سوال
ایک حدیث ہے:
(( مَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔ ))
’’ جس آدمی نے لیلۃ القدر کا قیام کیا ایمان سے اور ثواب کی نیت سے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔‘‘
[صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب فضل من قام رمضان، حدیث: 1901]
رات کے قیام سے کیا مراد ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لیلۃ القدر کے قیام سے مراد صلاۃ اللیل (رات کی نماز) ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
{ قُمِ اللَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلًا }
’’رات (کے وقت نماز) میں کھڑے ہوجاؤ، مگر کم۔‘‘
[سورۃ المزمل: 2]
اسی سورۃ میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{ اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ أَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ اللَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ وَطَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَکَ وَاللّٰہُ یُقَدِّرُ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْہُ فَتَابَ عَلَیْکُمْ فَاقْرَئُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ط }
’’تیرا رب بخوبی جانتا ہے کہ تو اور تیرے ساتھ کے لوگوں کی ایک جماعت قریب دوتہائی رات کے اور آدھی رات کے اور ایک تہائی رات کے تہجد پڑھتے ہیں، اور رات دن کا پورا اندازہ اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔ وہ (خوب) جانتا ہے کہ تم اوقات کا ٹھیک شمار نہیں کرسکوگے، پس اس نے تم پر مہربانی کی، لہٰذا جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکو اتنا پڑھو۔‘‘
[سورۃ المزمل: 20]
لہٰذا، لیلۃ القدر کے قیام سے مراد وہ عبادت ہے جو رات کے وقت کی جائے، بالخصوص تہجد اور نفل نمازیں، جن کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور مغفرت حاصل کرنا ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب