سوال
اگر بلوغت کے بعد سستی یا لاپرواہی کی وجہ سے نمازیں چھوٹ گئی ہوں، اور اب باقاعدہ نماز پڑھنے والے بن چکے ہوں تو کیا ان چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرنا ضروری ہے؟ اگر ہاں، تو کیسے اور کب ادا کی جائیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کسی شخص کی نمازیں بلوغت کے بعد چھوٹ گئی ہوں، تو ان کے بارے میں دو صورتیں ہیں:
پہلی صورت:
◈ نمازیں تھوڑی ہوں اور ان کی ادائیگی میں آسانی ہو۔
◈ ایسی صورت میں انہیں قضا کرنا واجب ہے۔
◈ آدمی کو چاہیے کہ جتنی جلدی ممکن ہو، ان کو ترتیب کے ساتھ ادا کرے۔
دوسری صورت:
◈ اگر نمازوں کی تعداد بہت زیادہ ہو اور مدت اتنی طویل ہو کہ ان کی قضا کرنا مشکل یا ناممکن ہو۔
◈ تو ایسی حالت میں صرف توبہ و استغفار کافی ہے۔
◈ انسان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے معافی مانگے اور آئندہ باقاعدہ نماز کا پابند بن جائے۔
ایک مثال کی وضاحت:
◈ حیض کے دوران عورت پر نماز معاف ہے، کیونکہ ہر مہینے اس کا آنا متوقع ہوتا ہے۔
◈ اگر ہر مہینے کی فوت شدہ نمازوں کو دوبارہ پڑھنے کا حکم ہوتا، تو یہ مشکل اور مشقت والا کام ہوتا۔
◈ اسی لیے شریعت نے رحم کرتے ہوئے معافی عطا فرمائی ہے۔
◈ یہی اصول نماز چھوڑنے والے کے معاملے میں سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ادائیگی ممکن ہو تو قضا کرے، ورنہ توبہ کافی ہے۔
وباللہ التوفیق