سوال کا پس منظر
ایک نابینا شخص، جو تقریباً ۴۵ سال کا ہے، نے اپنی بیوی پر لگے زنا کے الزام کے بعد غصے کی حالت میں بیک وقت تین طلاقیں دی، یوں کہ "تجھے طلاق، طلاق، طلاق” کہا۔ بعد میں اس نے باقاعدہ طور پر کوئی اور طلاق نہیں دی اور وہ سمجھتا رہا کہ تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔ اس واقعے کو تین ماہ گزر چکے ہیں۔ اب وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ:
- اگر طلاق غصے کی حالت میں دی گئی ہو، تو کیا طلاق بائن (ناقابلِ رجوع) واقع ہو گئی ہے؟
- اگر زنا کا الزام سچ ہو تو کیا حکم ہوگا؟
- اگر الزام جھوٹا ہو تو کیا حکم ہوگا؟
- کیا مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں؟
- تین ماہ گزرنے کے بعد کیا حکم ہوگا؟
- اگر طلاق بائن واقع ہو گئی ہو تو دوبارہ اکٹھ ہونے کا طریقہ کیا ہے؟
- اگر طلاق بائن واقع نہیں ہوئی تو رجوع کی صورت کیا ہوگی؟
- رجوع کے بعد کیا ولیمہ کی تقریب ضروری ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مخصوص صورت میں ایک رجعی طلاق واقع ہو چکی ہے۔ اس کے احکام درج ذیل ہیں:
1. طلاق غصے کی حالت میں
◈ اگر شوہر نے طلاق غصے کی حالت میں دی، تو وہ واقع ہو جاتی ہے، بشرطیکہ وہ اس وقت ہوش و حواس میں ہو۔
2. زنا کا الزام سچا ہو
◈ اگر زنا کا الزام درست ہو، تو تب بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اس سے طلاق کے وقوع پر فرق نہیں پڑتا، کیونکہ طلاق کا تعلق شوہر کی نیت اور الفاظ سے ہوتا ہے۔
3. زنا کا الزام جھوٹا ہو
◈ اگر الزام جھوٹا ہو تب بھی طلاق واقع ہو جائے گی، کیونکہ شوہر نے طلاق کے الفاظ استعمال کیے اور ان کے استعمال سے طلاق ہو جاتی ہے۔
4. بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کا حکم
صحیح مسلم کی حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:
رسول اللہﷺ، ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سال میں تین طلاقیں ایک طلاق شمار کی جاتی تھیں۔
یعنی بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کو ایک طلاق تصور کیا جائے گا۔
5. تین ماہ گزرنے کے بعد کیا حکم ہوگا؟
◈ اگر تین ماہ کی عدت گزر چکی ہے اور رجوع نہ کیا گیا، تو رجعی طلاق بائن میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اب رجوع کا طریقہ صرف نئے نکاح کے ذریعے ممکن ہوگا۔
6. طلاق بائن کی صورت میں دوبارہ اکٹھ ہونے کا طریقہ
◈ چونکہ طلاق بائن ہو چکی ہے، اس لیے دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوگا۔ شوہر اور بیوی اگر دوبارہ راضی ہوں، تو شریعت انہیں نکاح کی اجازت دیتی ہے۔
﴿وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنۡ أَرَادُوٓاْ إِصۡلَٰحٗاۚ﴾
"اور خاوند ان کے بہت حقدار ہیں ساتھ پھیر لینے ان کے بیچ اس کے اگر چاہیں صلح کرنا”
(البقرة: 228)
7. اگر طلاق بائن واقع نہ ہوئی ہو تو رجوع کا طریقہ
◈ اگر عدت کے اندر رجوع کر لیا گیا ہو، تو رجوع بلا تجدید نکاح ہو سکتا ہے۔ اور اگر عدت گزر گئی ہو تو رجوع کا طریقہ صرف نیا نکاح ہے۔
مزید قرآن مجید میں فرمایا:
﴿وَإِذَا طَلَّقۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحۡنَ أَزۡوَٰجَهُنَّ إِذَا تَرَٰضَوۡاْ بَيۡنَهُم بِٱلۡمَعۡرُوفِۗ﴾
"اور جب طلاق دو تم عورتوں کو، پس پہنچیں عدت اپنی کو، پس مت منع کرو ان کو یہ کہ نکاح کریں خاوندوں اپنے سے، جب راضی ہوں آپس میں ساتھ اچھی طرح کے”
(البقرة: 232)
8. رجوع کے بعد ولیمہ کی تقریب
◈ اگر رجوع عدت کے اندر ہوا ہے تو نکاح کی تجدید کی ضرورت نہیں، لہٰذا ولیمہ بھی ضروری نہیں۔
◈ لیکن اگر عدت گزرنے کے بعد نیا نکاح کیا جائے تو وہ نیا نکاح شمار ہوگا، اور اس پر ولیمہ کرنا سنت ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب