کیا التقاء ختانین سے غسل واجب ہوتا ہے یا دخول شرط ہے؟
ماخوذ: احکام و مسائل، غسل کا بیان، جلد 1، صفحہ 94

سوال

کیا صرف التقاء الختانین (ختنہ کی جگہوں کا آپس میں ملنا) سے غسل فرض ہو جاتا ہے یا دخول (شرمگاہ کے اندر داخل کرنا) شرط ہے؟ اس کی وضاحت درکار ہے کیونکہ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الاستذکار میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ذکر "تجاوز” جیسے الفاظ کے ساتھ کیا ہے۔ نیز امام نووی رحمہ اللہ نے بھی شرح مسلم میں اسی مفہوم کی بات کہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دخول کے بغیر محض التقاء الختانین سے غسل واجب نہیں ہوتا۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے التقاء ختانین (ختنہ کی جگہوں کے ملنے) اور مس ختاتین (ختنہ کی جگہوں کا چھونا) کے بارے میں وارد روایات کو ذکر کرنے کے بعد فتح الباری میں فرمایا:

"وَالْمُرَادُ بالْمَسِّ وَالْاِلْتِقَائِ الْمُحَاذَاۃُ ، وَیَدُلُّ عَلَیْہِ رِوَایَة التِرْمَذِي بِلَفْظ : إِذَا جَاوَزَ ۔ وَلَیْسَ الْمُرَادُ بِالْمَسِّ حَقِیْقَتہٗ لِاَنَّہ لاَ یُتَصَوَّرُ عِنْدَ غَیْبَة الْحَشْفَة ، وَلَوْ حَصَلَ الْمَسُّ قَبْلَ الْإِیْلاَجِ لَمْ یَجِبِ الْغُسلُ بِالْإِجْمَاعِ”(فتح الباری)

تشریح

التقاء (ختنہ کی جگہوں کا ملنا) اور مس (چھونا) سے مراد صرف جسمانی محاذات (قریبی ملاپ) ہے۔

❀ اس کی تائید ترمذی کی روایت سے ہوتی ہے جس میں الفاظ ہیں: "إِذَا جَاوَزَ” یعنی "جب تجاوز کر جائے”۔

❀ یہاں "مس” کا مطلب لغوی حقیقت میں چھونا نہیں بلکہ جماع کی صورت کا بیان ہے، کیونکہ حشفہ (عضو مخصوص کا اگلا حصہ) جب تک اندر نہ چلا جائے، اس کے بغیر حقیقی دخول کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

اگر دخول سے پہلے صرف چھونے کی حالت ہو جائے تو تمام اہل علم کے اجماع سے غسل فرض نہیں ہوتا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے