کیا نبی کریم ﷺ کا سایہ تھا؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں دلائل
ماخوذ: فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 124

نبی کریم ﷺ کے سایہ کے وجود پر قرآنی و حدیثی دلائل

سوال:

محترم جناب محمد عبید اللہ خان عفیف …. السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ …… خیریت مطلوب۔

بھائی صاحب! کچھ دن پہلے ایک صاحب جو حنفی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں، اُن سے میری بحث ہوئی کہ نبی کریم ﷺ کا سایہ تھا یا نہیں۔ اُس بریلوی مکتب فکر کے شخص کا کہنا تھا کہ نبی مکرم ﷺ کا سایہ نہیں تھا۔ ہم نے بڑی کوشش کی کہ نبی اکرم ﷺ کے سایہ کے ثبوت میں کوئی مضبوط دلیل تلاش کریں لیکن ناکام رہے۔ گزارش ہے کہ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں نبی کریم ﷺ کے سایہ کا ثبوت فراہم فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور آپ سے دین اسلام کی زیادہ سے زیادہ خدمت لے، آمین۔

اخوکم فی اللہ: عبد الباسط عبدالستار
مدرسہ جامعہ کمالیہ، راجو وال ضلع اوکاڑہ

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ ﷺ، باوجود اپنی اعلیٰ شان، جلالت قدر، امامت الانبیاء اور ختم نبوت کے، اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی اور بشر تھے۔ آپ ﷺ:

◈ ابو لہب جیسے مشرک کے بھتیجے،

◈ عبدالمطلب کے پوتے،

◈ خدیجہ اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے شوہر،

◈ زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے والد محترم تھے۔

یعنی ہر پہلو سے آپ ﷺ خیر البشر اور انسان کامل تھے۔ اور چونکہ آپ ﷺ انسان تھے، اس لئے یہ بات بالکل واضح ہے کہ انسان کا سایہ ہوتا ہے۔

قرآن مجید کی روشنی میں:

سورۃ النحل، آیت 48:
﴿أَوَلَم يَرَوا إِلى ما خَلَقَ اللَّهُ مِن شَىءٍ يَتَفَيَّؤُا۟ ظِلـلُهُ عَنِ اليَمينِ وَالشَّمائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُم داخِرونَ ﴾

… سورة النحل: 48
"کیا انہوں نے اللہ کی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیکھا؟ کہ اس کے سائے دائیں اور بائیں جھک کر اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور عاجزی اختیار کرتے ہیں۔”

سورۃ الرعد، آیت 15:
﴿وَلِلَّهِ يَسجُدُ مَن فِى السَّمـوتِ وَالأَرضِ طَوعًا وَكَرهًا وَظِلـلُهُم بِالغُدُوِّ وَالءاصالِ ﴾
… سورة الرعد: 15
"اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کی سب مخلوق خوشی یا نا خوشی سے سجدہ کرتی ہے اور ان کے سائے بھی صبح و شام۔”

نتیجہ:
ان آیات سے ثابت ہوا کہ:

◈ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات کا سایہ ہے۔

◈ نبی کریم ﷺ چونکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں شامل ہیں، لہٰذا آپ ﷺ کا بھی سایہ تھا۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں:

1. حدیث حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ:

رسول اللہ ﷺ نے ایک رات ہمیں نماز پڑھائی۔ نماز کے دوران آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور فوراً واپس کھینچ لیا۔ ہم نے بعد از نماز وجہ دریافت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

"میرے سامنے جنت لائی گئی، میں نے اس میں اچھے پھل دیکھے، تو چاہا کہ ایک گچھا توڑ لوں۔ لیکن مجھے منع کیا گیا تو میں پیچھے ہٹ گیا۔ پھر مجھے جہنم دکھائی گئی، حتى رأيت ظلى وظلكم، میں نے اپنے اور تمہارے سائے کو دیکھا، تب میں نے اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔”

(المستدرک للحاکم، ج4، ص456)

حافظ ذہبیؒ نے اس حدیث کے متعلق فرمایا:
ھذا حدیث صحیح – "یہ حدیث صحیح ہے۔”

وضاحت:
یہ حدیث واضح طور پر نبی کریم ﷺ کے سایہ کی موجودگی کی دلیل ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا:
"رأيت ظلي وظلكم” – "میں نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا”۔

2. حدیث حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا:

سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سواری بہک گئی۔ سیدہ زینب کے پاس اضافی اونٹ تھا۔ نبی کریم ﷺ نے سیدہ زینب سے فرمایا:
"افقرى اختك صفية جملك” – "اپنا اونٹ صفیہ کو دے دو۔”

سیدہ زینب نے جواب دیا:
"میں یہودی عورت کو اپنا اونٹ کیوں دوں؟”

اس بات پر نبی کریم ﷺ ناراض ہو گئے اور تین ماہ تک ان کے گھر نہ گئے۔

سیدہ زینب فرماتی ہیں:
"فلما كان شهر ربيع الأول دخل عليها فرأت ظله فقالت: إن هذا لظل رجل وما يدخل علي النبي – صلى الله عليه وسلم – فمن هذا؟ دخل النبي صلى الله عليه وسلم.”

(مجمع الزوائد، ج4، ص324)

تشریح:
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے سب سے پہلے نبی کریم ﷺ کا "سایہ” دیکھا اور پہچانا کہ یہ انسانی سایہ ہے۔ یہ حدیث بھی واضح طور پر نبی کریم ﷺ کے سایہ کی موجودگی کا ثبوت ہے۔

حافظ بیہقیؒ فرماتے ہیں:
"رواه احمد وفيه سمية روى لها ابو داؤد وغيره ولم يضعفها احد وبقية رجاله ثقات”
(مجمع الزوائد، ج4، ص324)

نوری مخلوق اور سایہ:

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ نبی کریم ﷺ "نور” ہیں، اس لیے نور کا سایہ نہیں ہوتا۔ مگر یہ بات بھی ایک مفروضہ سے زیادہ کچھ نہیں، کیونکہ فرشتے بھی نوری مخلوق ہیں اور اُن کا سایہ ثابت ہے۔

حدیث صحیح بخاری:

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ اُحد میں شہید ہو گئے۔ ان کے اہلِ خانہ ان پر رونے لگے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"مازالت الملائكة تظله باجنحتها حتى دفعتموها”
(صحیح بخاری، کتاب الجنائز)

ترجمہ: "جب تک تم لوگوں نے اسے (لاش) اٹھایا نہیں، اس وقت تک فرشتے اپنے پروں سے اس پر سایہ کرتے رہے۔”

نتیجہ:

◈ فرشتے نوری مخلوق ہیں۔

◈ ان کا سایہ ہوتا ہے، جو صحیح حدیث سے ثابت ہے۔

◈ لہٰذا نبی کریم ﷺ کے "نور ہونے” کی بنیاد پر "سایہ نہ ہونے” کا عقیدہ درست نہیں۔

نتیجہ:

قرآن کریم اور صحیح احادیث کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ:

◈ نبی کریم ﷺ ایک انسان تھے اور تمام انسانوں کی طرح ان کا سایہ بھی تھا۔

◈ قرآن کریم کی آیات سے تمام مخلوقات کا سایہ ثابت ہے۔

◈ متعدد صحیح احادیث میں نبی کریم ﷺ کے سایہ کا ذکر موجود ہے۔

◈ نوری مخلوقات جیسے فرشتوں کا بھی سایہ ہوتا ہے۔

لہٰذا نبی کریم ﷺ کے سایہ کا انکار قرآن و سنت کی واضح تعلیمات کا انکار ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حق پر قائم رہنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے