اہل سنت کا اصولی عقیدہ:
اهل السنة والجماعة کا اجماعی عقیدہ ہے کہ:
"تمام صحابہؓ عادل ہیں، ان کے باہمی اختلافات میں زبان درازی جائز نہیں، اور ان کے متعلق سکوت اختیار کیا جائے گا۔”
قرآن مجید کا مؤقف:
➊
﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ﴾
(سورة التوبة: 100)
ترجمہ:
اور مہاجرین و انصار میں سب سے پہلے سبقت لے جانے والے اور وہ لوگ جو ان کے پیچھے احسان کے ساتھ آئے، اللہ ان سب سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔
📌 نوٹ: اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ سے (عمومی طور پر) اپنی رضا کا اعلان فرمایا ہے، خواہ وہ کسی گروہ میں رہے ہوں۔
➋
﴿لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ﴾
(سورة الفتح: 29)
ترجمہ:
اللہ نے ان (صحابہ) کو کفار کے دلوں کے لیے غیظ کا باعث بنایا۔
📌 اس آیت سے استدلال:
صحابہؓ سے بغض رکھنا یا ان پر طعن کرنا کافروں کی صفت قرار دی گئی ہے۔
صحیح احادیث سے دلائل:
➊ نبی ﷺ کا فرمان:
"لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ”
(صحیح بخاری: 3673، صحیح مسلم: 2541)
ترجمہ:
میرے صحابہ کو برا مت کہو! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے، تو بھی وہ میرے کسی صحابی کے ایک مُد یا آدھے مُد کے اجر کو نہیں پا سکتا۔
📌 صاف منع کیا گیا ہے صحابہ پر تنقید کرنے سے۔
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"لا تَسُبُّوا أصحابَ محمَّدٍ ﷺ فإنَّ اللهَ قد أمرَ بالاستغفارِ لَهم وعلمَ أنَّهُم سَيُفارقونَ الدُّنيا علَى الإيمانِ”
(المعجم الكبير للطبراني، رقم: 12420)
ترجمہ:
صحابۂ محمد ﷺ کو برا مت کہو، کیونکہ اللہ نے ہمیں ان کے لیے استغفار کا حکم دیا ہے اور جان لیا کہ وہ ایمان پر دنیا سے جائیں گے۔
اہل سنت والجماعت کا اجماعی مؤقف:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ومن انتقص أحداً من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أو أبغضه لحدثٍ كان منه، أو ذكر مساويه كان مبتدعاً حتى يترحم عليهم جميعاً ويكون قلبه لهم سليماً”
(أصول السنة لابن أبي زمنين، ص ٢٧٣)
ترجمہ:
جو رسول اللہ ﷺ کے کسی صحابی کو طعن کا نشانہ بنائے یا ان سے بغض رکھے یا ان کی کوئی برائی بیان کرے، وہ بدعتی ہے، یہاں تک کہ وہ ان سب پر رحمت کی دعا کرے اور دل کو ان کے لیے پاک رکھے۔
جنگ جمل و صفین کے بارے میں مؤقف:
اہل سنت کا مؤقف:
- یہ اجتہادی اختلاف تھا۔
- دونوں فریقین اجتہاد پر تھے، لیکن حق ایک کے ساتھ تھا، مگر دونوں مأجور تھے۔
- کسی کو "ناحق” یا "ظالم” کہنا ممنوع ہے۔
- حضرت علیؓ، حضرت معاویہؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ – سب اہل جنت ہیں۔
امام نوویؒ کا قول:
"واعلم أن سب الصحابة حرام من فواحش المحرمات، سواء من لابس الفتن وغيرهم، لأنهم مجتهدون في تلك الحروب”
(شرح النووي على مسلم، 16/93)
ترجمہ:
جان لو کہ صحابہ کو گالی دینا حرام ہے اور بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہے، خواہ وہ فتنوں میں شریک ہوئے ہوں یا نہ، کیونکہ وہ ان جنگوں میں مجتہد تھے۔
نتیجہ:
🔴 جو شخص جنگ جمل، صفین، یا دیگر واقعات میں کسی صحابی کو گالیاں دیتا ہے، یا اس پر ناحق اور مجرم ہونے کا حکم لگاتا ہے:
وہ خود بدعتی، گمراہ، اور ناپاک العقیدہ ہے۔
بعض فقہاء نے اس پر تکفیر کا فتویٰ بھی دیا ہے (اگر تبرّی کی نیت سے ہو)۔
خلاصہ:
✅ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عادل، قابلِ احترام اور ہمارے دینی آئیڈیل ہیں۔
ان کے باہمی اختلافات اجتہادی تھے۔
ان میں سے کسی کو برا کہنا قرآن، حدیث، اجماعِ امت کے خلاف ہے۔
ایسا کرنے والا خود جہنمی فکر کا پیروکار ہے۔