سوال کا مفہوم
اکثر علماء کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کی ایک مسجد کے مینار پر نازل ہوں گے۔ وہ لوگوں سے فرمائیں گے کہ سیڑھی لاؤ، پھر سیڑھی کے ذریعے نیچے اتریں گے اور نماز پڑھائیں گے۔ اسی بنیاد پر بعض لوگ یہ مسئلہ اخذ کرتے ہیں کہ مسجدوں میں بڑے بڑے مینار بنانا جائز ہے۔
لیکن سائل نے صحیح مسلم کی ایک حدیث پڑھی ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے:
«إِذْ بَعَثَ اﷲُ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ علیہ السلام فَیَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَآئِ شَرْقِيِّ دِمَشْقَ بَیْنَ مَہْرُوْذَتَیْنِ وَاضِعًا کَفَّیْہِ عَلٰٓی اَجْنِحَةِ مَلَکَیْنِ»
(صحیح مسلم – کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب ذکر الدجال)
ترجمہ:
جب اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجے گا تو وہ دمشق کے مشرقی حصے میں سفید مینار کے قریب نازل ہوں گے، ان کے جسم پر زرد رنگ کا جوڑا ہوگا اور وہ اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے پروں پر رکھے ہوں گے۔
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ایک پیش گوئی ہے کہ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے، اور ان کا نزول دمشق کے مشرق میں ایک سفید مینار کے پاس ہوگا۔
اس حدیث کو بنیاد بنا کر یہ کہنا کہ مسجدوں میں مینار بنانا مستحب ہے یا اس کا جواز حدیث سے ثابت ہے — درست استدلال نہیں ہے۔ کیونکہ:
❀ حدیث میں "المَنَارَۃِ الْبَیْضَآئِ” یعنی "سفید مینار” کا ذکر ہے، اور اس مقام کا تعین ایک نشانی کے طور پر کیا گیا ہے۔
❀ یہاں یہ مقصود نہیں کہ مسجدوں میں بڑے مینار بنانا دینی حکم یا سنت ہے۔
❀ یہ محض ایک وقوعہ کی جگہ کا تعین ہے، نہ کہ مینار بنانے کے جواز یا استحباب کی دلیل۔
لہٰذا اس حدیث کو میناروں کے استحباب یا مسجدوں میں بڑے مینار بنانے کے جواز پر دلیل کے طور پر لینا درست نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب