حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کا واقعہ – تحقیق اور درست حقیقت
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 118

سوال

ایک مولوی صاحب خطبے میں بیان کر رہے تھے کہ ایک بت کے قریب لوگ جمع تھے، حضرت عمرؓ بھی وہاں پہنچے۔ جب حضرت عمرؓ وہاں پہنچے تو اس بت نے کلمہ پڑھا اور حضرت عمرؓ اسی وقت مسلمان ہو گئے۔ اس واقعے کے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کی جائے۔

اس کے ساتھ ہی سوال میں ذکر کیا گیا ہے کہ علاقہ کی دیگر مساجد مثلاً بریلوی، دیوبندی وغیرہ کے لوگ اس طرح کے واقعات سن کر ان کی تشہیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اہل حدیث کے پلیٹ فارم سے بھی ایسی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسے مولوی صاحب کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حضرت عمر فاروقؓ کے ایمان لانے کے بارے میں جو واقعہ سوال میں بیان کیا گیا ہے، یعنی ایک بت کے کلمہ پڑھنے اور حضرت عمرؓ کے اسی وقت ایمان لانے کا ذکر، یہ واقعہ میرے علم میں نہیں آیا۔

میری معلومات اور تاریخی روایات کے مطابق، حضرت عمرؓ کا اسلام قبول کرنا رسول اللہ ﷺ کی دعا کا نتیجہ تھا، جیسا کہ معتبر تاریخی کتب میں بیان ہوا ہے۔

نبی کریم ﷺ کی دعا:

نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی:

اللهم اعز الاسلام بعمر بن هشام او بعمر بن خطاب

یعنی:
"اے اللہ! اسلام کو عمر بن ہشام (یعنی ابو جہل) یا عمر بن خطاب کے ذریعے عزت عطا فرما۔”

یہی دعا "تاریخ الخلفاء” از امام سیوطی رحمہ اللہ میں بھی مذکور ہے، لیکن وہاں صرف حضرت عمر بن خطابؓ کا نام آیا ہے، اور الفاظ یہ ہیں:

اللهم اعز الاسلام بعمر بن خطاب خاصة او كما قال

یعنی:
"اے اللہ! صرف عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔”

ان روایات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت عمرؓ کا اسلام لانا رسول اللہ ﷺ کی مخصوص دعا کا اثر تھا، نہ کہ کسی بت کے کلمہ پڑھنے کے نتیجے میں جیسا کہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے۔

لہٰذا، مولوی صاحب کا خطبہ میں بیان کردہ واقعہ صحیح معلوم نہیں ہوتا۔

ایسے مولوی صاحبان کے بارے میں رائے:

ایسے مولوی صاحبان جو بغیر تحقیق کے یا بغیر مستند دلائل کے اس طرح کے قصے اور واقعات بیان کرتے ہیں، ان کے بیانات نہ صرف عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں بلکہ اہل حدیث کے منہج کو بھی مشکوک بناتے ہیں۔ ان کی ان باتوں سے فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہے اور دیگر مکاتب فکر کے لوگ اہل حدیث کے بارے میں منفی باتیں پھیلاتے ہیں۔

ایسے مواقع پر ضروری ہے کہ علما کرام انتہائی احتیاط سے کام لیں اور صرف وہی باتیں منبر و محراب سے بیان کریں جو قرآن و سنت یا مستند تاریخی روایات سے ثابت ہوں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے