مختلف مالی اور اخلاقی سوالات کے شرعی جوابات
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) زید کے والد کی تنخواہ میں کوتاہی، زائد انکریمنٹ اور زید کے لیے مالی فائدہ
◈ دفتری اوقات کی پابندی نہ کرنا: اگر زید کے والد اپنے دفتری اوقات کا تقریباً 40 فیصد ذاتی کاموں میں خرچ کرتے ہیں، تو یہ شرعی طور پر ان کی ذمہ داریوں میں کوتاہی ہے۔
◈ زائد انکریمنٹ: اگر ماضی میں ایک کلرک کی غلطی سے زید کے والد کی تنخواہ میں ایک اضافی انکریمنٹ شامل ہو گئی اور وہ اب بھی ہر ماہ 400 سے 500 روپے زائد لے رہے ہیں، تو یہ معاملہ بھی غیر واضح کمائی میں آتا ہے۔
◈ زید کے لیے اس مال کا حکم:
✿ اگر تنخواہ دینے والے افسران کو ان کوتاہیوں اور انکریمنٹ کی غلطی کا علم ہو اور وہ بلا رشوت اور سازباز کے پوری تنخواہ دے رہے ہوں، تو یہ تنخواہ زید کے والد کے لیے حلال ہے۔
✿ اگر علم نہ ہو اور انہوں نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی ہو تو چالیس فیصد حصہ حرام ہوگا اور باقی حلال۔
✿ لہٰذا، زید جو بالغ ہے اور اپنے اخراجات کے لیے اپنے والد سے ماہانہ 1000 روپے لیتا ہے، اس کے لیے یہ رقم تبھی حلال ہوگی جب والد کی تنخواہ مکمل طور پر حلال ہو، ورنہ جو حصہ والد کی حرام آمدنی سے ہو، وہ زید کے لیے بھی حرام ہوگا۔
✿ والد کے گھر سے کھانا پینا اور کپڑے پہننا: اگر والد کی آمدنی میں حلال کا غلبہ ہو تو گھر کا خرچ استعمال کرنا جائز ہے، بصورت دیگر اس میں احتیاط لازم ہے۔
(2) بکر کے بھائی کی بیرون ملک ملازمت اور اس سے حاصل شدہ آمدنی
◈ غلط بیانی:
✿ بکر کے بھائی نے پاکستان سے جاتے وقت یہ جھوٹ بولا کہ وہ تعلیم کے لیے جا رہا ہے تاکہ ملازمت سے چھٹی لے سکے۔
✿ اسی طرح، اس نے دوسرے ملک کے ایئرپورٹ پر بھی جھوٹ بولا کہ وہ سیاحت کے لیے آیا ہے۔
◈ موجودہ صورتحال: اب وہ وہاں ایک ہسپتال میں بطور ڈاکٹر کام کر رہا ہے اور گمان یہی ہے کہ اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا رہا ہے۔
◈ اس کی کمائی کا حکم:
✿ اگرچہ اس نے ابتداء میں جھوٹ بولا تھا، لیکن یہ جھوٹ اپنی جگہ جرم ہے جس سے وہ توبہ کرے۔
✿ تاہم، اگر موجودہ ملازمت حلال طریقے سے حاصل کی گئی ہو اور اس میں کوئی حرام پہلو شامل نہ ہو، تو اس سے حاصل شدہ تنخواہ شرعاً حلال ہے۔
✿ لہٰذا، بکر اور اس کے والدین کے لیے بھیجی گئی رقم ان کے لیے حلال ہے۔
(3) بنک میں غیر سودی اکاؤنٹ رکھنے کا حکم
◈ اگرچہ اکاؤنٹ سودی نہ ہو، تاہم بنک ایک سودی ادارہ ہے اور اس میں اکاؤنٹ رکھنا شرعاً جائز نہیں۔
◈ قرآنی دلیل:
﴿وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾
✿ یعنی "گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔”
◈ لہٰذا، گھر میں رقم رکھنے سے چوری کا خاص خطرہ نہ ہو تو بنک میں رکھوانا تعاون علی الاثم کے زمرے میں آتا ہے۔
(4) بیرون ملک سے بنک کے ذریعے رقم بھیجنا
◈ اگر زید بیرون ملک سے بکر کے بنک اکاؤنٹ میں رقم بھیجتا ہے اور زید کی کمائی حلال ہے تو:
✿ رقم بکر کے لیے حلال ہے۔
✿ تاہم، بکر کا بنک میں اکاؤنٹ رکھنا شرعاً ناجائز ہے، جس پر وہ گناہگار ہو گا۔
(5) حلال اور حرام کمائی کا اختلاط
◈ اگر زید کے پاس کچھ حلال مال تھا اور اس میں کچھ حرام کمائی ملا دی گئی، تو اب دونوں مال آپس میں مل چکے ہیں۔
◈ حل:
✿ جتنے روپے حرام کمائی کے تھے، ان کو الگ کر کے واپس اصل مالک کو دے دیا جائے یا کسی جائز مصرف میں صرف کیا جائے۔
✿ اس طرح حلال اور حرام میں تفریق ممکن ہے۔
(6) بنک اکاؤنٹ میں حلال اور حرام مال کا اختلاط
◈ اگر زید کے بنک اکاؤنٹ میں پہلے سے 500 روپے حرام کمائی کے موجود تھے اور بعد میں بکر نے اس کے اکاؤنٹ میں بیرون ملک سے کچھ حلال کمائی کے پیسے بھیجے:
✿ اب زید یہ نیت کر کے پیسے نکالتا ہے کہ وہ صرف حلال کمائی والے پیسے نکال رہا ہے۔
◈ حکم:
✿ زید دوہرا گناہ کر رہا ہے:
❀ ایک تو حرام کمائی کا ارتکاب۔
❀ دوسرا بنک اکاؤنٹ رکھ کر گناہ میں اضافہ۔
✿ تاہم، بکر کی طرف سے بھیجے گئے حلال پیسے حلال ہی رہیں گے، بشرطیکہ نیت کے ساتھ ان کو الگ نکالا جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب