نماز میں سکتہ اور مقتدی کی سورۃ الفاتحہ کی قراءت کا حکم
ماخوذ: احکام و مسائل، نماز کا بیان، جلد 1، صفحہ 142

سوال

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز میں تین سکتے (خاموشی کے وقفے) ہوتے ہیں۔ ان میں سے درمیانی سکتہ، یعنی سورۃ الفاتحہ کے بعد کا سکتہ، اس لیے ہوتا ہے تاکہ اگر کوئی شخص نماز میں دیر سے آ کر شامل ہو، تو وہ امام کی قراءت کو سنے۔ کیونکہ قرآنِ مجید میں آیا ہے:

﴿وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا﴾

اس آیت کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ جب امام قراءت مکمل کرے، یعنی سورۃ الفاتحہ پڑھ لے، تو اس کے بعد آنے والا شخص سورۃ الفاتحہ پڑھے۔ اس کے لیے سکتہ بھی اتنا طویل ہونا چاہیے کہ وہ آسانی سے سورۃ الفاتحہ پڑھ سکے۔ اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں بیان ہوا ہے تو اس کی وضاحت کیجیے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یقیناً نماز میں قیام کے دوران دو یا تین سکتات (خاموشی کے وقفے) کا ہونا ثابت ہے:

پہلا سکتہ: تکبیرِ تحریمہ اور سورۃ الفاتحہ کے درمیان ہوتا ہے۔ اس وقفے میں دعائے استفتاح پڑھی جاتی ہے، جیسا کہ اللهم باعد بيني… والی دعا۔ اس کا وقت صرف اسی دعا کے بقدر ہوتا ہے۔
دوسرا سکتہ: (یعنی سورۃ الفاتحہ کے بعد والا سکتہ) کہ جو طویل ہو اور اس کا مقصد مقتدیوں کو سورۃ الفاتحہ پڑھنے کا موقع دینا ہو — ایسا کوئی ثبوت کسی مرفوع حدیث سے نہیں ملتا۔

البتہ یہ بات درست ہے کہ مقتدی کے لیے سورۃ الفاتحہ پڑھنا فرض اور ضروری ہے، چاہے وہ:

◈ امام کے ساتھ ساتھ پڑھے،
◈ امام سے پہلے پڑھ لے،
◈ یا امام کے بعد۔

قرآن کی آیت:

﴿وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا﴾

(الاعراف:204)

میں صرف خاموشی اختیار کرنے اور غور سے سننے کا حکم ہے۔
اس آیت میں یہ بات نہ تو صراحتاً ہے، نہ مفہوماً، نہ اشارتاً، اور نہ التزاماً کہ قراءت قرآن کے وقت سامع کو خود سراً (آہستہ) قرآن پڑھنے سے روکا گیا ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے