مسئلہ رجوع: قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت
سوال:
ایک شخص نے مورخہ 22-01-1991 کو اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں۔ اب وہ اپنی بیوی سے رجوع کرنا چاہتا ہے، جبکہ اس کی بیوی تب سے اپنے والدین کے گھر رہ رہی ہے۔ مذکورہ صورت حال کے پیش نظر قرآن و سنت کی روشنی میں مسئلہ رجوع واضح کریں۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کی بیان کردہ صورتِ حال میں شرعی حکم یہ ہے کہ ایک طلاق واقع ہو چکی ہے، کیونکہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں دراصل ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہیں۔
دلیل از حدیث:
صحیح مسلم جلد اول صفحہ 477 میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
«عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : كَانَ الطَّلَاقُ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اﷲِﷺ، وَأَبِیْ بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةٌ»
یعنی:
"تین طلاقیں رسول اللہﷺ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ایک طلاق شمار کی جاتی تھیں۔”
رجوع کا طریقہ:
➊ اگر عدت ختم نہ ہوئی ہو:
اگر طلاق کے بعد عدت کا وقت باقی ہو تو بغیر نکاح کے رجوع جائز ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنۡ أَرَادُوٓاْ إِصۡلَٰحٗاۚ﴾ (البقرة: 228)
"اور ان کے شوہر ان کو لوٹا لینے کے زیادہ حق دار ہیں اگر وہ اصلاح چاہتے ہوں۔”
➋ اگر عدت گزر چکی ہو:
اگر عدت کی مدت گزر گئی ہو تو رجوع کی صورت صرف نکاحِ جدید سے ممکن ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا:
﴿وَإِذَا طَلَّقۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحۡنَ أَزۡوَٰجَهُنَّ إِذَا تَرَٰضَوۡاْ بَيۡنَهُم بِٱلۡمَعۡرُوفِۗ﴾ (البقرة: 232)
"اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ معروف طریقے سے باہم راضی ہوں۔”
مسئلہ کی روشنی میں موجودہ صورتحال:
◈ طلاق 1991 میں دی گئی تھی اور اب 1999 کا سال ہے۔
◈ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عدت کی مدت گزر چکی ہے۔
لہٰذا اب میاں بیوی باہمی رضامندی سے اور شرائطِ نکاح کی مکمل پابندی کے ساتھ نیا نکاح کر سکتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب