سوال :
کیا حضر میں مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کرنا جائز ہے؟
جواب :
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث مبارکہ 1:
«عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضی اﷲ عنہما قَالَ صَلّٰی رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ اَلظُّہْرَ وَالْعَصْرَ جَمِیْعًا بِالْمَدِیْنَةِ فِيْ غَیْرِ خَوْفٍ وَلاَ سَفَرٍ قَالَ اَبُو الزُّبَیْرِ فَسَأَلْتُ سَعِیْدًا لِمَ فَعَلَ ذٰلِکَ فَقَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضی اﷲ عنہما کَمَا سَأَلْتَنِیْ فَقَالَ اَرَادَ اَنْ لاَّ یُحْرِجَ اَحَدًا مِنْ اُمَّتِہٖ»
(صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب جواز الجمع بین الصلوتین فی الحضر)
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی ادا فرمائی، نہ خوف کی حالت تھی اور نہ ہی سفر میں تھے۔
ابو الزبیر کہتے ہیں کہ میں نے سعید سے پوچھا: "آپ نے یہ عمل کیوں کیا؟”
انہوں نے جواب دیا: "میں نے بھی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی سوال کیا تھا، تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ اس لیے کیا تاکہ اپنی امت کو مشقت میں نہ ڈالیں۔”
حدیث مبارکہ 2:
«فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ اَتُعَلِّمُنِیْ بِالسُّنَّةِ لاَ اُمَّ لَکَ ثُمَّ قَالَ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ جَمَعَ بَیْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ»
(صحیح مسلم، صلوٰۃ المسافرین، باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر)
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: "کیا تو مجھے سنت سکھاتا ہے؟ تیری ماں مرے! میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے ظہر اور عصر، اور مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کیں۔”
سوال کی وضاحت:
پوچھا گیا ہے کہ ان احادیث کی روشنی میں، کیا مغرب اور عشاء کی نماز بغیر کسی خوف، سفر یا بارش کے صرف آسانی کے لیے جمع کی جا سکتی ہے؟
اس کے پس منظر میں سوال کنندہ نے اپنی مصروفیت کا ذکر کیا ہے کہ وہ دن بھر فرنیچر کا کام کرتے ہیں، اور رات کو اوور ٹائم ہوتا ہے جو 6:30 بجے شروع ہو کر رات 10:30 بجے ختم ہوتا ہے۔
اس صورتِ حال میں نیند کا غلبہ ہوتا ہے اور صبح پانچ بجے اٹھنا ہوتا ہے۔
تو کیا یہ عذر کافی ہے کہ وہ مسلسل ڈیڑھ سے دو ماہ مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کریں؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے صحیح مسلم سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی جو حدیث بیان کی ہے، وہ واقعی اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر حضر اور امن میں نمازیں جمع کیں۔ تاہم درج ذیل نکات پر غور کرنا ضروری ہے:
1. رسول اللہ ﷺ کا معمول
✿ رسول اللہ ﷺ کا معمول ہمیشہ ہر نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنے کا تھا۔
✿ آپ ﷺ نے اپنی پوری حیات طیبہ میں صرف ایک بار بغیر خوف، سفر یا بارش کے حضر میں نمازیں جمع فرمائیں۔
✿ یہ عمل مسلسل یا مستقل معمول کے طور پر ثابت نہیں۔
2. نمازوں کا جمع کرنا حقیقتاً نہیں، صورۃً تھا
«عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اﷲ عنہما قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِیِّ ﷺ بِالْمَدِیْنَةِ ثَمَانِیًا جَمِیْعًا وَسَبْعًا جَمِیْعًا اَخَّرَ الظُّہْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ وَاَخَّرَ الْمَغْرِبَ وَعَجَّلَ الْعِشَائَ»
(سنن النسائی، باب الوقت الذی یجمع فیہ المقیم، المجلد الاول، ص 69)
ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ میں آٹھ رکعات (ظہر و عصر) اکٹھی اور سات رکعات (مغرب و عشاء) اکٹھی ادا کیں، آپ ﷺ نے ظہر کو مؤخر اور عصر کو جلدی پڑھا، اسی طرح مغرب کو مؤخر اور عشاء کو جلدی ادا فرمایا۔
تشریح:
✿ نمازیں واقعی وقت سے باہر نکل کر جمع نہیں کی گئیں بلکہ اس انداز میں پڑھی گئیں کہ ایک کو آخری وقت میں اور دوسری کو ابتدائی وقت میں پڑھا گیا۔
✿ گویا نمازوں کو ظاہری طور پر (صورۃً) جمع کیا گیا، حقیقتاً (فعلی طور پر) نہیں۔
3. امت پر مشقت کی نفی
✿ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے امت پر مشقت سے بچانے کے لیے ایسا کیا، لیکن:
◈ نہ تو اسے فرض قرار دیا
◈ نہ ہی افضل قرار دیا
◈ نہ ہی اسے عام معمول بنایا
✿ لہٰذا اگر کبھی کبھار حقیقی مجبوری ہو، تو شرعی اجازت موجود ہے کہ:
◈ ظہر و عصر یا
◈ مغرب و عشاء میں
◈ نمازوں کو صورۃً جمع کیا جا سکتا ہے۔
✿ لیکن مسلسل ڈیڑھ دو ماہ ایسا کرنا، جبکہ صرف دنیاوی مصروفیت یا نیند کا معاملہ ہو، اس حدیث سے ثابت نہیں۔
خلاصہ:
✿ رسول اللہ ﷺ نے حضر میں نماز جمع صرف ایک بار اور صورۃً کی۔
✿ یہ عمل عام معمول نہیں تھا بلکہ عارضی رعایت تھی۔
✿ موجودہ حالات جیسے کام کی مصروفیت اور نیند کے غلبہ کو بنیاد بنا کر دو مہینے تک مسلسل نمازیں جمع کرنا شرعاً درست نہیں۔
✿ ہاں، اگر کبھی کبھار شدید مجبوری ہو، تو اس میں صورۃً جمع کی گنجائش موجود ہے۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب