اذان سے قبل دعا پڑھنے سے متعلق حدیث کی تحقیق
سوال:
سنن ابو داود کی بَابُ الْأَذَانِ فَوْقَ الْمَنَارَۃِ کے تحت بنی نجار کی ایک خاتون سے روایت کی گئی حدیث میں ذکر ہے کہ سیدنا حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان سے قبل یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
«اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَحْمَدُکَ وَاسْتَعِیْنُکَ عَلٰی قُرَیْشٍ اَنْ یُقِیْمُوْا دِیْنَکَ، ثُمَّ یُؤَذِّنُ»
’’اے اللہ! میں تیری حمد کرتا ہوں اور قریش کے بارے میں تجھ سے مدد مانگتا ہوں تاکہ وہ تیرے دین کو قائم کریں، پھر وہ اذان دیتا۔‘‘
روایت کی راویہ عورت قسم کھا کر بیان کرتی ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ یہ دعا بلا ناغہ اذان سے قبل پڑھا کرتے تھے۔
سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا اس روایت سے بریلوی حضرات کا اذان سے پہلے ’’الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ‘‘ کہنا ثابت ہوتا ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کے سوال کا تحقیقی جواب درج ذیل نکات کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے:
➊ روایت کی سند میں ضعف (کمزوری)
یہ حدیث سنن ابی داود میں مذکور ہے، لیکن اس کی سند ضعیف (کمزور) ہے، اور اس کمزوری کی دو اہم وجوہات ہیں:
■ پہلی وجہ:
اس سند میں ایک راوی احمد بن محمد بن ایوب شامل ہے جن کے متعلق محدثین کی آراء درج ذیل ہیں:
◈ یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں:
"لَیْسَ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِیْثِ وَاِنَّمَا کَانَ ورَّاقًا”
(تہذیب التہذیب ۱/۷۱)
یعنی وہ محدثین میں سے نہیں تھے بلکہ ایک کاتب (ورّاق) تھے۔
◈ ابو احمد حاکم فرماتے ہیں:
"لَیْسَ بِالْقَوِی عِنْدَہُمْ”
(تہذیب التہذیب ۷۱/۱)
یعنی ان کے نزدیک وہ قوی راوی نہیں تھے۔
◈ یحییٰ بن معین کہتے ہیں:
"ہُوَ کَذَّابٌ”
(میزان الاعتدال ۱۳۳/۱ ۔ تہذیب التہذیب ۷۱/۱)
یعنی وہ جھوٹا ہے۔
■ دوسری وجہ:
سند میں دوسرا راوی محمد بن اسحاق ہے۔ ان کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
"إِمَامُ الْمَغَازِیْ، صَدُوْقٌ، یُدَلِّسُ، وَرُمِیَ بِالتَّشَیُّعِ وَالْقَدْرِ”
(تقریب التہذیب ۲۹۰)
یعنی وہ سیرت نگاری کے امام ہیں، سچے ہیں لیکن تدلیس کرتے ہیں اور ان پر تشیع اور قدری عقیدے کا الزام بھی ہے۔
علم اصول حدیث کے مطابق مدلس راوی جب تک اپنے شیخ سے "سماع” (براہِ راست سننے) کی وضاحت نہ کرے، اس کی روایت قبول نہیں کی جاتی۔
اور اس روایت میں محمد بن اسحاق نے "عن” کے صیغہ سے روایت کی ہے، یعنی سماع کی وضاحت موجود نہیں۔
حنفی مکتبِ فکر کے علماء بھی محمد بن اسحاق کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں "احسن الکلام” کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر جب بریلوی حضرات "فاتحہ خلف الامام” کے معاملے پر اسی کتاب پر اعتماد کرتے ہیں۔
➋ بعض محدثین کی توثیق اور اس کا جواب
یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ احمد بن محمد بن ایوب کو بعض محدثین نے ثقہ بھی قرار دیا ہے، لیکن:
◈ جرح (تنقید) کرنے والوں کی رائے مقدم ہوتی ہے کیونکہ:
➊ اس میں کسی خاص کمزوری کی نشاندہی کی گئی ہے۔
➋ جرح واضح اور مفصل ہے (مبین السبب)۔
لہٰذا ان دو وجوہات کی بنا پر یہ روایت قابلِ قبول نہیں ہے۔
نیز، ابوداود، منذری وغیرہ کا اس پر سکوت کرنا اس روایت کی صحت کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔
➌ روایت کا مرفوع ہونا بھی ثابت نہیں
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ:
◈ بنو نجار کی عورت اگرچہ صحابیہ ہوں، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ صرف نبی ﷺ کے عہد مبارک کی بات ہی بیان کریں۔
◈ اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ عنہ چونکہ صحابی اور موذن رسول تھے، اس سے یہ ضروری نہیں کہ ان کے ہر عمل کا تعلق زمانۂ نبوت سے ہو۔
ممکن ہے انہوں نے یہ دعا نبی ﷺ کے بعد کے زمانے میں کہنا شروع کی ہو۔
➍ اذان سے پہلے درود کا ذکر سرے سے موجود نہیں
اس حدیث میں نہ تو:
◈ تعوذ (شیطان سے پناہ مانگنا)،
◈ نہ درودِ ابراہیمی،
◈ اور نہ ہی بریلویوں کا مخصوص درود "الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ”
کہیں بھی ذکر نہیں کیا گیا۔
لہٰذا، اس روایت سے اذان سے قبل درود پڑھنے پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔
➎ نتیجہ:
◈ حدیث کی سند ضعیف ہے۔
◈ روایت مرفوع نہیں بلکہ ممکنہ طور پر بعد کے زمانے کی ہے۔
◈ اذان سے پہلے درود پڑھنے کا اس حدیث سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
لہٰذا بریلوی حضرات کا اس روایت سے اذان سے پہلے درود پڑھنے کا استدلال غلط، بے بنیاد اور غیر علمی ہے۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب