سوال کا مفصل جواب
سوال :
میرا ایک دوست ایک ایسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے جس کے والدین اور وہ خود درباروں پر جاتے ہیں، قبروں پر دعائیں کرتے ہیں، گیارہویں اور ختم وغیرہ جیسی رسمیں بھی ان کے ہاں جائز سمجھی جاتی ہیں۔ کیا ایسی لڑکی سے شادی کرنا شرعاً درست ہے؟
جی ہاں، ایسی لڑکی سے نکاح جائز ہے، بشرطیکہ اس نکاح کا مقصد اس لڑکی اور اس کے خاندان کو ان غلط عقائد و اعمال سے دور کرنا ہو، اور نیت یہ ہو کہ ان کو صحیح دین کی طرف لایا جائے۔ نیز، اگر لڑکی عفیف، باحیا اور پاکدامن ہو، تو اس سے نکاح کرنا درست ہے۔
ہمیں بتایا گیا ہے کہ فلاں آدمی نے ایک بازاری عورت سے شادی کی ہے۔ اس شادی سے پہلے وہ مرد اس عورت سے ناجائز تعلقات میں مبتلا رہا ہے، یعنی زنا کرتا رہا ہے۔ اب دونوں نے باقاعدہ شادی کر لی ہے۔ ہمارے ایک قاری صاحب کہتے ہیں کہ جس سے زنا کیا جائے، اس سے نکاح نہیں ہو سکتا؟ کیا یہ بات درست ہے؟
جی ہاں، قاری صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کی بات درست ہے۔ ایسا نکاح شرعی طور پر حرام ہے۔ اس کی دلیل قرآن مجید سے ملتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ﴾
(سورۃ النور)
ترجمہ:
"اور حرام کیا گیا ہے یہ مؤمنوں پر۔”
یعنی زانی مرد کا نکاح کسی زانیہ یا مشرکہ عورت سے، اور زانیہ عورت کا نکاح کسی زانی یا مشرک مرد سے ایمان والوں پر حرام ہے۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ کا بیان:
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس مقام پر قرآن میں جو لفظ "ذٰلِکَ” استعمال ہوا ہے، اس سے مراد صرف زنا لینا ایک ضعیف اور کمزور رائے ہے۔ یعنی اصل مراد یہی ہے کہ زانی اور زانیہ کا نکاح مؤمنین کے لیے جائز نہیں۔
مزید قرآنی دلائل:
❀ النساء 25:
﴿مُحْصَنَاتٍ غَیْرَ مُسَافِحَاتٍ وَّلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ﴾
"وہ عورتیں پاکدامن ہوں، نہ علانیہ زنا کرنے والی ہوں اور نہ چھپے تعلقات رکھنے والی ہوں۔”
❀ المائدة 5:
﴿مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیٓ أَخْدَانٍ﴾
"تمہاری نیت نکاح کی ہو، نہ کہ زنا کرنے کی، اور نہ ہی چھپی ہوئی دوستی قائم کرنے کی۔”
ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ نکاح کے لیے مرد اور عورت دونوں کا پاکدامن اور عفیف ہونا لازم ہے۔
زنا کے بعد نکاح کی صورت:
البتہ اگر زنا کے بعد دونوں افراد سچے دل سے توبہ کر لیں، اور ان کی توبہ کا اخلاص اور صداقت شواہد و قرائن سے لوگوں پر ظاہر ہو جائے، تو اس کے بعد ان کا نکاح شرعاً درست ہوگا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب