❀ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا مکالمہ ہوا:
أضللت الناس، قال: وما ذاك يا عرية؟ قال: تأمر بالعمرة فى هؤلاء العشر، وليست فيهن عمرة، فقال: أولا تسأل أمك عن ذلك؟ فقال عروة: فإن أبا بكر وعمر لم يفعلا ذلك، فقال ابن عباس: هذا الذى أهلككم، والله ما أرى إلا سيعذبكم، إني أحدثكم عن النبى صلى الله عليه وسلم، وتأتوني بأبي بكر وعمر، فقال عروة: هما والله كانا أعلم بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وأتبع لها منك.
”(عروہ نے کہا:) آپ نے لوگوں کو غلط راستے پر لگا دیا ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عروہ ! بات کیا ہے؟کہا: آپ ذی الحجہ کے دس دنوں میں عمرہ کا حکم دیتے ہیں، حالانکہ ان میں عمرہ نہیں ہوتا ؟ فرمایا: کیا تم اپنی والدہ (اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا) سے اس بارے میں نہیں پوچھ لیتے؟ عرض کیا: سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے یہ کام نہیں کیا۔ فرمایا: اللہ کی قسم! اسی چیز نے تم لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ مجھے ڈر ہے کہ اللہ کا عذاب نہ آجائے، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں، تم ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہما) کی بات پیش کرتے ہو؟ عروہ نے کہا: اللہ کی قسم! وہ دونوں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے زیادہ جانتے تھے اور اس کی زیادہ پیروی کرتے تھے۔“
(الفقیہ والمتفقہ للخطیب: 1/145، وسندہ صحیح)
❀ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قد كان أبو بكر وعمر على ما وصفهما به عروة؛ إلا أنه لا ينبغي أن يقلد أحد فى ترك ما ثبتت به سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم.
”ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما وہی تھے جیسا عروہ رحمہ اللہ عنہ نے بیان کیا، مگر کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت امر ان کی پیروی میں چھوڑ دے۔“
شیخین رضی اللہ عنہما اور عشرہ ذو الحجہ میں عمرہ:
یہاں ایک وضاحت کرنا چاہوں گا کہ شیخین سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کا عشرہ ذی الحجہ میں عمرہ سے روکنا ثابت نہیں۔ واجب کام پر کسی کا عمل نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اسے ناجائز سمجھتا ہے۔
دوسرے یہ کہ اگر شیخین ان دنوں میں عمرہ کو جائز نہ سمجھتے، تب بھی اسے مخالفت نہیں کہا جا سکتا، اسے عدم علم پر محمول کیا جائے گا، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مجموعی طرز عمل یہی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سن کر سر تسلیم خم کرتے تھے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
عجبا لترك الناس هذا الإهلال، ولتكبيرهم ما بي، إلا أن يكون التكبيرة حسنا، ولكن الشيطان يأتى الإنسان من قبل الإثم، فإذا عصم منه جاءه من نحو البر، ليدع سنة وليبتدع بدعة.
”تعجب ہے! لوگ تلبیہ چھوڑ کر تکبیر کہنے لگے ہیں، مانا کہ تکبیر اچھی چیز ہے، مگر شیطان انسان کے پاس گناہ کے دروازے سے آتا ہے، جب انسان اس سے بچ جائے تو نیکی کے دروازے سے آتا ہے تاکہ وہ سنت چھوڑ کر بدعت اپنا لے۔“
(مسند اسحاق بن راہویہ: 482، وسندہ صحیح)
ابن جریج رحمہ اللہ، عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے روایت سماع پر محمول ہوتی ہے ۔
❀ ابن جریج رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
عطاء، فأنا سمعته منه، وإن لم أقل: سمعت.
”میں نے عطاء رحمہ اللہ سے سناہوتا ، اگرچہ سماع کی صراحت نہ کروں۔“
(التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ: 241/2، 247، وسندہ صحیح)
❀ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (م: 198ھ) فرماتے تھے:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم هو الميزان الأكبر، فعليه تعرض الأشياء، على خلقه وسيرته وهديه، فما وافقها فهو الحق، وما خالفها فهو الباطل.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑی کسوٹی ہیں، لہذا آپ کے اخلاق، سیرت اور منہج پر تمام اشیا پیش کی جائیں گی۔ جو ان کے موافق ہوں وہ حق اور جو مخالف ہوں وہ باطل قرار پائیں گی۔“
(الجامع لأخلاق الراوی للخطیب: 8، وسندہ صحیح)
❀ امام اوزاعی رحمہ اللہ (م: 157ھ) نے مخلد بن حسین رحمہ اللہ سے کہا:
يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، إِذَا بَلَغَكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ، فَلَا تَظُنَّ غَيْرَهُ، وَلَا تَقُلْ غَيْرَهُ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا إِنَّمَا كَانَ مُبَلِّغًا عَنْ رَبِّهِ.
”ابو محمد! جب آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پہنچے، تو اس کے سوا کوئی بات نہ سوچے، نہ اس کے علاوہ کچھ کہیے، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی طرف سے (وحی) پہنچانے والے تھے۔“
(الفقیہ والمتفقہ للخطیب: 149/1، وسندہ حسن)
❀ نیز ناصحانہ انداز میں فرماتے ہیں:
اصبر نفسك على السنة، وقف حيث وقف القوم، وقل بما قالوا، وكف عما كفوا عنه، واسلك سبيل سلفك الصالح، فإنه يسعك ما وسعهم.
”سلف صالحین کے عقیدے پر ڈٹ جائے، جہاں سلف ٹھہرے، وہیں ٹھہر جایئے اور وہی کہیے جو سلف نے کہا۔ جس سے سلف رکے رہے، اس سے آپ بھی رک جاؤ اور ان کے منہج پر گامزن رہیے، آپ کو وہی کافی ہے، جو سلف کو کافی ہوا تھا۔“
(حلیة الأولیاء وطبقات الأصفیاء لأبی نعیم الأصبهانی: 143/6، وسندہ صحیح)
❀ امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ (م: 101ھ) نے لوگوں کی طرف یہ خط لکھا:
لا ر أى لأحد مع سنة سنها رسول الله صلى الله عليه وسلم.
”طریق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کسی اور کی پیروی درست نہیں۔“
(التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ: 9335، وسندہ صحیح)
❀ امام مالک بن انس رحمہ اللہ (م: 179ھ) فرماتے ہیں:
كلما جاءنا رجل أجدل من رجل، أرادنا أن نرد ما جاء به جبريل إلى النبى صلى الله عليه وسلم.
”ہمارے پاس چرب زبان لوگ آتے رہتے ہیں، انہوں نے ہم سے یہ امید وابستہ کر رکھی ہوتی ہے کہ ان کی چرب زبانی سے متاثر ہوکر ہم وحی الٰہی کو رد کر دیں گے۔“
(شرف أصحاب الحدیث للخطیب: 1، وسندہ صحیح)
❀ امام شافعی رحمہ اللہ (م: 204ھ) فرماتے ہیں:
يسقط كل شيء خالف أمر النبى صلى الله عليه وسلم، ولا يقوم معه ر أى ولا قياس، فإن الله عز وجل قطع العذر بقوله صلى الله عليه وسلم.
”فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہر چیز باطل ہے، کوئی رائے یا قیاس اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا، کیونکہ اللہ نے قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں تمام عذر ختم کر دیے ہیں۔“
(کتاب الأم: 193/2، السنن الکبریٰ للبیہقی: 241/9)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (م: 676ھ) فرماتے ہیں:
إذا ثبتت السنة، لا تترك لترك بعض الناس أو أكثرهم أو كلهم لها.
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ثابت ہو جائے تو اسے بعض، اکثر یا تمام لوگوں کے عدم عمل سے ترک نہیں کیا جائے گا۔“
(شرح صحیح مسلم: 186/4)
❀ شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م: 728ھ) فرماتے ہیں:
من المعلوم أنك لا تجد أحدا ممن يرد نصوص الكتاب والسنة بقوله، إلا وهو يبغض ما خالف قوله، ويود أن تلك الآية لم تكن نزلت، وأن ذلك الحديث لم يرد، ولو أمكنه كشط ذلك من المصحف لفعله.
”پکی بات ہے کہ جو اپنے قول کے ساتھ کتاب و سنت کی نصوص رد کرتا ہے، وہ اپنے قول کے خلاف آنے والی بات ناپسند کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ آیت نازل نہ ہوتی اور یہ حدیث وارد نہ ہوتی۔ اگر اس کے بس میں ہوتا تو وہ اسے قرآن سے نکال دیتا۔“
(درء تعارض العقل والنقل: 217/5)
❀ نیز فرماتے ہیں:
إن السعادة والهدى فى متابعة الرسول صلى الله عليه وسلم، وأن الضلال والشقاء فى مخالفته، وأن كل خير فى الوجود، إما عام وإما خاص، فمنشؤه من جهة الرسول، وأن كل شر فى العالم مختص بالعبد، فسببه مخالفة الرسول أو الجهل بما جاء به، وأن سعادة العباد فى معاشهم ومعادهم باتباع الرسالة.
”انسانیت کی سعادت و ہدایت اتباع رسول میں ہے، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت گمراہی و بدبختی کا باعث ہے۔ ذات رسول تمام عام و خاص بھلائیوں کا سر چشمہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی مخالفت تمام برائیوں کی بنیاد ہے، دنیا و آخرت میں کامیابی کا مدار اتباع رسول ہے۔“
(مجموع الفتاوی: 93/19)
❀ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ (م: 751ھ) فرماتے ہیں:
من عرض أقوال العلماء على النصوص ووزنها بها، وخالف منها ما خالف النص، لم يهدر أقوالهم ولم يهضم جانبهم، بل اقتدى بهم، فإنهم كلهم أمروا بذلك، فمتبعهم حقا من امتثل ما أوصوا به، لا من خالفهم، فخلافهم فى القول الذى جاء النص بخلافه، أسهل من مخالفتهم فى القاعدة الكلية التى أمروا ودعوا إليها من تقديم النص على أقوالهم، ومن هنا يتبين الفرق بين تقليد العالم فى كل ما قال، وبين الاستعانة بفهمه والاستضاءة بنور علمه، فالأول يأخذ قوله من غير نظر فيه ولا طلب لدليله من الكتاب والسنة، بل يجعل ذلك كالحبل الذى يلقيه فى عنقه، يقلده به، ولذلك سمي تقليدا، بخلاف ما استعان بفهمه واستضاء بنور علمه فى الوصول إلى الرسول صلوات الله وسلامه عليه .
”جو شخص علما کے اقوال نصوص شریعت پر پیش کرتا ہے اور نصوص کے مخالف اقوال کو رد کر دیتا ہے، وہ نہ تو علما کی آرا کو رائیگاں جانتا ہے، نہ ان کی قصرشان کرتا ہے، بلکہ وہ تو علما کی پیروی کرتا ہے، کیونکہ علماء بھی اتباع وحی پر مامور ہیں، انہوں نے وصیت کی ہےکہ ”نص کے خلاف ہر کسی کی بات کو رد کیا جا سکتا ہے، لہذا علماء کا حقیقی پیرو وہی ہے ، جو ان کی وصیت پر عمل کرتا ہے۔ علما کے وہ اقوال جو خلاف نصوص ہوں، انہیں نصوص کی بنا پر چھوڑ دینا اس سے بہتر ہے کہ ان اقوال کی بنا پر نصوص چھوڑ دی جائیں، یہیں سے تقلید اور فہم سلف میں فرق واضح ہو جاتا ہے، مقلدین ان کی بات کتاب و سنت میں بنا دیکھے اور بلا دلیل و برہان قبول کرتے ہیں، بلکہ شیطان اسے ان کے گلے کا پھندا بنا دیتا ہے، جس کے بغیر کہیں جانے کے نہیں رہتے، اسی لیے اس کا نام تقلید ہے، جب کہ فہم سلف تو علم سلف کی روشنی میں سنت رسول تک پہنچنے کا نام ہے۔“
(الروح : 364)