بدعت کیا ہے؟
① علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ ( 855 ھ) فرماتے ہیں:
هي ما لم يكن له أصل فى الكتاب والسنة وقيل: إظهار شيء لم يكن فى عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا فى زمن الصحابة رضي الله عنهم.
”دین میں بدعت ہر اس نئے کام کو کہتے ہیں جس کی اصل کتاب و سنت میں نہ ہو، یا وہ عمل جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں نہ پایا گیا ہو۔“
(عمدۃ القاري: 37/25)
② علامہ شاطبی رحمہ اللہ (790ھ) فرماتے ہیں:
طريقة فى الدين مخترعة تضاهي الشريعة يقصد بالسلوك عليها المبالغة فى التعبد لله سبحانه.
”شریعت کی مشابہت میں نکالا گیا وہ طریقہ جس کا مقصود عبادت میں مبالغہ ہو، بدعت کہلاتا ہے۔“
(الاعتصام: 30/1)
③ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728 ھ) فرماتے ہیں:
إن البدعة هي الدين الذى لم يأمر به الله ورسوله، فمن دان دينا لم يأمر به الله ورسوله فهو مبتدع بذلك، وهذا معنى قوله تعالى: ﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ﴾
”بدعت وہ دین ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم نہیں دیا اور جس کا حکم شریعت میں نہ ہو اس پر عمل کرنے والا بدعتی ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا یہی معنی ہے:﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنْ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللهُ ﴾ ”کیا انہوں نے اللہ کے شریک بنارکھے ہیں؟ جنہوں نے ان چیزوں کو دین بنا دیا ہے، جن کی اللہ نے اجازت نہیں دی۔“
(الاستقامة: 5/1)
❀ نیز فرماتے ہیں:
إن البدعة ما لم يشرعه الله من الدين فكل من دان الشيء لم يشرعه الله فذلك بدعة وإن كان متأولا فيه.
”بدعت وہ طریقہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مقرر نہیں کیا۔ ہر وہ عمل بدعت ہے جسے اللہ نے مشروع نہ کیا ہو، بھلے وہ تاویل کی بنا پر اختیار کیا گیا ہو۔“
(الاستقامة: 42/1)
④ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ (م : 795ھ) فرماتے ہیں:
المراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له فى الشريعة يدل عليه وأما ما كان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا وإن كان بدعة لغة.
”بدعت سے مراد وہ چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل و دلیل نہ ہو۔ ہاں ! جس کی شریعت میں اصل و دلیل موجود ہو، وہ شرعی بدعت نہیں، اگرچہ لغوی اعتبار سے بدعت ہو۔“
(جامع العلوم والحكم: 193)
❀ نیز فرماتے ہیں:
من تقرب إلى الله بعمل لم يجعله الله ورسوله قربة إلى الله، فعمله باطل مردود عليه، وهو شبيه بحال الذين كانت صلاتهم عند البيت مكاء وتصدية، وهذا كمن تقرب إلى الله تعالى بسماع الملاهي، أو بالرقص، أو بكشف الرأس فى غير الإحرام، وما أشبه ذلك من المحدثات التى لم يشرع الله ورسوله التقرب بها بالكلية، وليس ما كان قربة فى عبادة يكون قربة فى غيرها مطلقا، فقد رأى النبى صلى الله عليه وسلم رجلا قائما فى الشمس، فسأل عنه، فقيل: إنه نذر أن يقوم ولا يقعد ولا يستظل وأن يصوم، فأمره النبى صلى الله عليه وسلم أن يقعد ويستظل، وأن يتم صومه، فلم يجعل قيامه وبروزه للشمس قربة يوفي بنذرهما.
وقد روي أن ذلك كان فى يوم جمعة عند سماع خطبة النبى صلى الله عليه وسلم وهو على المنبر، فنذر أن يقوم ولا يقعد ولا يستظل ما دام النبى صلى الله عليه وسلم يخطب، إعظاما لسماع خطبة النبى صلى الله عليه وسلم، ولم يجعل النبى صلى الله عليه وسلم ذلك قربة توفى بنذره، مع أن القيام عبادة فى مواضع أخر، كالصلاة والأذان والدعاء بعرفة، والبروز للشمس قربة للمحرم، فدل على أنه ليس كل ما كان قربة فى موطن يكون قربة فى كل المواطن، وإنما يتبع فى ذلك ما وردت به الشريعة فى مواضعها.
”جس عمل کو اللہ نے اپنے قرب کا ذریعہ نہ بنایا ہو، اس کے ذریعے قرب تلاش کرنے کا عمل باطل و مردود ہے۔ جیسے مشرکین مکہ بیت اللہ میں سیٹیاں اور تالیاں بجا کر عبادت کرتے تھے۔ بدعی اعمال کے ذریعے حصول تقرب کی مثال وہی ہے، جیسے کوئی آلات موسیقی، رقص یا احرام کے سوا سر ننگا رکھ کر اللہ کا تقرب چاہے، یا دیگر بدعات کو اللہ کے تقرب کا ذریعہ مان کر ان پر عمل کرے۔ ایک عمل اگر کسی ایک عبادت میں نیکی کے طور پر کیا جاتا ہے، تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسری عبادات میں اس کا شمول بھی نیکی بن جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دھوپ میں کھڑے دیکھ کر اس کی وجہ دریافت کی، اس نے بتایا کہ میں نے نذر مان رکھی ہے کہ میں بیٹھوں گا نہیں بلکہ کھڑا رہوں گا، اسی طرح سائے میں بھی نہیں آؤں گا اور اسی حالت میں روزہ رکھوں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ اور سائے میں آجاؤ، البتہ روزہ مکمل کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے دھوپ میں کھڑے رہنے کو نیکی نہیں بتایا کہ جس کی نذر پوری کی جائے۔ روایات میں آتا ہے کہ اس آدمی نے یہ نذر جمعہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سنتے وقت مانی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے، اس نے نذر مانی کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیتے رہیں گے، میں تعظیما آپ کے خطبہ کو سننے کے لیے کھڑا رہوں گا اور سائے میں نہیں آؤں گا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نیکی نہیں سمجھا کہ جس کی نذر پوری کرنا ضروری ہو۔ حالانکہ نماز، اذان اور وقوف عرفہ کے دوران دعا سمیت کئی مقامات پر کھڑے ہونا اور محرم کے لیے سورج کے روبرو ہونا عبادت ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو کام کسی ایک عبادت میں مشروع ہو، وہ دوسری عبادت میں ممنوع بھی ہو سکتا ہے۔ سو، شریعت کے اتباع کی ضرورت ہے، جس سے کسی کام کی مشروعیت عدم مشروعیت کا معلوم ہو سکے۔“
(جامع العلوم والحكم: 178/1)
⑤ علامہ احمد بن محمد بن حسن شمنی حنفی (م: 772ھ) فرماتے ہیں:
ما أحدث على خلاف الحق المتلقى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبهة واستحسان وجعل دينا قويما وصراطا مستقيما.
”علم، عمل یا کوئی ایسی حالت، جسے شبہ کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول حق کے مقابلے میں گھڑ لیا گیا ہو اور اسے بدعت حسنہ کا نام دے کر دین قویم اور صراط مستقیم قرار دیا گیا ہو، بدعت ہے۔“
(رد المحتار على الدر المختار المعروف بہ فتاوی شامی: 560/1، حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح: 303، درر الحكام لملا خسرو: 85/1)
⑥ علامہ شریف جرجانی (م: 816ھ) فرماتے ہیں:
البدعة: هي الأمر المحدث الذى لم يكن عليه الصحابة والتابعون، ولم يكن مما اقتضاه الدليل الشرعي.
”بدعت وہ نیا کام ہے، جس پر صحابہ و تابعین کا عمل نہ ہو اور نہ ہی دلیل شرعی اس کی متقاضی ہو۔“
(کتاب التعریفات: 43)
⑦ مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں:
”بدعت کے شرعی معنی ہیں، وہ اعتقاد یا وہ اعمال جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ حیات ظاہری میں نہ ہوں، بعد میں ایجاد ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بدعت شرعی دو طرح کی ہوئی: بدعت اعتقادی اور بدعت عملی۔“
(جاء الحق: 204)