اقامت ہو جانے تک جس نے سنتیں نہ پڑھی ہوں تو پھر وہ کب پڑھے؟
یہ اقتباس ابو عدنان محمد منیر قمر نواب الدین کی کتاب نماز پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد سے ماخوذ ہے۔

اب رہی یہ بات کہ اقامت ہو جانے تک جس نے سنتیں نہ پڑھی ہوں تو پھر وہ کب پڑھے؟
اس کا جواب دو قسم کی احادیث میں ملتا ہے۔ ایک وہ جن میں طلوع آفتاب کے بعد سنتیں پڑھنے کا ذکر ہے، جیسا کہ ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے:
من لم يصل ركعتي الفجر فليصلها بعد ما تطلع الشمس
ترمذی مع التخفہ 493/2، جامع الاصول لابن الاثیر 17/7
جس نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں تو وہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھ لے۔
دارقطنی و حاکم کے الفاظ ہیں:
من لم يصل ركعتي الفجر حتى تطلع الشمس فليصلها
التخفہ ایضاً
جو شخص طلوع آفتاب تک فجر کی سنتیں نہ پڑھ چکا ہو تو وہ (سورج نکلنے پر) پڑھ لے۔
ترمذی شریف والی اس روایت کو شارح ترمذی علامہ عبدالرحمن نے غیر محفوظ قرار دیا ہے۔
التحفہ 493/2
اسی طرح ابن ابی شیبہ میں آثار صحابہ رضی اللہ عنہم کے ضمن میں اور موطا امام مالک میں بلاغات امام صاحب میں سے ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی فجر کی سنتیں فوت ہو گئیں تو انہوں نے وہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھیں۔
موطا مع التنویر الحوالك 138/1، التخفہ 494/2، جامع الاصول 17/7
جواب:
یہ اثر تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے فعل پر موقوف ہے، البتہ پہلی روایت مرفوع ہے مگر اس کا متن غیر محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ امام شوکانی نے نیل الاوطار میں لکھا ہے کہ یہ روایت اس بات پر بھی صریح دلالت نہیں کرتی کہ جو شخص انہیں فرضوں سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو وہ طلوع آفتاب سے پہلے انہیں نہ پڑھے، بلکہ اس حدیث میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ جس نے مطلوبہ سنتیں نہ پڑھی ہوں تو وہ سورج نکلنے کے بعد انہیں پڑھ لے، اور اس میں شک نہیں کہ اگر وہ وقت ادا میں چھوٹ گئی ہوں تو وقت قضاء میں پڑھی جائیں گی۔ اور حدیث مذکور میں ایسی کوئی چیز نہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ ان کا فرضوں کے بعد پڑھنا منع ہے، جیسا کہ دارقطنی و بیہقی اور حاکم کے الفاظ:
من لم يصل ركعتي الفجر حتى تطلع الشمس فليصلها
نیل الاوطار 25/3/2
جس نے سورج طلوع ہونے تک فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں وہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھ لے ۔ سے پتا چلتا ہے۔

فرضوں کے بعد پڑھنے کے دلائل:

علاوہ ازیں، طلوع آفتاب سے پہلے ہی فرضوں کے بعد سنتیں ادا کر لینے کی اجازت اور عدم کراہت کی دلیل خود حدیث شریف میں موجود ہے۔
چنانچہ حدیث شریف میں یہ تو ہے کہ فجر کی نماز سے لے کر طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہیں، لیکن بعض دیگر احادیث سے پتا چلتا ہے کہ یہ حکم عام نفلی نماز کا ہے۔
(1)فجر کی فرض سے پہلے والی سنتیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں، وہ فرضوں کے بعد اور طلوع آفتاب سے پہلے بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔ جیسا کہ ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، ابن حبان، دارقطنی، بیہقی، مستدرک حاکم، مصنف عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ اور مسند احمد سمیت حدیث کی دس معتبر کتابوں میں حضرت قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلے تو نماز (فجر) کی اقامت کہی گئی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہو کر (صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف) رخ انور کیا تو مجھے پھر نماز پڑھتے ہوئے پایا تو ارشاد ہوا:
مهلا يا قيس أصلاتان معا
اے قیس! ٹھہرو، کیا ایک ہی وقت میں دو نمازیں پڑھو گے؟
تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں فجر کی پہلی دو سنتیں نہیں پڑھ سکا تھا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فلا إذن
ابوداؤد مع العون 144/4، ترمذی مع التحفہ 487/2، ابن ماجہ 365/1، ابن خزیمہ 164/2، ابن ابی شیبہ 254/2
تو پھر کوئی حرج نہیں
(2) محلی ابن حزم میں حضرت عطاء کسی انصاری صحابی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز فجر کے بعد نماز پڑھ رہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر اس نے بتایا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں، اب وہی پڑھ رہا ہوں۔
فلم يقل له شيئا
محلی 154/2، تحقیق ڈاکٹر عبد الغفار سلیمان البنداری، مسألہ 308، طبع 1408ھ 1988ء، دار الکتب العلمیہ بیروت
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ نہیں کہا
(3)سنن ابوداؤد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
صلوة الصبح ركعتان
فجر کے تو صرف دو ہی فرض ہیں
تو اس نے جواب دیا کہ میں نے پہلی دو سنتیں نہیں پڑھی تھیں، وہ اب ادا کی ہیں۔
فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم
ابوداؤد 144/4
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے
التمہید لابن عبد البر میں سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
وكان إذا رضي شيئا سكت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کام پر رضامند ہوتے تو خاموشی اختیار فرماتے تھے
(4)صحیح ابن حبان وابن خزیمہ میں ثقہ راویوں کی سند سے مروی ہے۔ حضرت قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر ادا کی اور میں سنتیں نہیں پڑھ سکا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو انہوں نے کھڑے ہو کر دو سنتیں پڑھیں۔
ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر إليه فلم ينكر عليه
ابن خزیمہ 163/2، تحفہ الاحوذی 490/2
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ رہے تھے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکیر نہیں فرمائی (منع نہیں کیا)
(5)مصنف ابن ابی شیبہ میں فرضوں کے بعد اٹھ کر سنتیں پڑھنے والے صحابی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کر چکے تھے اور میں نے ابھی سنتیں نہیں پڑھی تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھانے کے دوران جماعت کے پاس کھڑے ہو کر سنتیں پڑھنا میں نے مکروہ و ناپسندیدہ سمجھا، اور جب نماز ختم ہوئی تو میں نے وہ سنتیں ادا کیں۔ یہ سن کر:
ولم يأمره ولم ينهه
ابن ابی شیبہ 654/2
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو اسے حکم دیا اور نہ ہی منع فرمایا
اسی طرح مجمع الزوائد میں طبرانی کبیر کے حوالہ سے ایک متکلم فیہ روایت ہے جسے علامہ شمس الحق عظیم آبادی شارح ابوداؤد اپنی کتاب اعلام اهل العصر باحكام ركعتي الفجر میں ابن الاثیر کے حوالہ سے لائے اور تصحیح کی ہے۔ اس میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں مسجد میں داخل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو میری طرف متوجہ ہوئے جبکہ میں فجر کی پہلی سنتیں پڑھ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھنے لگے۔ جب میں سنتوں سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ألم تصل معنا؟
کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟
میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! یہ فجر کی دو سنتیں پڑھ رہا ہوں کیونکہ میں گھر سے پڑھ کر نہیں آیا تھا۔ راوی واقعہ صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
فلم يعب ذلك على
اعلام اهل العصر ص 231، علامہ شمس الحق عظیم آبادی
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کی وجہ سے مجھ پر کوئی اعتراض نہیں کیا
ان سب احادیث میں اس بات کی واضح صراحت موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کئی مرتبہ فرضوں کے بعد اٹھ کر فجر کی پہلی سنتیں پڑھی گئیں، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر بھی اعتراض نہیں کیا، بلکہ بعض کو فلا إذن کے کہہ کر جواب دیا کہ تب پھر کوئی حرج نہیں، اور بعض کی وضاحت پر کہ یہ سنتیں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی کا ثبوت ہے۔
حضرت عطاء، طاؤس اور ابن جریج رحمہم اللہ کے ارشاد، جن سے جواز کا پتا چلتا ہے، ان کی تفصیل مصنف عبدالرزاق جلد دوم ص 442 پر دیکھی جاسکتی ہے۔
التمہید لابن عبد البر میں سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
وكان إذا رضي شيئا سكت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کام پر رضامند ہوتے تو خاموشی اختیار فرماتے تھے
ورنہ ناجائز کام ہوتا دیکھ کر خاموشی اختیار کر لینا تو شان نبوت اور مقام رسالت کے منافی ہے۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور روک دیتے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے