سورہ فاتحہ خلف الامام کا مسئلہ اور آیت الاعراف 204 کی وضاحت
ماخوذ : احکام و مسائل، نماز کا بیان، جلد 1، صفحہ 139

سوال کا پس منظر

سائل نے وضاحت کی کہ انہوں نے اول شوال کو جامعہ اشرفیہ میں نمازِ فجر ادا کی۔ بعد ازاں انہیں مولانا عبدالرحمن صاحب سے ملاقات کا موقع ملا، اور اپنے ساتھ لایا گیا جوابی رقعہ انہیں پڑھ کر سنایا۔ مولانا صاحب نے سننے کے بعد فرمایا کہ قرآن میں یہ آیت موجود ہے:

﴿وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ (الاعراف: 204)

مزید فرمایا کہ مولانا سرفراز کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب ’’احسن الکلام‘‘ کا مطالعہ ضرور کریں اور اسی کتاب میں موجود آیت کی تشریح کی روشنی میں اس آیت پر تبصرہ کریں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس آیت کے حوالے سے کوئی ایسا جواب دیا جائے جو مولانا سرفراز صاحب نے اپنی کتاب میں نہ دیا ہو۔

مولانا عبدالرحمن صاحب نے خوشی کا اظہار کیا کہ جواب سن کر دل خوش ہوا، اور جواب دینے والے کے اخلاص کی جھلک نظر آئی، تاہم یہ بھی فرمایا کہ جو اصل بات ان کی طرف سے کہی گئی تھی وہ نہیں پہنچائی گئی، جس کے باعث جواب میں وضاحت پیش کرنا پڑی۔

اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ:

  • اگر کوئی حدیث لائیں جس سے مذکورہ آیت کا عام مفہوم تبدیل کیا جائے تو وہ حدیث صحیح بھی ہو، صریح بھی ہو اور مقتدی کے بارے میں ہو۔
  • "سورۂ فاتحہ خلف الامام” کا مسئلہ، رفع یدین کے مسئلے سے زیادہ اہم اور نازک ہے۔
  • اس لیے جو بحث ہو گی، وہ "فاتحہ خلف الامام” پر ہو گی۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے جو یہ لکھا کہ:

’’مولانا عبدالرحمن صاحب جامعہ اشرفیہ والوں نے فرمایا کہ سورۃ فاتحہ خلف الامام رفع الیدین سے اہم اور نازک مسئلہ ہے، اس لیے بحث اسی پر ہو گی۔‘‘

تو اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب بحث و مکالمہ کے خواہش مند ہیں۔ لہٰذا، مؤدبانہ گزارش ہے کہ آئندہ جوابات انہی کے ہاتھ سے تحریر شدہ ہوں تاکہ یہ اعتراض دوبارہ نہ اٹھے کہ اصل بات ان تک نہیں پہنچائی گئی۔

مسئلے کی اہمیت و نازکیت

جہاں تک اہمیت اور نازکیت کا تعلق ہے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کا مسئلہ تو "فاتحہ خلف الامام” سے کہیں زیادہ اہم اور نازک ہے۔ اس لیے اگر بحث ہو تو وہ تقلیدِ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے موضوع پر ہونی چاہیے تاکہ فاتحہ خلف الامام سمیت دیگر تمام اختلافی مسائل کا حل نکل سکے۔

اگر تقلید کا وجوب ثابت ہو جائے تو بندہ خود مقلد ہو جائے گا، اور اس صورت میں مولانا صاحب کو دنیا و آخرت میں بہت زیادہ فائدہ حاصل ہو گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

تاہم اگر مولانا صاحب صرف "فاتحہ خلف الامام” کے موضوع پر ہی بات کرنا چاہتے ہیں اور تھوڑے فائدے کو بڑے فائدے پر ترجیح دیتے ہیں، تو بندہ اس پر بھی بات چیت کے لیے تیار ہے۔

آیت کریمہ اور مولانا سرفراز کی کتاب کا حوالہ

آپ نے لکھا کہ مولانا عبدالرحمن صاحب نے فرمایا کہ قرآن میں یہ آیت ہے:

﴿وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ (الاعراف: 204)

اور فرمایا کہ "مولانا سرفراز صاحب کی کتاب احسن الکلام (دو جلدوں پر مشتمل) کا مطالعہ کریں”۔

محترم، بندہ نے کتاب ’’احسن الکلام‘‘ کا پہلے بھی کئی بار مطالعہ کیا ہے، اور جب آپ کا خط ملا تو اس آیت سے متعلقہ باب کو پھر سے بڑی توجہ کے ساتھ پڑھا۔

کتاب ’’احسن الکلام‘‘ کے خلاصے کی روشنی میں تین نکات:

  1. مذکورہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
  2. "الاستماع” کا مطلب ہے: الاصغاء
    "الانصات” کا مطلب ہے: السكوت مع الاستماع
  3. اس آیت سے سراً اور جہراً دونوں طرح قراءت (پڑھنے) کی ممانعت اخذ کی گئی ہے۔

بندہ نے اس تیسرے نکتے پر، یعنی آیت سے سراً قراءت کی ممانعت کے بارے میں، صاحب ’’احسن الکلام‘‘ کے پیش کردہ مواد پر کافی غور و فکر کیا، لیکن کوئی ایک جملہ بھی ایسا نہ ملا جو اس بات کی فی الواقع دلیل بن سکے کہ آیت میں سراً قراءت کی ممانعت ہے۔

لہٰذا، مؤدبانہ گزارش ہے کہ مولانا صاحب کوئی ایسی دلیل پیش کریں جس سے اس آیت کا سراً قراءت کی ممانعت پر دلالت کرنا واقعۃً ثابت ہو جائے، تاکہ بحث کسی نتیجہ خیز سمت میں آگے بڑھ سکے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے