اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کامیابی کا معیار اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دلیل ہے۔ اس سے انسان کے اندرونی رجحانات و احساسات کا تعین ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والا اور صدق دل سے آپ کی عظمت و جلالت کو تسلیم کرنے والا آپ کے حکم سے سرمو انحراف نہیں کر سکتا۔ اعمال کی قبولیت کا مدار بھی اسی پر ہے۔
اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی روشنی میں:
❀ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ، قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ﴾
(آل عمران: 31)
”نبی! کہہ دیجئے، اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔ کہہ دیجئے! اللہ اور رسول کی اطاعت و فرماں برداری کرو۔ اگر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کی تو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔“
❀ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (م: 774ھ) فرماتے ہیں:
هذه الآية الكريمة حاكمة على كل من ادعى محبة الله، وليس هو على الطريقة المحمدية فإنه كاذب فى دعواه فى نفس الأمر، حتى يتبع الشرع المحمدي والدين النبوي فى جميع أقواله وأحواله.
”ہر شخص جو اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی پیروی نہیں کرتا، اس آیت کا فیصلہ ہے کہ وہ درحقیقت اپنے دعوے میں جھوٹا ہے، جب تک وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال و افعال کی پیروی نہیں کرتا۔“
(تفسیر ابن کثیر: 32/2)
❀ مزید فرماتے ہیں:
ثم قال آمرا لكل أحد من خاص وعام: ﴿قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا﴾ أي: خالفوا عن أمره: ﴿فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ﴾ فدل على أن مخالفته فى الطريقة كفر، والله لا يحب من اتصف بذلك، وإن ادعى وزعم فى نفسه أنه يحب الله ويتقرب إليه، حتى يتابع الرسول النبى الأمي خاتم الرسل، ورسول الله إلى جميع الثقلين الجن والإنس الذى لو كان الأنبياء بل المرسلون، بل أولو العزم منهم فى زمانه لما وسعهم إلا اتباعه، والدخول فى طاعته، واتباع شريعته.
”پھر اللہ نے ہر عام و خاص کو حکم دیا کہ”اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، اگر وہ پھر گئے۔ “ یعنی اطاعت سے منہ موڑ لیا، تو ”اللہ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔ “یہ آیت سمجھاتی ہے کہ طریقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کفر ہے، اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نافرمانوں کو پسند نہیں کرتا۔ اگر کسی کو اللہ سے محبت کا دعویٰ ہے اور وہ دل سے اللہ کی محبت اور قرب حاصل کرنا چاہتا ہے، تو اسے نبی امی، خاتم الرسل، تمام جن و انس کی طرف مبعوث رسول کی پیروی کرنا ہوگی۔ وہ رسول کہ اگر انبیاء، بلکہ رسل، اور اس سے بھی بڑھ کر اولوالعزم رسل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زندہ ہوتے، تو ان کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع اور آپ کی شریعت کی پیروی ضروری ہوتی۔“
(تفسیر ابن کثیر: 32/2)
❀ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾
(النساء: 80)
”جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی، یقیناً اس نے اللہ کی اطاعت کی۔“
❀ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾
(النور: 51)
”مؤمنوں کو فیصلے کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا جاتا ہے، یہی ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں: ہم نے سن لیا اور اطاعت کی۔ یہی لوگ کامیاب ہیں۔“
❀ نیز ارشاد ہے:
﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
(النور: 63)
”حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے“ کہ ان پر کوئی بڑا فتنہ یا دردناک عذاب آجاے۔“
❀ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (م: 774ھ) فرماتے ہیں:
قوله: ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ﴾ أى عن أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو سبيله ومنهاجه وطريقته وسنته وشريعته، فتوزن الأقوال والأعمال بأقواله وأعماله، فما وافق ذلك قبل، وما خالفه فهو مردود على قائله وفاعله، كائنا ما كان.
”فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ﴾
(النور : 63)
”حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے۔ “یہاں مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے امر سے مراد آپ کا راستہ، منہج، طریقہ اور شریعت ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال ہی میزان ہیں، جو قول و فعل آپ کے موافق ہو، قبول کیا جائے گا اور جو خلاف ہو، وہ اس کے قائل و فاعل پر لوٹا دیا جائے گا، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ (تفسیر ابن کثیر: 90/6)
❀ اللہ رب العزت نے فرمایا:
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾
(النساء: 4/65)
” (نبی!) آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، آپ کے فیصلے پر دلوں میں گھٹن محسوس نہ کریں، بلکہ سر تسلیم خم کر دیں۔“
❀ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾
(النساء: 59)
”اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو، تو اپنے اختلافات کا حاکم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بناؤ، یہ بہتر ہے اور اس کا انجام خوب ہے۔“
علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (م: 792ھ) فرماتے ہیں:
من المحال أن لا يحصل الشفاء والهدى والعلم واليقين من كتاب الله وكلام رسوله، ويحصل من كلام هؤلاء المتحيرين، بل الواجب أن يجعل ما قاله الله ورسوله هو الأصل، ويتدبر معناه ويعقله، ويعرف برهانه ودليله؛ إما العقلي وإما الخبري السمعي، ويعرف دلالته على هذا وهذا، ويجعل أقوال الناس التى توافقه وتخالفه متشابهة مجملة، فيقال لأصحابها: هذه الألفاظ تحتمل كذا وكذا، فإن أرادوا بها ما يوافق خبر الرسول قبل، وإن أرادوا بها ما يخالفه رد.
”ایسا ممکن نہیں کہ کتاب اللہ اور کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاء ہدایت اور علم یقین حاصل نہ ہو اور حیران و سرگرداں لوگوں کے کلام سے ہو جائے، مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو اصل بنائے، اس کے معنی میں غور و فکر کرے، اسے سمجھے، اس کی عقلی، خبری یا سمعی برہان پہچانے، اس کی دلالت ہر زاویے سے سمجھے، اور انسانوں کی بعض آراء وحی کے موافق ہوتی ہیں، بعض مخالف ہوتی ہیں، بعض متشابہ اور مجمل، ان کی آراء میں ان احتمالات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرے، ان کے قائلین کو بتائے کہ آپ کی فلاں بات میں فلاں فلاں احتمال ہیں، اگر ان کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے موافق ہے تو قبول وگرنہ رد کر دے۔“
(شرح العقیدة الطحاویة، ص 167)
❀ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ﴾
(النور: 62)
”مومن وہی ہیں، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں اور جب کسی اجتماعی معاملہ(جہاد وغیرا )میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں، تو آپ کی اجازت کے بغیر قدم نہیں اٹھاتے۔“
❀ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾
(الجاثية: 18)
”ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مخصوص شریعت عطا کی، اس کی پیروی کیجئے، لاعلم انسانوں کی خواہشات کے تابع نہ ہو جائیے۔“
اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم احادیث کی روشنی میں:
① سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أطاعني فقد أطاع الله، ومن عصاني فقد عصى الله .
”جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔“
(صحیح البخاری: 7137، صحیح مسلم: 1835)
② سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتے آئے اور کہنے لگے:
من أطاع محمدا صلى الله عليه وسلم فقد أطاع الله، ومن عصى محمدا صلى الله عليه وسلم فقد عصى الله، ومحمد صلى الله عليه وسلم فرق بين الناس.
”جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی، محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے لیے حق کا معیار ہیں۔“
(صحیح البخاری: 7281)
③ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا:
ألستم تعلمون أني رسول الله إليكم؟ قالوا: بلى نشهد أنك رسول الله، قال: ألستم تعلمون أن الله أنزل فى كتابه، من أطاعني فقد أطاع الله؟ قالوا: بلى نشهد أن من أطاعك فقد أطاع الله، وأن من طاعة الله طاعتك.
”کیا آپ نہیں جانتے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ عرض کیا: کیوں نہیں آقا! ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں پھر فرمایا: کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب میں ہے کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ کی اطاعت کی؟ صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں، ہم گواہی دیتے ہیں کہ جس نے آپ کی اطاعت کی اس نے واقعی اللہ کی اطاعت کی، اور آپ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔“
(مسند الإمام أحمد: 93/2، وسندہ صحیح)
امام ابن حبان رحمہ اللہ (الإحسان: 2109) نے اسے ”صحیح “قرار دیا ہے۔
④ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جعلت الذلة والصغار على من خالف أمري.
”ذلت و رسوائی میرے حکم کی مخالفت کرنے والے کا مقدر ہے۔“
(مسند الإمام أحمد: 50/2، وسندہ حسن)
اس کی سند کو شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (اقتضاء الصراط المستقیم: 250/1) نے ”جید“ حافظ ذہبی رحمہ اللہ (سیر أعلام النبلاء: 509/15) نے ”صالح“ حافظ عراقی رحمہ اللہ (تخریج أحادیث الإحیاء: 318) نے صحیح، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (فتح الباری: 271/10) نے ”حسن“ کہا ہے۔