سوال: دجال کتنے دن تک زمین میں گشت کرے گا ؟
جواب: دجال چالیس دن تک حرمین کے علاوہ پوری زمین کا چکر لگائے گا۔
✿ سیدنا عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
يخرج الدجال فى أمتي فيمكث أربعين، لا أدري أربعين يوما، أو أربعين شهرا، أو أربعين عاما فيبعث الله عيسى ابن مريم كأنه عروة بن مسعود، فيطلبه فيهلكة
” میری امت میں دجال نکلے گا اور چالیس تک رہے گا، راوی کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ چالیس دن یا مہینے یا سال، اسی دور میں اللہ عیسی بن مریم علیہم السلام کو بھیجے گا، ان کا حلیہ عروہ بن مسعود (صحابی) سے ملتا جلتا ہو گا ، آپ علیہ السلام دجال کا تعاقب کریں گے اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیں گے ۔ “ (صحیح مسلم : 2940)
✿ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
سمعت أبا القاسم الصادق المصدوق يقول : يخرج الأعور الدجال مسيح الضلالة قبل المشرق فى زمن اختلاف من الناس، وفرقة، فيبلغ ما شاء الله أن يبلغ من الأرض فى أربعين يوما، الله أعلم ما مقدارها؟ فيلقى المؤمنون، شدة شديدة، ثم ينزل عيسى ابن مريم صلى الله عليه وسلم من السماء، فيقوم الناس، فإذا رفع رأسه، من ركعته، قال: سمع الله لمن حمده، قتل الله المسيح الدجال، وظهر المؤمنون، فأحلف أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أبا القاسم الصادق المصدوق صلى الله عليه وسلم قال : إنه الحق، وأما أنه قريب، فكل ما هو آت قريب .
” میں نے صادق و مصدوق نبی ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ گمراہی کا مارا ہوا کانا دجال لوگوں کے اختلاف وافتراق کے دور میں مشرق سے نکلے گا، چالیس دنوں میں زمین میں جہاں تک اللہ تعالیٰ چاہے گا ، پہنچے گا، اللہ خوب جانتا ہے کہ ان چالیس دنوں کی مقدار کتنی ہو گی ؟ مومن لوگ بہت سختی میں مبتلا ہوں گے، پھر عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے، لوگ کھڑے ہو جائیں گے، جب آپ اپنا سر رکوع سے اٹھائیں گے، تو سمع الله لمن حمده کہیں گے، اللہ تعالیٰ مسیح دجال کو قتل کر دے گا اور مومن غالب آجائیں گے، (سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ صادق و مصدوق نبی ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بات حق ہے اور ایسا عنقریب ہوگا، کیونکہ ہر آنے والی چیز قریب ہوتی ہے۔“ (مسند البزار كشف الأستار : 3396، وسنده صحيح)
✿ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
رواه البزار ورجاله رجال الصحيح .
”یہ مسند بزار کی روایت ہے اور اس کے راوی صحیح کے ہیں ۔ “(مجمع الزوائد : 349/7)