اہل حدیث لڑکی کا نکاح شرکیہ یا بدعتی عقائد والے سے؟
ماخوذ: احکام و مسائل، نکاح کے مسائل، جلد 1، صفحہ 303

سوال

کیا اہلِ حدیث لڑکی کا نکاح ایسے شخص سے ہو سکتا ہے جو شرکیہ یا بدعتی عقائد رکھتا ہو؟ اور کیا امام ایسا نکاح پڑھا سکتا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَلَا تُنكِحُواْ ٱلۡمُشۡرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤۡمِنُواْۚ﴾
(البقرة: 221)
’’اور مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں، مسلمان عورتوں سے ان کا نکاح نہ کرو۔‘‘

یہ آیتِ کریمہ تمام قضاۃ، ولاۃ، اور نکاح خواں حضرات کو مخاطب کرتی ہے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:

﴿لَا هُنَّ حِلّٞ لَّهُمۡ وَلَا هُمۡ يَحِلُّونَ لَهُنَّۖ﴾
(الممتحنة: 10)
’’یہ عورتیں ان کافروں کے لیے حلال نہیں اور نہ وہ کافر ان عورتوں کے لیے حلال ہیں۔‘‘

یہ بات واضح ہے کہ ہر مشرک، شرکِ اکبر کے سبب کافر ہوتا ہے۔

البتہ بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کے گروہوں کا معاملہ اس عمومی حکم سے مختلف نوعیت رکھتا ہے، کیونکہ ان میں کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو شرک اور کفر میں مبتلا ہوتے ہیں، اور کچھ افراد توحید اور ایمان پر قائم ہوتے ہیں۔

لہٰذا کسی بھی فرد کے ساتھ نکاح سے پہلے اُس کے عقائد کا بغور جائزہ لینا ضروری ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1