وضوء میں پاؤں دھونا یا مسح؟ قرآن و سنت سے تحقیقی جواب
ماخوذ : احکام و مسائل طہارت کے مسائل ج1ص 81

وضوء میں پاؤں پر مسح یا دھونا؟ – ایک تحقیقی وضاحتی جائزہ

شیعہ نقطۂ نظر: پاؤں پر مسح کو واجب قرار دینا

شیعہ حضرات کا مؤقف ہے کہ وضوء میں پاؤں دھونا واجب نہیں بلکہ مسح کرنا ضروری ہے۔ اس حوالے سے وہ سورۃ المائدہ کی آیت وضوء کی گرامر اور تفسیر سے دلائل پیش کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

  • قرآن مجید کی آیت ﴿فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ﴾ میں "وَأَرْجُلَكُمْ” کو "وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ” کے ساتھ جوڑا گیا ہے، جس کی وجہ سے پاؤں پر مسح مراد لیا گیا ہے، نہ کہ دھونا۔
  • تفسیر کبیر (مطبوعہ مصر، جلد ۳، ص ۳۶۸) میں امام رازی نے اس بات کی وضاحت کی کہ "بِرُؤُسِكُمْ” کی زیر باء کی وجہ سے ہے، نہ کہ سین کے نیچے زیر کی وجہ سے، اور یہ جوار کی جر کا اصول لاگو نہیں ہوتا۔
  • تفسیر خازن (لباب التأویل، مطبوعہ المکتبۃ التجارتیہ الکبریٰ مصر، الجزء الثانی، ص ۱۶) اور فتوحات مکیہ (مطبوعہ مصر، جلد اول، ص ۴۴۸) میں بھی اس مسلک کی تائید ملتی ہے کہ "ارْجُلَكُمْ” پر زبر ہو تب بھی مسح مراد لیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ واو معیت ہے۔
  • وہ کہتے ہیں کہ حسنین علیہما السلام قرآن کی تلاوت "أَرْجُلِكُمْ” (لام پر زیر) کے ساتھ کرتے تھے، جو کہ تفسیر جامع البیان (علامہ ابن جریر، مطبوعہ دار المعارف، الجزء العاشر) میں موجود ہے۔
  • مزید تفاسیر جو ان کے موقف کی تائید کرتی ہیں:
    • تفسیر فتح البیان (نواب صدیق حسن بھوپالی قنوجی، الجزء الأول، ص ۲۹۳)
    • ترجمان القرآن (اردو تفسیر، مطبوعہ صدیقی لاہور، جلد ۳، ص ۸۴۲)
    • تفسیر کبیر (فخر الدین رازی، جلد ۳، ص ۳۶۸)

حدیث کی کتب سے دلائل:

شیعہ حضرات کچھ احادیث کی کتابوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے پاؤں پر مسح کرنے کا حکم دیا:

  • الاصابہ فی تمییز الصحابہ (حافظ ابن حجر عسقلانی، جلد اوّل، ص ۱۹۲)
  • تفسیر ابن جریر طبری (جلد ۱۰، ص ۷۵)
  • شرح معانی الآثار (طحاوی، جلد اول، ص ۲۱)
  • نیل الاوطار (شوکانی، جلد اول، ص ۲۱۴)
  • کنز العمال (علی متقی، حدیث نمبر ۲۱۹۳، ص ۱۰۲؛ جلد ۵، حدیث نمبر ۲۴۵۳، ص ۱۴۷)
  • مسند احمد بن حنبل (جلد اول، ص ۱۱۶)

مزید یہ کہ عمدۃ التفسیر (حافظ ابن کثیر، جلد ۴، ص ۹۷) اور تفسیر معالم التنزیل برحاشیہ تفسیر خازن (الجزء الثانی، ص ۱۶) میں بھی ان کے مطابق پاؤں پر مسح کا ذکر ہے۔

ترجمہ قرآن کی دلیل:

رفیع الدین محدث دہلوی کے ترجمہ قرآن کا حوالہ دیا جاتا ہے، جس میں ان کے بقول "دھوؤ” یا "دھو لو” کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ وہ اصرار کرتے ہیں کہ کم از کم چالیس برس پہلے کا نسخہ دیکھا جائے۔

جواب اہلِ سنت کے مطابق (اہلِ حدیث و دیگر علماء کی روشنی میں)

1. آیت وضوء کی گرامر پر غلط فہمی کی وضاحت:

  • شیعہ موقف میں یہ کہا گیا کہ اہلِ سنت آیت میں "بِرُؤُسِكُمْ” کی زیر کو جوار کی زیر قرار دیتے ہیں، اور فخر الدین رازی نے اس دلیل کو باطل قرار دیا ہے۔
  • اہل سنت کی جانب سے واضح کیا گیا کہ وہ "سین کے نیچے زیر” کو جوار کی زیر قرار ہی نہیں دیتے۔
  • نہ ہی فخر الدین رازی نے اس قسم کے عذر کو ذکر کیا اور نہ اس کو کئی وجوہات سے باطل کہا۔
  • شیعہ حضرات سے مطالبہ ہے کہ وہ فخر الدین رازی کی اصل عبارت پیش کریں، جس میں یہ بات ہو کہ "بِرُؤُسِكُمْ میں سین کے نیچے زیر جوار کی ہے” اور اسے کئی وجوہ سے باطل کہا ہو۔

2. حسنین رضی اللہ عنہما کی قراءت اور علی رضی اللہ عنہ کا تصحیح فرمانا:

تفسیر جامع البیان میں جو روایت ذکر کی گئی ہے اس میں علی رضی اللہ عنہ نے حسنین رضی اللہ عنہما کی قراءت "أَرْجُلِكُمْ” (زیر کے ساتھ) کو سن کر اصلاح فرمائی:

"فَقَالَ : وَأَرْجُلَكُمْ، هٰذَا مِنَ الْمُقَدَّمِ وَالْمُؤَخَّرِ مِنَ الْكَلَامِ”

یعنی علی رضی اللہ عنہ نے "وَأَرْجُلَكُمْ” (زبر کے ساتھ) پڑھ کر لقمہ دیا اور وضاحت فرمائی کہ یہاں مقدم و مؤخر کلام کی ترتیب ہے، جس سے مراد پاؤں دھونا ہے۔

  • اس سے نہ صرف زبر والی قراءت کو ترجیح دی گئی بلکہ واو معیت کی توجیہ بھی رد ہو گئی، کیونکہ اس صورت میں مقدم و مؤخر کی گنجائش نہیں رہتی۔

3. صحابہ کرام کا عمل:

شیعہ حضرات کا دعویٰ ہے کہ صحابہ کرام بھی حسنین علیہما السلام کی طرح پاؤں پر مسح کے قائل تھے۔

  • ان سے گزارش ہے کہ تفسیر جامع البیان یا تفسیر فتح البیان سے وہ واضح عبارت پیش کریں جس میں یہ دعویٰ صراحت سے موجود ہو۔

4. تفسیر کبیر اور ترجمان القرآن کے حوالے:

شیعہ مؤلف کا دعویٰ ہے کہ ان تفاسیر میں صحابہ کرام اور امام باقر علیہ السلام کے نزدیک پاؤں پر مسح ہی واجب ہے۔

  • ان سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ ان تفاسیر میں سے وہ اصل عبارت پیش کریں جس میں یہ بات درج ہو۔

5. احادیث سے نبی ﷺ کا پاؤں پر مسح کا حکم:

شیعہ حوالہ جات سے متعلق درخواست کی گئی ہے کہ وہ وہ اصل عبارت پیش کریں جس میں نبی کریم ﷺ نے "پاؤں کے مسح کا حکم” صراحت سے دیا ہو۔

  • مثلاً کنز العمال، مسند احمد، نیل الاوطار، شرح معانی الآثار وغیرہ سے وہ الفاظ نقل کریں: "رسول اللہ ﷺ نے پاؤں کے مسح کا حکم دیا”۔

6. شاہ رفیع الدین دہلوی کا ترجمہ قرآن:

اگر ان کے ترجمہ قرآن میں واقعی "دھوؤ” یا "دھولو” کا لفظ نہیں ہے، تو وہ اصل الفاظ نقل کیے جائیں تاکہ واضح ہو سکے کہ ترجمہ کس مفہوم کی تائید کرتا ہے۔

نتیجہ:

  • اہل سنت کے نزدیک آیت وضوء میں پاؤں دھونا واجب ہے۔
  • علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے زبر والی قراءت کو ترجیح ملتی ہے۔
  • واو معیت والی توجیہ ناقابل قبول ہے کیونکہ اس سے آیت کا نظم ٹوٹ جاتا ہے۔
  • شیعہ دلائل میں بعض باتیں جزوی نقل کی گئی ہیں جبکہ مکمل عبارتوں میں وضاحت موجود ہے جو ان کے دعویٰ کے خلاف جاتی ہے۔

والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے