ماخوذ : احکام و مسائل، نماز کا بیان، جلد 1، صفحہ 139
سوال
هَلْ یَؤُمُّ الرَّجُلُ الْمَعْذُوْرُ الَّذِیْ یَقْطُرُ مِنْہُ الْبَوْلُ وَالْحَالُ اَنَّہُ لَیْسَ فِیْ قَوْمِہِ رَجُلٌ اَکْثَرَ حِفْظًا لِلْقُرْآنِ وَلاَ اَعْلَمَ بِالسُّنَّةِ مِنْہُ
"کیا ایک معذور شخص امامت کرا سکتا ہے جس کے پیشاب کے قطرے ٹپکتے ہوں، اور یہ حالت ہو کہ اس کی قوم میں نہ تو کسی کو قرآن اس سے زیادہ یاد ہے اور نہ ہی سنت کا اس سے بڑھ کر علم رکھنے والا کوئی موجود ہے؟”
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یَجُوْزُ لٰکِنَّ الْاَوْلٰی وَالْاَفْضَلَ اَنْ یَؤُمَّ غَیْرُہُ
"یہ (امامت کروانا) جائز ہے، لیکن بہتر اور افضل یہی ہے کہ امامت کوئی دوسرا شخص کرے۔”
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب