے گزرا اور میرے پاس آ کر بیٹھ گیا اور مجھ سے استہزا کے انداز میں پوچھا: کیا کوئی خاص بات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں!”
اس نے کہا: کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آج رات مجھے سیر کرائی گئی ہے۔” اس نے کہا: کہاں تک؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیت المقدس تک۔” اس نے کہا: پھر صبح کو آپ ہمارے اندر موجود بھی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں!” اس نے کہا: اگر میں آپ کی قوم کو بلا کر لاؤں تو کیا آپ ان سے یہ بات کریں گے جو مجھ سے کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں!”
چنانچہ اس نے عربوں کے طریقے کے مطابق آواز لگائی: اے بنو کعب بن لؤی! اس کی آواز سن کر لوگ مجلسوں سے اٹھ کر اس کے پاس آگئے۔ وہ ان سب کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا اور کہنے لگا: اب آپ اپنی قوم کے سامنے وہ بات بیان کریں جو آپ نے مجھ سے کی تھی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آج رات مجھے سیر کرائی گئی ہے۔” انہوں نے کہا: کہاں تک؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیت المقدس تک۔” انہوں نے کہا: پھر صبح آپ ہمارے درمیان موجود بھی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں!”
یہ سن کر کچھ لوگ تالیاں پیٹنے لگ گئے، کچھ نے اسے جھوٹ سمجھ کر اپنے سروں پر تعجب سے ہاتھ رکھ لیے۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے بیت المقدس کا سفر کیا ہوا تھا اور مسجد اقصیٰ بھی دیکھی ہوئی تھی، وہ کہنے لگے: کیا آپ مسجد اقصیٰ کی صفات بیان کر کے ہمیں بتلائیں گے؟
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے مسجد کی صفتیں بیان کرنی شروع کر دیں۔ میں بیان کرتا رہا حتیٰ کہ بعض چیزوں میں مجھے التباس ہونے لگا تو مسجد میرے سامنے کر دی گئی حتیٰ کہ جیسے دار عقال يا دار عقيل سے کم فاصلے پر ہوگئی، پس میں اسے دیکھتا رہا اور اس کی صفتیں بیان کرتا رہا۔” انہوں نے میری باتیں سن کر کہا: اللہ تعالیٰ کی قسم! اس نے صفتیں تو ساری صحیح بیان کی ہیں۔
(مسند احمد: 309/1 و الطبراني، رقم: 12782، وسنده صحيح بحوالہ الإسراء والمعراج للألباني، ص: 81، 82)
اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش مکہ کے سوالات کی وجہ سے پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہ ہوتی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما دیتے: میں نے تو یہ سب کچھ خواب میں دیکھا ہے۔ میں کون سا وہاں سے ہو کر آیا ہوں جو تم مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ کر رہے ہو؟ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا جس سے یہ واضح ہو گیا کہ یہ عالم خواب کا نہیں بلکہ عالم بیداری کا واقعہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیداری ہی کا واقعہ بتلایا نہ کہ روحانی کشف و مشاہدہ۔
قرآن مجید میں (الرُّؤْيَا) رؤیت ہی کے معنی میں ہے۔ بعض لوگ قرآن کریم کی درج ذیل آیت سے استدلال کرتے ہوئے اسے خواب قرار دیتے ہیں:
﴿وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ﴾
(الإسراء:60)
اور جو رؤیا (خواب) ہم نے آپ کو دکھایا، اسے لوگوں کے لیے آزمائش بنا دیا۔
حالانکہ اس آیت میں رؤیا خواب کے معنی میں نہیں ہے جیسا کہ اس کا زیادہ استعمال اس معنی میں ہے۔ یہاں اسے آنکھوں سے دیکھنے کے معنی ہی میں استعمال کیا گیا ہے کیونکہ اس معنی میں بھی استعمال عربی زبان میں ہوتا ہے، چنانچہ کہا جاتا ہے: رأيته بعيني رؤية ورؤيا میں نے اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا” (التفسیر المنیر ، ڈاکٹر وھبہ زحیلی ، ج: 15، ص: 111) یعنی آنکھوں کے ساتھ دیکھنے کو رؤية اور رؤيا دونوں لفظوں سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اور علامہ جمال الدین قاسمی لکھتے ہیں:
وجاء فى اللغة الرؤيا بمعنى الرؤية مطلقا وهو معنى حقيقي لها
لغت میں رؤیا مطلق رؤیت (دیکھنے) کے معنی میں بھی آتا ہے اور یہی اس کے حقیقی معنی ہیں، جیسے: (قربیٰ اور قربۃ) ہیں۔ (تفسیر القاسمی)
امام قرطبی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی رؤیا، رؤیت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ (تفسیر القرطبی)
علاوہ ازیں جب قرآن خود اس امر کی صراحت کر رہا ہے کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے آزمائش بنایا تو لوگوں کے لیے یہ واقعہ آزمائش تو تب ہی بنے گا جب اسے آنکھوں کا مشاہدہ قرار دیا جائے گا ورنہ روحانی مشاہدے میں تو کسی کے لیے استبعاد و استعجاب کا پہلو ہی نہیں رہتا، وہ آزمائش کس طرح بن سکتا ہے؟ اسی لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس آیت میں رؤیا سے مراد:
هي رؤيا عين أريها رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة أسري به
وہ آنکھوں کا دیکھنا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسراء و معراج والی رات دکھایا گیا۔
(صحيح البخاري، التفسير، حديث: 4716)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی اس حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ذیل میں لکھتے ہیں:
واستدل به على إطلاق لفظ الرؤيا على ما يرى بالعين فى اليقظة
اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ رؤیا کا لفظ آنکھ کے اس مشاہدے پر بھی بولا جا سکتا ہے جو عالم بیداری میں کیا جائے۔
پھر ان لوگوں کے رد میں جو اس بات کو نہیں مانتے بلکہ وہ رؤیا کو خواب ہی کے لیے خاص کرتے ہیں، لکھتے ہیں:
وممن استعمل الرؤيا فى اليقظة المتنبي فى قوله: "ورؤياك أحلى فى العيون من العمض
اور جن لوگوں نے عالم بیداری میں دیکھنے کے لیے رؤیا کا لفظ استعمال کیا ہے، ان میں ”متنبی“ شاعر بھی ہے جس نے اپنے اس شعر میں کہا: "اور تیرا دیکھنا نہ دیکھنے سے آنکھوں کے لیے شیریں تر ہے۔”
”متنبی“ نے اس مصرع میں رؤیا کو آنکھ کے دیکھنے کے معنی ہی میں استعمال کیا ہے۔ اور ”متنبی“ کا عربی زبان و ادب میں جو مقام ہے، محتاج بیان نہیں۔
جب عربی زبان و ادب اور لغت میں رؤیا، رؤیت (دیکھنے) کے معنی میں مستعمل ہے تو یقیناً آیت (وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا ) میں بھی رؤیا، چشم سر کے ساتھ دیکھنے ہی کے معنی میں ہے، بالخصوص جب کہ یہ قرینہ بھی اسی معنی پر دلالت کرتا ہے کہ یہ واقعہ بہت سے لوگوں کے لیے آزمائش بن گیا اور انہوں نے اس کو ماننے کی بجائے اس کی تکذیب کی۔ آزمائش کا مطلب یہی ہے کہ اس واقعے کی اعجازی شان ان کے لیے ناقابل یقین بن گئی اور وہ اپنے کفر و تکذیب میں پختہ تر ہو گئے۔

بعض راویوں کی تعبیرات سے غلط استدلال اور اس کی حقیقت

بعض حضرات نے راویوں کے اختلاف تعبیر سے بھی اس واقعے کے خواب ہونے پر استدلال کیا ہے جیسے بعض روایات میں ہے: بينما أنا نائم ایک وقت میں سویا ہوا تھا۔ یا حضرت انس رضی اللہ عنہ کا قول : وهو نائم فى المسجد الحرام "آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں سوئے ہوئے تھے”۔ یا قصے کے آخر میں یہ فرمانا: ثم استيقظت وأنا فى المسجد الحرام "پھر میں بیدار ہو گیا اور میں مسجد حرام میں تھا۔” وغیرہ۔
ان سے استدلال صحیح نہیں۔ اول تو اس لیے کہ اس قسم کے الفاظ اکثر راویوں کی روایت میں نہیں ہیں بلکہ ان میں ایسے واضح الفاظ ہیں جن سے واقعے کی اعجازی شان ہی نمایاں ہوتی ہے۔ دوسرے یہ الفاظ ان معانی میں واضح نہیں ہیں جو ان سے اخذ کیے جا رہے ہیں بلکہ نائم سے مراد وہ ابتدائی حالت ہے جو فرشتوں کے آنے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی۔ فرشتے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ سوئے ہوئے تھے، پھر آپ کو بیدار کر کے براق پر سوار کرا کے بیت المقدس لے جایا گیا۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ سارا واقعہ ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہی رہے، یعنی حالت نیند ہی میں سب کچھ ہوا۔
اسی طرح بعض روایات میں الفاظ ہیں: بين النائم واليقظان "میں نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا۔” یعنی فرشتے جس وقت آئے میں پوری طرح سویا نہیں تھا۔ اس کا مطلب بھی سونا نہیں بلکہ گہری نیند کی نفی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی ابتدائی حالت ہی کا اظہار ہے۔
قصے کے آخر میں ثم استيقظت "پھر میں بیدار ہو گیا” بعض راویوں کی تعبیر ہے۔ اسے اول تو ایک راوی شریک بن عبد اللہ کا وہم قرار دیا گیا ہے۔ شریک بن عبد اللہ کی روایت میں کئی غلطیاں اور اوہام ہیں جن کی صراحت ائمہ حدیث اور شارحین حدیث نے کی ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے خود بھی اپنی صحیح میں شریک کی روایت کا حوالہ دے کر کہا۔
وقدم فيه شيئا وأخر، وزاد ونقص
”اس نے کئی چیزوں کو آگے پیچھے کر دیا اور کمی بیشی کر دی۔“
صحيح مسلم، الإيمان، باب الإسراء برسول الله ﷺ حديث: 162
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد جاء فى رواية شريك فى هذا الحديث: فى الكتاب أوهام أنكرها العلماء
”شریک کی اس روایت میں جو اس کتاب (مسلم) میں ہے کئی اوہام ہیں جنہیں علماء نے تسلیم نہیں کیا۔“
شرح نووی: 209/2، مكتبة غزالي، دمشق
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وقوله فى حديث شريك عن أنس: ثم استيقظت فإذا أنا فى الحجر، معدود فى غلطات شريك
شریک کی روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ”پھر میں بیدار ہو گیا تو میں حجر میں تھا۔“ شریک کی غلطیوں میں شمار کیا گیا ہے۔
البداية والنهاية: 112/2
اور اپنی تفسیر میں بھی اس بات کی وضاحت کی ہے۔
دیکھ تفسير ابن كثير، ج: 5، ص: 5-6
پھر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی ایک توجیہ یہ پیش کی ہے کہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف انتقال کو بھی یقظہ (بیداری) سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔ یہاں اگر اسے اس معنی پر محمول کر لیا جائے تو غلطی ماننے سے زیادہ اچھا ہے۔ پھر اس کی انہوں نے دو مثالیں پیش کیں: ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طائف سے واپسی کی، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فرجعت مهموما فلم أستفق إلا بقرن الثعالب
”میں طائف سے پریشان اور مغموم لوٹا، پس مجھے قرن الثعالب پر آ کر ہوش آیا۔“
یعنی اہل طائف کی تکذیب اور معاندانہ روش سے مجھے جو غم و حزن لاحق ہوا تھا، قرن الثعالب پر پہنچ کر اس میں کمی آئی۔ اس غم و حزن کی کمی کو آپ نے ہوش میں آنے سے تعبیر فرمایا۔
ایک دوسری مثال حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہ پیش کی کہ ایک صحابی حضرت ابو اسید رضی اللہ عنہ ”گھٹی “ کے لیے اپنے نومولود بیٹے کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ران مبارک پر رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ باتوں میں مشغول ہو گئے تو حضرت ابو اسید رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ دوسری طرف دیکھ کر اپنا بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود سے اٹھا لیا۔ (ثم استيقظ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے، یعنی لوگوں سے ہٹ کر حضرت ابو اسید رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے تو بچے کو گود میں نہ پا کر پوچھا: تو آپ کو بتایا گیا کہ اسے آپ کی گود سے اٹھا لیا گیا۔ پس آپ نے اس کا نام منذر تجویز فرمایا۔ اس میں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف انتقال کو استيقظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ (البداية صفحہ مذکور)
علاوہ ازیں، اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ معراج سے واپس آ کر سو گئے ہوں، پھر بیدار ہوئے ہوں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر رات کے نہایت تھوڑے سے حصے میں ہو گیا تھا۔ یا استيقظت، أصبحت ”میں نے صبح کی“ کے معنی میں ہو۔ یا پھر اس کا مطلب ہے کہ آسمانوں کے عجائبات سے آپ پر جو بے خودی کی کیفیت طاری تھی اور ملأ اعليٰ کے مشاہدات اور آیات کبریٰ کی جلوہ افروزیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب و دماغ میں جو سرشاری اور روحانیت و تجلیات کی جو فراوانی تھی، اس سے نکل کر اصلی بشری حالت و کیفیت میں جب آپ واپس آئے تو اس وقت آپ مسجد حرام ہی میں تھے۔
تفسير القاسمي، ج: 10، ص: 191 وفتح الباري، كتاب التوحيد: ج: 13، ص: 587، مطبوعہ دار السلام، الرياض
بہر حال، مذکورہ تعبیرات کی یہ توجیہات جو علمائے اسلام نے کی ہیں، اس لیے ضروری ہیں تا کہ واقعہ معراج کی تفصیلات میں مطابقت ہو جائے۔ کیونکہ یہ واقعہ چوبیس سے زیادہ صحابہ سے مروی ہے۔ اس اعتبار سے اسے تواتر معنوی کا درجہ حاصل ہے۔ اس لیے بعض راویوں کے وہم یا مخصوص تعبیر کی وجہ سے سارے واقعے کو اور اس کی اہم تفصیلات کو مشکوک قرار دیا جا سکتا ہے نہ اسے خواب قرار دے کر اس کی ساری اعجازی شان ہی کو ختم کیا جا سکتا۔
اسی طرح بعض علماء کا اختلاف روایات کی وجہ سے تعدد معراج کا قائل ہونا بھی صحیح نہیں، نہ یہ راویوں کے اختلافات کا کوئی صحیح حل ہی ہے۔ اتنے عظیم اور مہتم بالشان واقعے کو جب متعدد لوگ بیان کریں گے تو واقعے کی تفصیلات میں جزوی اختلافات یا اس میں تقدیم و تاخیر اور زیادت و نقص کا واقع ہو جانا کوئی بعید نہیں۔ کسی چیز کی نقل میں متعدد راویوں کے بیانات میں ایسا باہمی اختلاف عام ہے۔ ایسے موقعوں پر نفس واقعہ کا انکار نہیں کیا جاتا، نہ انہیں متعدد واقعات قرار دیا جاتا ہے، بلکہ ان بیانات کے مشترکہ نکات اور اجزاء کی روشنی میں اصل واقعہ اور اس کی ضروری تفصیلات کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اسراء و معراج کی مختلف روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وإذا حصل الوقوف على مجموع هذه الأحاديث صحيحها وحسنها وضعيفها، فحصل مضمون ما اتفقت عليه من مسرى رسول الله صلى الله عليه وسلم من مكة إلى بيت المقدس، وإنه مرة واحدة وإن اختلفت عبارات الرواة فى أدائه أو زاد بعضهم أو نقص منه، فإن الخطأ جائز على من عدا الأنبياء عليهم السلام، ومن جعل من الناس كل رواية خالفت الأخرى مرة على حدة، فأثبت إسراءات متعددة فقد أبعد وأغرب وهرب غير مهرب ولم يحصل على مطلب، وقد صرح بعضهم من المتأخرين بأنه عليه السلام أسري به مرة من مكة إلى المقدس فقط، ومرة من مكة إلى السماء فقط، ومرة إلى بيت المقدس ومنه إلى السماء، وفرح بهذا المسلك، وأنه قد طفر بشيء يخلص به من الإشكالات، وهذا بعيد جدا، ولم ينقل هذا عن أحد من السلف، ولو تعدد هذا التعدد لأخبر النبى صلى الله عليه وسلم به أمته، ولنقلته الناس على التعدد والتكرر والحق أنه عليه السلام أسري به يقظة لا مناما من مكة إلى بيت المقدس راكبا البراق
جب ان احادیث کے مجموعے پر، جن میں صحیح، حسن اور ضعیف روایات ہیں، انسان گہری نظر ڈالتا ہے تو اسے ان سے یہ متفقہ مضمون حاصل ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے بیت المقدس تک کی سیر کی اور یہ سیر ایک ہی مرتبہ ہوئی ہے، اگرچہ اس بات کی ادائیگی میں راویوں کی عبارتوں میں اختلاف ہے یا بعض نے کچھ اضافہ اور بعض نے کچھ کمی کر دی۔ اس لیے کہ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ سب سے غلطی ہو سکتی ہے۔ اور بعض نے ہر روایت کی بنیاد پر جو دوسری روایت سے مختلف ہے، اس کو ہر مرتبہ الگ واقعہ قرار دیا ہے اور یوں متعدد اسرا ءات ثابت کیے ہیں تو انہوں نے یقیناً ایک دور از کار اور عجیب بات کی ہے اور ایسی جگہ کی طرف راہ فرار اختیار کی ہے جہاں انہیں پناہ ملنا ممکن نہیں، نہ مطلب کا حصول۔ بعض متأخرین نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ مکہ سے صرف بیت المقدس تک سیر کرائی گئی اور ایک مرتبہ مکہ سے صرف آسمان تک اور ایک مرتبہ بیت المقدس تک اور وہاں سے آسمان تک، اور اس رائے پر انہوں نے بڑا گھمنڈ کیا اور یہ تصور کیا کہ وہ ایسی چیز کے حصول میں کامیاب ہو گئے ہیں جس سے اشکالات سے نجات مل جاتی ہے۔ یہ بہت ہی بعید بات ہے اور سلف میں سے کسی سے ایسی بات منقول نہیں۔ اگر یہ واقعی متعدد واقعات ہوتے تو اس کی بابت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اپنی امت کو خبر دیتے اور لوگ بھی اسے اسی تعدد کے ساتھ نقل کرتے۔ حق بات یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ براق کے مکہ سے بیت المقدس تک لے جایا گیا (اور پھر وہاں سے آسمانوں پر) اور یہ سارا واقعہ عالم بیداری میں ہوا، نہ کہ خواب میں۔
تفسير ابن كثير: ج: 5، ص: 39-40
اس کے بعد حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس واقعے کو تلخیص کے ساتھ پیش کیا ہے جس میں کوئی ابہام رہتا ہے نہ اختلاف و تضاد۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ”البداية والنهاية “میں لکھتے ہیں:
وكان بعض الرواة يحذف بعض الخبر للعلم به، أو ينساه أو يذكر ما هو الأهم عنده، أو يبسط تارة فيسوقه كله، وتارة يحذف عن مخاطبه بما هو الأنفع عنده، ومن جعل كل رواية إسراء على حدة كما تقدم عن بعضهم، فقد أبعد جدا
اور بعض راوی خبر کا کچھ حصہ اس کی شہرت کی وجہ سے حذف کر دیتے ہیں یا وہ اسے بھول جاتے ہیں یا ان کے نزدیک جو اہم بات ہوتی ہے اسے بیان کر دیتے ہیں یا بعض دفعہ تفصیل سے سب کچھ بیان کر دیتے ہیں اور کبھی مخاطب کے اعتبار سے حذف کر کے جو بات اس کے نزدیک زیادہ مفید ہوتی ہے اسے بیان کر دیتے ہیں۔ اور جس نے ہر روایت کی بنیاد پر اسے علیحدہ قصہ قرار دیا ہے، جیسا کہ بعض کا قول گزرا، تو وہ واقعی دور کی کوڑی لایا ہے۔
البداية: 115/2

حضرت عائشہ و حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب اقوال کی حقیقت

بعض لوگ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب اقوال سے استدلال کرتے ہوئے واقعہ معراج کو روحانی مشاہدہ ثابت کرتے ہیں۔ یہ دونوں قول حسب ذیل ہیں:
يعقوب بن عتبة أن معاوية بن أبى سفيان كان إذا سئل عن مسرى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كانت رؤيا من الله صادقة
”یعقوب بن عتبہ کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کی بابت سوال کیا جاتا تو وہ فرماتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ایک سچا خواب تھا۔“
عن محمد( بن إسحاق )قال حدثني بعض آل أبى بكر أن عائشة كانت تقول: ما فقد جسد رسول الله صلى الله عليه وسلم ولكن الله أسرى بروحه
محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھ سے بعض آل ابی بکر نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک مفقود نہیں ہوا، لیکن اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو لے گیا۔
تفسير ابن جرير طبري، سورة الإسراء: 9/16
پہلی روایت تو منقطع ہے، یعقوب بن عتبہ کی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہی ثابت نہیں۔ اور دوسری روایت میں بعض آل ابی بکر مجہول ہے، آل ابی بکر کا کوئی شخص کون ہے؟ اس کا کوئی پتہ نہیں۔ اس لیے سند کے اعتبار سے یہ دونوں قول پایہ اعتبار سے ساقط ہیں۔ علاوہ ازیں، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس وقت مسلمان ہی نہیں تھے، اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس وقت بالکل بچی تھیں۔ اس اعتبار سے بھی اس واقعے کی بابت ان کی رائے کو کیسے مستند کہا جا سکتا ہے؟ بہر حال، کسی اعتبار سے بھی یہ دونوں قول قابل استدلال نہیں۔ چنانچہ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد اعترض قول عائشة ومعاوية، بأنها كانت صغيرة لم تشاهد ولا حدثت عن النبي، وأما معاوية فكان كافرا فى ذلك الوقت غير مشاهد للحال ولم يحدث عن النبى صلى الله عليه وسلم
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا و معاویہ رضی اللہ عنہ کے اقوال پر اعتراض کیا گیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تو اس وقت بچی تھیں، انہوں نے تو اس وقت کا مشاہدہ ہی نہیں کیا اور نہ یہ بات انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے۔ اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس وقت کافر تھے، وہ بھی اس وقت کے حالات کا مشاہدہ کرنے والے نہ تھے اور نہ انہوں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے بیان کی ہے۔
تفسير القرطبي، سورة الإسراء: 10/209

علمائے اسلام، محدثین اور مفسرین امت کی صراحت

یہی وجہ ہے کہ واقعے کی روایات میں بعض جزوی اختلافات کے باوجود جمہور علمائے اسلام نے اسراء و معراج کو اسی طرح تسلیم کیا ہے جیسا کہ قرآن مجید اور احادیث میں اس کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
وقد اختلف السلف بحسب اختلاف الأخبار الواردة: فمنهم من ذهب إلى أن الإسراء والمعراج وقعا فى ليلة واحدة فى اليقظة بجسد النبى صلى الله عليه وسلم وروحه بعد المبعث، وإلى هذا ذهب الجمهور من علماء المحدثين والفقهاء والمتكلمين وتواردت عليه ظواهر الأخبار الصحيحة، ولا ينبغي العدول عن ذلك، إذ ليس فى العقل ما يحيله حتى يحتاج إلى تأويل
سلف میں روایات کے اختلاف کی وجہ سے کچھ اختلاف ہے۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ اسراء و معراج دونوں ایک ہی رات میں، عالم بیداری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اور بدن کے ساتھ آپ کی بعثت کے بعد واقع ہوئے ہیں۔ جمہور علمائے محدثین، فقہاء، متکلمین کا یہی مسلک ہے۔ احادیث صحیحہ کا ظاہر بھی اس کے مطابق وارد ہے، اس سے انحراف جائز نہیں۔ اس لیے کہ عقلی طور پر اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو اسے ناممکن قرار دے سکے حتیٰ کہ اس کے لیے تاویل کی ضرورت ہو۔

قاضی عیاض رحمہ اللہ اس بارے میں لکھتے ہیں:
وذهب معظم السلف والمسلمين إلى أنه إسراء بالجسد وفي اليقظة وهذا هو الحق
”سلف اور مسلمانوں کی اکثریت کا مسلک یہی ہے کہ یہ اسراء و معراج کا واقعہ جسمانی تھا اور عالم بیداری میں ہوا اور یہی حق ہے۔“
حضرات ابن عباس ، جابر ، انس ، حذیفہ، عمر، ابو ہریرہ ، مالک بن صعصعہ ، ابو جہم بدری اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم اس کے قائل ہیں (اور تابعین میں سے )ضحاک، سعید بن جبیر، قتادہ، ابن مسیب، ابن شہاب، ابن زید، حسن، ابراہیم، مسروق، مجاہد، عکرمہ، اور ابن جریج رحمہ اللہ علیہم بھی اسی کے قائل ہیں۔ اور یہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کی دلیل ہے اور یہی امام طبری رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور مسلمانوں کی ایک عظیم جماعت کا قول ہے اور یہی اکثر متأخر فقہاء، محدثین، متکلمین اور مفسرین کا قول ہے۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ اس کے بعد ایک اختلافی رائے لکھتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں:
والحق فى هذا والصحيح، إن شاء الله، أنه إسراء بالجسد والروح فى القصة كلها وعليه تدل الآية وصحيح الأخبار والإعتبار، ولا يعدل عن الظاهر والحقيقة إلى التأويل إلا عند الإستحالة، وليس فى الإسراء بجسده وحال يقظته استحالة، إذ لو كان مناما لقال: بروح عبده ولم يقل بعبده وقوله: ما زاغ البصر وما طغىٰ ۗ ولو كان مناما لما كانت فيه آية ولا معجزة ولما استبعده الكفار ولا كذبوه ولا ارتد به ضعفاء من أسلم وافتتنوا به، إذ مثل هذا من المنامات لا ينكر، بل لم يكن ذلك منهم إلا وقد علموا أن خبره إنما كان عن جسمه وحال يقظته
اس بارے میں حق اور صحیح بات، ان شاء اللہ، یہی ہے کہ اسراء و معراج کا سارا واقعہ جسم اور روح کے ساتھ پیش آیا ہے۔ اسی پر آیت قرآنی اور صحیح و معتبر روایات دلالت کرتی ہیں اور ظاہر اور حقیقت سے تاویل کی طرف انحراف اس وقت تک جائز نہیں جب تک وہ عقلی لحاظ سے محال نہ ہو اور معراج کا جسمانی اور حالت بیداری میں ہونا کوئی امر محال نہیں۔ اس لیے کہ اگر یہ خواب ہوتا تو اللہ تعالیٰ [ أَسْرَىٰ بِرُوْحِ بِعَبْدِهِ] ”اللہ اپنے بندے کی روح لے گیا“ فرماتا، [ أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ] ”اپنے بندے کو لے گیا“ نہ فرماتا اور اللہ تعالیٰ (سورہ نجم میں) بھی نہ فرماتا: ”نہ نگاہ بہکی اور نہ حد سے بڑھی۔“ اور اگر یہ خواب ہوتا تو پھر یہ کوئی نشانی ہوتا نہ معجزہ۔ اور نہ کافر اسے ناممکن سمجھ کر اس کی تکذیب کرتے اور نہ ضعیف الایمان (نئے نئے مسلمان) مرتد ہوتے اور اس کی وجہ سے فتنے میں مبتلا ہوتے۔ اس لیے کہ اس قسم کے خوابوں کا انکار نہیں کیا جاتا۔ بلکہ ان کی طرف سے انکار اسی وقت ہوا جب ان کو معلوم ہوا کہ آپ ان کو یہی بتلا رہے ہیں کہ سیر جسمانی تھی اور عالم بیداری میں ہوئی۔
تفسير القاسمي: 10/189-190
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ مختلف آراء ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”ہمارے نزدیک صحیح قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی۔ جیسا کہ اللہ نے (سورة الإسراء میں) اپنے بندوں کو خبر دی ہے۔ اور جیسا کہ اس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں صراحت ہے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو براق پر سوار کرایا۔ وہاں آپ نے انبیاء و رسل کو نماز پڑھائی اور اللہ نے آپ کو بہت سی نشانیاں دکھائیں اور اس رائے کی کوئی حیثیت نہیں کہ سیر آپ کی روح کو کرائی گئی نہ کہ جسم کو۔ اس لیے کہ اگر ایسا ہوتا تو پھر اس میں ایسی کوئی بات ہی نہ ہوتی جو آپ کی نبوت کی دلیل کی موجب ہوتی، نہ آپ کی رسالت پر حجت ہوتی اور نہ مشرکین میں سے وہ لوگ ہوتے جنہوں نے اس حقیقت کا انکار کیا۔
اس لیے کہ خواب ان کے نزدیک قابل انکار ہی نہ ہوتا۔ بلکہ انسانوں میں سے کوئی ایک بھی فطرت صحیحہ کا حامل ایسا نہیں ہے کہ جو اس بات کا انکار کرے کہ ان میں سے کوئی خواب دیکھنے والا خواب میں دیکھے کہ اس نے اتنی لمبی سیر کی جس کی مسافت ایک سال ہے۔ تو پھر اس سیر کا انکار کیسے کیا جا سکتا تھا جس کی مسافت ایک مہینہ یا اس سے بھی کم تھی؟ علاوہ ازیں، اللہ نے اپنی کتاب میں خبر دی ہے: [أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ] ”کہ اس نے اپنے بندے کو سیر کرائی۔“ اس نے یہ نہیں فرمایا: [أَسْرَىٰ بِرُوحِ بِعَبْدِهِ] ”کہ اس نے اپنے بندے کی روح کو سیر کرائی۔ “ اور کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ کے قول سے تجاوز کر کے کسی اور بات کی طرف جائے۔ اللہ کے کلام میں ایسا کوئی قرینہ نہیں ہے جو اس بات پر دلالت کرے کہ اللہ کے فرمان [أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ] سے مراد [أَسْرَىٰ بِرُوحِ عَبْدِهِ] ہے۔ بلکہ واضح دلائل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر روایات اسی بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ نے آپ کو ایک چوپائے پر سیر کرائی جسے براق کہا جاتا ہے۔ اگر یہ سیر روحانی ہوتی تو روح کو براق پر سوار نہ کرایا جاتا، اس لیے کہ جانور جسموں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں نہ کہ روحوں کو۔
تفسير الطبري، سورة بني إسرائيل، ج: 15، ص: 16-17، مطبوعہ دار الفکر بيروت
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اسراء و معراج کی بابت اختلاف ہے کہ یہ واقعہ جسمانی تھا یا روحانی؟ اکثر علماء کا مذہب یہی ہے کہ یہ جسمانی اور عالم بیداری کا واقعہ ہے نہ کہ نیند کا۔ تاہم یہ بعید نہیں کہ اس سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں بھی ایسا دیکھا ہو، پھر اس کے بعد بیداری میں بھی آپ نے دیکھ لیا۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی خواب دیکھتے تھے، وہ سپیدہ صبح کی طرح ظہور پذیر ہو جاتا تھا۔ اور اس کے جسمانی ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ﴾ فرمایا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح صرف اسی وقت کہی جاتی ہے جب بڑے واقعات ہوں۔ اگر یہ خواب ہوتا تو یہ کوئی بڑی چیز ہوتا نہ عظیم واقعہ، نہ کفار قریش اس کی تکذیب میں جلدی کرتے اور نہ کچھ (ضعیف الایمان) مسلمان مرتد ہوتے۔ علاوہ ازیں، [عبد] روح اور جسم کا مجموعہ ہوتا ہے اور اللہ نے ﴿أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا﴾ فرمایا ہے (یعنی عبد ہی کا لفظ استعمال فرمایا ہے) اور اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے: ﴿وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ﴾ اس کی بابت صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ یہ آنکھوں کا مشاہدہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرایا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے: ﴿مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ﴾ ”نہ نگاہ بہکی اور نہ حد سے بڑھی۔“ اور آنکھ جسمانی آلات میں سے ہے نہ کہ روح کے۔ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو براق پر سوار کرایا گیا اور یہ سفید براق چمک دمک والا جانور ہے جو صرف بدن (کی سواری) کے لیے ہوتا ہے نہ کہ روح کی، اس لیے کہ روح تو سوار ہونے کے لیے کسی سواری کی محتاج ہی نہیں۔
تفسیر ابن کثیر ج : 5، ص : 40،41 مکتب الشعب
امام ابن کثیر رحمہ اللہ ایک اور بزرگ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
حافظ ابو الخطاب عمر بن دحیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”التنوير فى مولد السراج المنير“ میں اسراء و معراج کی حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ کے طریق سے بیان کی ہے اور اس پر بہت مفید اور عمدہ گفتگو کی ہے، پھر کہا ہے کہ اسراء کی روایات تواتر سے منقول ہیں اور ان کے حسب ذیل راوی ہیں:
حضرت عمر بن خطاب ، حضرت علی ، ابن مسعود، ابو ذر ، مالک بن صعصعہ ، ابو ہریرہ ، ابو سعید، ابن عباس، شداد بن اوس ، ابی بن کعب ، عبد الرحمن بن قرط، ابو جہم انصاری ، ابو لیلیٰ انصاری، عبد اللہ بن عمرو، جابر، حذیفہ، بریدہ ، ابو ایوب ، ابو امامہ، سمرہ بن جندب ، ابو الحمراء ، صہیب رومی ، ام ہانی ، ابو بکر صدیق کی دو بیٹیاں عائشہ رضی اللہ عنہا اور اسماء رضی اللہ عنہا۔ ان میں سے بعض نے اسے تفصیل سے اور بعض نے اختصار سے بیان کیا ہے جیسا کہ مسانید میں موجود ہے۔ ان میں سے بعض کی روایت اگرچہ صحت کی شرط کو پورا نہیں کرتی لیکن اسراء و معراج کی حدیث ایسی ہے کہ اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اور اس پر ملحد زنادقہ ہی نے اعتراض کیا ہے ﴿يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ﴾
تفسیر ابن کثیر ج : 5، ص : 42
امام قرطبی رحمہ اللہ کی جستہ جستہ عبارتیں حسب ذیل ہیں:
ثبت الإسراء فى جميع مصنفات الحديث، وروي عن الصحابة فى كل أقطار الإسلام فهو من المتواتر بهذا الوجه، وذهب معظم السلف والمسلمين إلى أنه كان إسراء بالجسد وفي اليقظة وأنه ركب البراق بمكة ووصل إلى بيت المقدس وصلى فيه ثم أسري بجسده، وعلى هذا تدل الأخبار التى أشرنا إليها والآية، وليس فى الإسراء بجسده وحال يقظته استحالة ولا يعدل عن الظاهر والحقيقة إلا عند الإستحالة، وفي نصوص الأخبار الثابتة دلالة واضحة على أن الإسراء كان بالبدن، وإذا ورد الخبر بشيء هو مجوز فى العقل فى قدرة الله تعالى فلا طريق إلى الإنكار
اسراء و معراج کا واقعہ احادیث کی تمام مصنفات میں موجود اور ثابت ہے اور اسلامی علاقوں میں پھیلے ہوئے صحابہ سے مروی ہے۔ اس لحاظ سے اسے تواتر کا درجہ حاصل ہے۔ اور سلف اور مسلمانوں کی اکثریت یہی رائے رکھتی ہے کہ یہ واقعہ جسمانی اور بیداری کا ہے۔ آپ مکہ سے براق پر سوار ہوئے اور بیت المقدس پہنچے اور وہاں آپ نے نماز پڑھی اور وہاں سے آپ کو روح اور بدن سمیت آسمانوں کی سیر کرائی گئی۔ اسی بات پر وہ احادیث دلالت کرتی ہیں جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے اور قرآن کریم کی آیت بھی۔ اور اس واقعے کا جسمانی اور بیداری میں ہونا، عقلاً ناممکن نہیں ہے۔ اور ظاہر اور حقیقت سے تاویل کی طرف پھیرنا اسی وقت ضروری ہوتا ہے جب وہ عقلاً ناممکن ہو اور ثابت شدہ احادیث اس بات پر واضح دلالت کرتی ہیں کہ یہ واقعہ جسمانی تھا اور جب حدیث کسی ایسی چیز کی بابت وارد ہو جو عقلًا اللہ کی قدرت میں جائز ہو تو اس کے انکار کا کوئی جواز نہیں ہے۔
تفسير القرطبي: 10/205, 208-209

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے