شرعی حکم: جائیداد کی دلالی پر فیس لینا جائز ہے؟
ماخوذ: احکام و مسائل، خرید و فروخت کے مسائل، جلد 1، صفحہ 373

سوال:

جائیداد کی خرید و فروخت کے معاملے میں ایک تیسرا شخص جو بطور دلال (سودا کروانے والا) کام کرتا ہے، اگر وہ خریدار (مشتری) یا فروخت کنندہ (بائع) یا دونوں سے فیس کے طور پر کچھ رقم وصول کرے، تو کیا شرعی طور پر یہ جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ آج کل اکثر لوگ یہ کام کرتے ہیں اور بہت سے افراد نے اس مسئلے کے متعلق دریافت کیا ہے۔

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد موجود ہے:

«لَا يَبِعْ حَاضِرٌ لِّبَادٍ»
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
’’شہری آدمی بدوی (دیہاتی) کے لیے بیع نہ کرے۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شہری شخص دیہاتی کے مال کی، دیہاتی کی طرف سے خرید و فروخت نہیں کر سکتا۔

جائز اور ناجائز صورتیں:

اس کے علاوہ درج ذیل تین صورتیں درست ہیں اور ان میں کوئی شرعی قباحت نہیں:

حضری (شہری) شخص حضری کے مال کی بیع کرے۔
بدوی (دیہاتی) شخص بدوی کے مال کی بیع کرے۔
بدوی شخص حضری کے مال کی بیع کرے۔

یہ تمام صورتیں شرعاً جائز ہیں۔ یہاں یہ بات جان لینا ضروری ہے کہ قروی (دیہاتی قصبائی) بھی حضری میں شامل ہے۔

دلال کا غلط طریقہ اور اس کا شرعی حکم:

اگر دلال (سودا کروانے والا) خریدار سے فروخت کنندہ کی چیز کے لیے زیادہ پیسے وصول کرے اور فروخت کنندہ کو کم دے، یا اس معاملے میں دلال کسی ایک فریق یا دونوں کو دھوکہ دے، تو یہ عمل شرعاً سخت ممنوع اور ناجائز ہے۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

«مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا»
(مشکاة، کتاب القصاص، باب ما لا یضمن من الجنايات، فصل اول)
’’جس نے ہمیں دھوکہ دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘

دیگر غیر شرعی امور کا اثر:

اگر دلالی کی اجرت کے علاوہ بیع یا سودا کسی اور شرعی خرابی پر مشتمل ہو، جیسے:

سود پر مبنی لین دین
بیع منہی عنہ (ایسی بیع جس سے منع کیا گیا ہو)

تو ایسی صورت میں:

◈ نہ تو وہ بیع جائز ہوگی،
◈ نہ دلالی درست ہوگی،
◈ اور نہ ہی دلالی کی اجرت حلال ہوگی۔

دعا:

اللہ تعالیٰ ہمیں حلال رزق کمانے کی توفیق اور استطاعت عطا فرمائے،
ہمیں معاشی تنگی سے نجات دے،
اور ہمارے ملک میں صرف نیک مؤمنین کی حکمرانی قائم فرمائے۔
تمام احباب و اخوان کو میری طرف سے خلوصِ دل کے ساتھ سلام عرض ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے