تین طلاق ایک وقت میں: رجوع کا حکم اور طریقہ کار
ماخوذ: احکام و مسائل، طلاق کے مسائل، جلد 1، صفحہ 345

سوال

غلام حیدر نے اپنی بیوی کو بذریعہ اشٹام مورخہ ۴۔۳۔۹۲ کو ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے دیں۔ اب یہ دریافت کیا گیا ہے کہ کیا غلام حیدر اپنی مطلقہ بیوی سے دوبارہ رجوع کر سکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر رجوع ممکن ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہو گا، جب کہ اس کی بیوی نے ابھی تک دوسرا نکاح نہیں کیا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ غلام حیدر نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دی ہیں۔ ایسی حالت میں:

اگر رجوع عدت کے اندر کرنا ہو تو بغیر نئے نکاح کے رجوع جائز ہے۔

اور اگر عدت گزر چکی ہو تو نئے نکاح کے ساتھ رجوع ممکن ہے۔

وجہ

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک وقت میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کیا جاتا ہے۔

دلائل

صحیح مسلم کی روایت

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:

"رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تین طلاقیں ایک طلاق ہوا کرتی تھیں۔”
(صحیح مسلم)

قرآن مجید سے دلائل

سورہ بقرہ، آیت 228:
﴿وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنۡ أَرَادُوٓاْ إِصۡلَٰحٗاۚ﴾
*’’اور خاوند ان کے زیادہ حق دار ہیں واپس لینے کے اس دوران اگر وہ اصلاح چاہتے ہوں۔‘‘*

 

سورہ بقرہ، آیت 232:
﴿وَإِذَا طَلَّقۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحۡنَ أَزۡوَٰجَهُنَّ إِذَا تَرَٰضَوۡاْ بَيۡنَهُم بِٱلۡمَعۡرُوفِۗ﴾
*’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں نہ روکو کہ وہ نکاح کریں اپنے شوہروں سے جب کہ وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہو جائیں۔‘‘*

نتیجہ

❀ چونکہ تینوں طلاقیں ایک وقت میں دی گئی ہیں، لہٰذا وہ ایک طلاق شمار ہوں گی۔

❀ اس بنیاد پر غلام حیدر کو رجوع کا حق حاصل ہے۔

اگر عدت باقی ہے تو بغیر نکاح کے رجوع کر سکتا ہے۔

اگر عدت ختم ہو چکی ہے تو نکاحِ جدید کے ذریعہ رجوع ممکن ہے۔

❀ چونکہ بیوی نے ابھی تک دوسرا نکاح نہیں کیا، لہٰذا رجوع میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے