فجر کی جماعت کھلنے پر سنتیں پڑھیں یا جماعت میں شامل ہوں؟
ماخوذ : قرآن و حدیث کی روشنی میں احکام و مسائل، جلد 01

سوال

ایک شخص فجر کی نماز کے وقت وضو کر رہا تھا کہ جماعت کھڑی ہو گئی۔ اب اس شخص کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا وہ فجر کی سنتیں ادا کرے یا جماعت میں شامل ہو جائے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات درست ہے کہ فجر کی سنتیں فرض نماز کے بعد بھی ادا کی جا سکتی ہیں، تاہم اقامت کے بعد سنتوں کی ادائیگی کا حکم الگ ہے۔ ذیل میں اس بارے میں تفصیل بیان کی جاتی ہے:

فرض کے بعد سنتیں ادا کرنے کا جواز

◈ فرض نماز کے بعد فجر کی سنتیں ادا کرنا جائز ہے۔
سنن ابی داود اور دیگر کتب میں روایت ہے کہ ایک شخص نے فرض نماز کے بعد اسی وقت سنتیں ادا کیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"کیا اکٹھی دو نمازیں پڑھتے ہو؟”
اس نے عرض کیا:
"یا رسول اللہ ﷺ! میں نے پہلے سنتیں نہیں پڑھی تھیں، اب پڑھ رہا ہوں۔”
آپ ﷺ نے فرمایا:
"فلا إذًا” یعنی اب کوئی حرج نہیں۔

اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فجر کی سنتیں فرضوں کے بعد ادا کرنا جائز ہے۔

امام شوکانیؒ کی تائید

امام شوکانیؒ نے نیل الاوطار، جلد 2، صفحہ 276 میں اس بات کی تائید کی ہے:

«واخرجه ابن حزم فی المحلی من رواية الحسن بن ذکوان عن عطاء بن أبي رباح عن رجل من الأنصار قال رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلاً يصلي بعد الغداةِ فقال: يا رسول الله لم أكن صليت ركعتي الفجر فصليتهما الآن، فلم يقل له شيئاً، قال العراقي: وإسناده حسن.»

یعنی:
◈ ابن حزمؒ نے کتاب المحلی میں روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو فجر کی نماز کے بعد سنتیں پڑھتے ہوئے دیکھا۔
◈ جب اس نے عرض کیا کہ "میں نے فجر کی سنتیں پہلے نہیں پڑھی تھیں، اب ادا کر رہا ہوں”، تو آپ ﷺ نے اسے کچھ نہیں فرمایا۔
علامہ عراقیؒ فرماتے ہیں: اس حدیث کی سند حسن ہے۔

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ فجر کی سنتیں فرض نماز کے بعد ادا کرنا جائز ہے۔

اقامت کے بعد کسی اور نماز کی ممانعت

◈ اقامت کے بعد وہی نماز جائز ہے جس کی اقامت ہوئی ہو۔
◈ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:

"فلا صلاة إلا المكتوبة”
اور ایک روایت میں ہے:
"إلا التي أقيمت”
(منتقى: باب النهى عن التطوع بعد الإقامة)

یعنی اقامت کے بعد صرف وہی نماز جائز ہے جس کی اقامت کی گئی ہو۔

بیہقی کی روایت کا ضعف

◈ بعض لوگ اقامت کے بعد فجر کی سنتوں کے جواز پر بیہقی کی یہ روایت پیش کرتے ہیں:

"إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة إلا ركعتي الصبح”

یعنی اقامت کے بعد صرف فرض نماز جائز ہے، لیکن فجر کی دو سنتیں مستثنیٰ ہیں۔

◈ مگر یہ استدلال غلط ہے کیونکہ:
بیہقیؒ نے خود لکھا ہے:

"هذه الزيادة لا أصل لها”

یعنی "مگر فجر کی دو سنتیں” والا اضافہ بے اصل ہے، اس کا کوئی ثبوت نہیں۔

◈ اس روایت کی اسناد میں حجاج بن نصر اور عباد بن کثیر دو راوی ضعیف ہیں۔
(بحوالہ نیل الاوطار)

فجر کی سنتوں کی ممانعت کی صریح روایت

◈ بعض روایات میں اقامت کے بعد فجر کی سنتیں پڑھنے سے واضح ممانعت بھی آئی ہے، جیسے کہ:

"فلا صلاة إلا المكتوبة”

ابن عدیؒ نے اس حدیث کے ساتھ یہ الفاظ روایت کیے ہیں:

"قيل يا رسول الله ولا ركعتي الفجر؟ قال: ولا ركعتي الفجر”
(ابن عدیؒ فی ترجمة يحيى بن نصر بن حاجب، اسناد حسن، عون الباری، شرح بخاری، جلد 2، صفحہ 315)

یعنی:
◈ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: "کیا فجر کی دو سنتیں بھی نہ پڑھے؟”
◈ آپ ﷺ نے فرمایا: "فجر کی سنتیں بھی نہ پڑھے”۔

اس حدیث کی اسناد حسن ہے۔

بیہقی کی روایت کا دوسرا تجزیہ

نیل الاوطار، جلد 2، صفحہ 331 میں بھی فجر کی سنتوں کی ممانعت والی روایت ذکر کی گئی ہے، اور حوالہ بیہقی کا دیا گیا ہے۔
◈ اس روایت کی اسناد کے متعلق یہ کہا گیا ہے:

"وفي إسناده مسلم بن خالد الزنجي وهو متكلم فيه، وقد وثقه ابن حبان واحتج في صحيحه”

یعنی:
◈ اس سند میں مسلم بن خالد الزنجی موجود ہے، جن کے بارے میں کچھ اختلاف ہے۔
◈ لیکن ابن حبان نے انہیں ثقہ کہا ہے اور اپنی کتاب صحیح میں ان کی حدیث کو قابل استدلال مانا ہے۔

خلاصہ

◈ اقامت کے بعد فجر کی سنتیں پڑھنا منع ہے۔
◈ اگر سنتیں چھوٹ جائیں تو فرض نماز کے بعد انہیں ادا کرنا جائز ہے۔

وباللہ التوفیق

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1