سوال کا پس منظر
لڑکا اور لڑکی دونوں مسلمان ہیں اور ان کے خاندان بھی مسلمان ہیں، لیکن لڑکی کا والد قادیانی ہے۔ ان دونوں کا نکاح طے پا چکا ہے، مگر لڑکی کے قادیانی والد نے شرط رکھی ہے کہ نکاح ان کے قادیانی نمائندے سے ربوہ سے آ کر پڑھوایا جائے گا اور لڑکے کو ان کا ایک فارم بھی پر کرنا ہوگا۔ لڑکے اور اس کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ وقتی طور پر یہ فارم بھرنے اور نکاح پڑھوانے پر رضامند ہو جاتے ہیں، مگر بعد میں واپس آ کر اسلامی طریقے سے دوبارہ نکاح کریں گے۔ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ لڑکی قادیانیوں کے چنگل میں نہ پھنس جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا لڑکے کے لیے یہ اقدام شرعی طور پر جائز ہے؟
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
سوال کے مطابق، لڑکا اور لڑکی دونوں مسلمان ہیں اور عقیدۂ ختمِ نبوت پر مضبوط ایمان رکھتے ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ وہ قادیانیوں کی تمام جماعتوں (قادیانی، لاہوری اور ربوی) کو کافر سمجھتے ہیں۔ وہ محض اس لیے وقتی طور پر لڑکی کے قادیانی والد کی شرط ماننے پر آمادہ ہیں تاکہ ایک مسلمان لڑکی کو قادیانی کافروں کے شکنجے سے بچایا جا سکے۔ اس مجبوری کے تحت یہ اقدام وقتی طور پر گنجائش رکھتا ہے۔
قرآن مجید کی دلیل
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿مَن كَفَرَ بِاللَّـهِ مِن بَعدِ إيمـنِهِ إِلّا مَن أُكرِهَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمـنِ وَلـكِن مَن شَرَحَ بِالكُفرِ صَدرًا فَعَلَيهِم غَضَبٌ مِنَ اللَّـهِ وَلَهُم عَذابٌ عَظيمٌ ﴿١٠٦﴾ … سورة النحل
ترجمہ:
"جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کرے، سوائے اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر قائم ہو، لیکن جو لوگ دل سے کفر کو قبول کریں ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔”
تفاسیر سے وضاحت
امام ابن کثیر:
"ولهذا إتفق العلماء على أن المكره على الكفر يجوز له أن يوالى إبقاء لمهجته.”
(تفسير ابن كثير : ج2، ص 606)
یعنی:
علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ جس کو کفر پر مجبور کیا جائے، تو وہ اپنی جان بچانے کے لیے وقتی طور پر کفار سے تعلق یا دوستی اختیار کر سکتا ہے۔
امام قرطبی:
امام قرطبی لکھتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جسے کفر پر مجبور کیا جائے، اگر وہ جان بچانے کے لیے زبان یا عمل سے کفر کا اظہار کرے لیکن دل سے ایمان پر قائم رہے، تو نہ وہ کافر ہوگا، نہ اس کی بیوی اس سے جدا ہوگی، اور نہ ہی اس پر کفر کے دیگر احکام لاگو ہوں گے۔
(کتاب احسن البیان، ص 364)
احتیاط کی ہدایت
یہ ہرگز نہیں کہا جا رہا کہ جان بچانے کے لیے کلمۂ کفر کہہ دینا چاہیے، بلکہ یہ صرف ایک شرعی رخصت ہے۔ اگر کوئی شخص ایمان دل میں رکھتے ہوئے مجبوری کے تحت ایسا کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر گرفت نہیں کرے گا۔ ورنہ بہتر یہی ہے کہ انسان ہر حال میں حق کا اعلان کرتا رہے، جیسا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے سخت ترین مظالم کے باوجود کلمۂ حق نہیں چھوڑا۔
شرعی رہنمائی
◈ اس صورت میں لڑکی کو قادیانیوں سے بچانے کے لیے وقتی طور پر قادیانی نمائندے سے نکاح پڑھوانا اور فارم پر دستخط کر دینا مجبوری کے تحت جائز ہے۔
◈ بعد ازاں اسلامی طریقے سے شرعی نکاح دوبارہ پڑھانا لازم ہے۔
◈ چونکہ قادیانی کافر ہے، اس لیے وہ شرعاً مسلمان بیٹی کا ولی نہیں ہو سکتا۔
◈ شرعی نکاح کے لیے کسی مسلمان رشتہ دار مرد کو ولی مقرر کر کے نکاح دوبارہ پڑھوانا ضروری ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب