حاملہ عورت کا نکاح: شرعی حیثیت، فریقین کی پوزیشن اور شرعی نتائج
سوال کی وضاحت
ایک عورت جو حاملہ ہے، اس کا نکاح انجام دیا جاتا ہے۔ اس موقع پر درج ذیل افراد شامل ہوتے ہیں:
◈ نکاح خواں (جو نکاح پڑھاتا ہے)
◈ گواہان (جو نکاح پر گواہی دیتے ہیں)
◈ دولہا (جس سے نکاح کیا جا رہا ہے)
◈ دیگر موجود افراد (جو کسی نہ کسی طور اس نکاح میں شامل یا متعلق ہوتے ہیں)
اس نکاح کی دو مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں:
➊ اگر ان تمام افراد میں سے کچھ یا سب اس بات سے واقف ہوں یا لاعلم ہوں کہ عورت حاملہ ہے۔
➋ اگر نکاح خواں کو علم نہ ہو یا جان بوجھ کر اس سے اس بات کو چھپایا گیا ہو۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ نکاح شرعی طور پر ناجائز اور ایک جرم ہے۔ اس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿وَأُوْلَٰتُ ٱلۡأَحۡمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعۡنَ حَمۡلَهُنَّۚ﴾
(الطلاق: 4)
*”اور حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا بچہ جنیں۔”*
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ حاملہ عورت کی عدت اس وقت ختم ہوتی ہے جب وہ اپنا حمل وضع کر لے۔ اس عدت کے دوران نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔
مجرمین کی ذمہ داری
◈ جو لوگ اس نکاح کے وقت موجود تھے یا اس نکاح سے کسی بھی طرح وابستہ تھے، اگر وہ اس بات سے واقف تھے کہ عورت حاملہ ہے، تو ان کا جرم واضح ہے۔
◈ جو افراد لاعلم تھے، ان کا جرم نسبتاً ہلکا ضرور ہے، لیکن وہ بھی مجرموں میں شمار ہوں گے۔
نکاح خواں کی پوزیشن
◈ اگر نکاح خواں کو معلوم نہ تھا کہ عورت حاملہ ہے، یا جان بوجھ کر اس سے بات چھپائی گئی، تب بھی وہ شرعی طور پر غلط عمل کا حصہ بن گیا ہے۔
◈ علم نہ ہونا جرم کو کم ضرور کرتا ہے، لیکن بری الذمہ نہیں کرتا۔
شرعی سزا اور تعزیر
◈ اس جرم کی کوئی حد قرآن و سنت میں واضح طور پر مقرر نہیں ہوئی، لیکن چونکہ یہ جرم ہے، اس پر تعزیر لگائی جائے گی۔
◈ تعزیر کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے:
«لاَ يُجْلَدُ فَوْقَ عَشْرِ جَلَدَاتٍ إِلاَّ فِیْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اﷲِ»
(بخاری، کتاب الحدود، باب کم التعزیر والادب)
*”دس (10) کوڑوں سے زیادہ نہ مارے جائیں، مگر اللہ کی حدود میں سے کسی حد میں۔”*
لہٰذا، اس معاملے میں تعزیر قاضی کی صوابدید پر ہوگی لیکن دس کوڑوں سے زیادہ نہیں دی جا سکتی۔
ضروری اقدامات
◈ مذکورہ تمام افراد کو فوراً توبہ کرنی چاہیے۔
◈ اس نکاح کو ختم کرنا لازم ہے، کیونکہ شرعی طور پر یہ نکاح ہوا ہی نہیں۔
◈ مرد و عورت کے درمیان فوری طور پر جدائی کروانا ضروری ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب