نماز میں خشوع کے اسباب و ذرائع صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس مشہور سعودی عالم دین شیخ محمد صالح المنجد کی کتاب نماز میں خشوع کیسے حاصل کریں؟ سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ مولانا ابو عمار عُمر فاروق سعیدی نے کیا ہے۔

نماز میں اسباب خشوع کی بحث میں ہمارے سامنے دو باتیں آتی ہیں:
① اول یہ کہ ان اسباب کا اختیار کرنا جن سے خشوع حاصل ہو اور اسے تقویت ملے۔
② دوسرے ایسی چیزوں کا ازالہ اور انہیں دور کرنا جن سے خشوع ختم یا کمزور ہو جاتا ہے۔
ان امور کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے خشوع کے ممد و معاون امور سے تعبیر کیا ہے۔
فرماتے ہیں:
”خشوع کے حصول میں دو چیزیں معاون ہوتی ہیں۔ ایک قوت و توانائی (جو اس خشوع میں معاون ہو) دوسری مشغول کرنے والے امور کا ازالہ یا انہیں کمزور کرنا۔“

پہلا سبب خشوع پیدا کرنے والے اسباب و ذرائع کا طاقتور ہونا:

اس سے مراد بندے کا کوشش کرنا ہے کہ نماز کے دوران میں وہ جو بھی پڑھ رہا ہے اور جو کچھ کر رہا ہے، اسے سمجھے اور اس میں غور و فکر کرے۔ قراءت کی جانے والی آیات، پڑھی جانے والی دعائیں اور اذکار میں تدبر کرے، تفکر کرے اور اپنے ذہن میں یہ بات حاضر رکھے کہ وہ اپنے اللہ تعالیٰ سے سرگوشی اور مناجات میں ہے۔ گویا اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا ہے۔ اور نمازی بندہ یقیناً اپنی نماز کے دوران اپنے رب سے مناجات ہی میں ہوتا ہے۔

احسان :

احادیث میں جس احسان کا ذکر آیا ہے، وہ یہی ہے کہ:
أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك
”تو اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہو سکے تو (یقین کرو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔“
بندے کو نماز میں حلاوت جس قدر زیادہ حاصل ہوگی، اس کی طرف اس کی کشش بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ اور یہ سب ایمان کی قوت و توانائی پر منحصر ہے اور ایمان کے لیے توانائی کے اسباب بہت زیادہ ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
حبب إلى من دنياكم النساء والطيب، وجعلت قرة عيني فى الصلاة
”مجھے تمہاری دنیا میں سے عورتوں اور خوشبو سے محبت ہے، مگر میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہی میں ہے۔“
مسند احمد 128/3, 199, 285، سنن النسائی، کتاب عشرة النساء، باب حب النساء، ح: 3949، المستدرك للحاكم 160/2 ، علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے، صحیح الجامع: 3124
اس حدیث کا معنی و مفہوم ذہن میں رکھنا ازحد ضروری ہے ورنہ کئی طرح کے شبہات آنے لگتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے مجھے مردانگی کی کامل ترین قوت، وجاہت، اور توانائی سے بہرہ ور فرمایا ہے۔ یہ نہیں کہ کمزوری اور ناتوانی کی وجہ سے ازواج کی طرف سے کوئی بے رغبتی ہو جیسے کہ کئی خود ساختہ بزعم خویش صالح بزرگی کے دعویدار اپنی اس توانائی کو عمداً ازحد کمزور کرتے ہیں تاکہ عبادت کی طرف مشغول اور راغب رہ سکیں، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ان سب سے الگ، منفرد بلکہ الٹ تھا۔ باوجودیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مردوں کی توانائی دی گئی تھی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہی تھی نہ کہ عورتیں یا ازواج۔ اور خوشبو کی چاہت بھی صحیح الطبع، سلیم المزاج شخص کو ہوتی ہے۔ ورنہ الرجی اور حساسیت کے مریض خوشبو برداشت نہیں کر سکتے اور یہ ایک بہت بڑی کمزوری، بلکہ بیماری کہی جا سکتی ہے۔
اور دوسری حدیث میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
أرحنا بالصلاة يا بلال
”اے بلال رضی اللہ عنہ! ہمیں نماز کے ساتھ راحت دو۔“ (اذان کہو، نماز پڑھیں)
سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب في صلاة العتمة، ح: 4985, 4986 ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں فرمایا کہ ہمیں اس سے (یعنی نماز کو چھوڑ کر) راحت دو۔

دوسرا سبب: خشوع کے لیے رکاوٹ بننے والے کاموں کو دور کرنا:

عوارض و موانع کا زائل کرنا ہے۔ یعنی انسان کوشش سے ایسے اسباب دفع دور کرے جو اس کا اصل ہدف اور مقصود نہیں ہوتے اور ایسے اسباب حاصل کرے جو نماز کے اصل مقصود کی کشش میں معاون بنیں۔
اور یہ چیزیں بندے کے لیے اس کے اپنے احوال و اعتبارات کے مطابق ہوتی ہیں۔ چنانچہ خیالات اور وساوس کی کثرت کا بنیادی سبب شبہات اور خواہشات کی کثرت ہوتی ہے۔ اور دل ہے کہ اپنی پسندیدہ چیزوں میں اٹکا رہتا ہے، جو اسے اپنی اپنی طرف کھینچتی ہیں یا کئی طرح کی مکروہات اور ناپسندیدہ چیزیں ہوتی ہیں کہ دل نماز کی طرف لگتا ہی نہیں ہے۔
مجموع الفتاوى 606/22-607
اس تقسیم کی بنیاد پر ہم آئندہ سطور میں کچھ ایسی بنیادی باتیں پیش کرنا چاہیں گے جو نماز میں خشوع کے حصول کے لیے ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے