استماع، انصات، سکوت اور اسماع کا مکمل لغوی و شرعی فرق
ماخوذ: قرآن و حدیث کی روشنی میں احکام و مسائل – جلد 01

سوال

استماع، اسماع، انصات اور سکوت – ان الفاظ میں کیا فرق ہے؟ ان کے حقیقی اور مجازی معانی کیا ہیں؟ نیز جب قرآن میں فَاسْتَمِعُوا کا حکم دیا جا چکا ہے تو پھر انصتوا کہنے کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن و حدیث کی روشنی میں ان چاروں الفاظ کی وضاحت درج ذیل ہے:

1. استماع (کان لگا کر سننا)

استماع اس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی شخص پوری توجہ اور ارادہ کے ساتھ کوئی بات سنے۔

◈ لغوی فرق کے حوالے سے لکھا گیا ہے:
«الأول (الاستماع) يقال لما کان يقصد لانه لايکون الا بالاصغاء وهو الميل، والسماع يکون بقصد و دونه»
یعنی استماع وہ سننا ہے جو قصد و ارادہ کے ساتھ ہو، اور اس کے بغیر ممکن نہیں، جب کہ سماع کبھی ارادے سے اور کبھی بغیر ارادے کے بھی ہو سکتا ہے۔

◈ بعض لغوی تعریفوں کے مطابق:
«کل ما يستلذ الانسان من صوت طيب»
یعنی انسان جس خوش آواز کو سن کر لذت محسوس کرے، وہ سماع کہلاتا ہے۔

نوٹ: استماع کے لیے خاموشی ضروری نہیں ہے۔

2. انصات (توجہ سے خاموشی کے ساتھ سننا)

انصات میں صرف سننا کافی نہیں بلکہ مکمل خاموشی بھی لازم ہے۔
◈ لغت میں بیان کیا گیا ہے:
«نصت نصتا وانصت له سکت مستمعا لحديثه»
یعنی خاموشی سے کسی کی بات سننا ہی انصات ہے۔

قرآن مجید میں استعمال:

◈ چونکہ کفار جب قرآن سنتے تھے تو شور مچاتے تاکہ قرآن کا اثر دل پر نہ پڑے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا
یعنی قرآن کو کان لگا کر سنو اور خاموش رہو۔ تاکہ ہو سکتا ہے کہ تم پر اللہ کی رحمت نازل ہو۔

سورہ احقاف کی آیت:

﴿ وَإِذۡ صَرَفۡنَآ إِلَيۡكَ نَفَرٗا مِّنَ ٱلۡجِنِّ يَسۡتَمِعُونَ ٱلۡقُرۡءَانَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوٓاْ أَنصِتُواْۖ﴾
– سورة الاحقاف 29
یعنی: ’’اور یاد کرو! جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وه قرآن سنیں، پس جب (نبی کے) پاس پہنچ گئے تو (ایک دوسرے سے) کہنے لگے خاموش ہو جاؤ،‘‘

یہاں بھی استماع کے بعد انصات کا اضافہ کیا گیا تاکہ واضح ہو جائے کہ صرف سننا کافی نہیں، بلکہ خاموشی بھی ضروری ہے۔

3. حدیث میں انصات کا استعمال

◈ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«وَإِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ يَوْمَ الجُمُعَةِ أَنْصِتْ فَقَدْ لَغَوْتَ»
یعنی: "جب امام خطبہ دے رہا ہو اور تم اپنے ساتھی سے کہو ‘خاموش رہو’ تو تم نے لغو حرکت کی۔”

یہاں بھی انصات اس معنی میں آیا ہے کہ دوسرا شخص جو بات کر رہا ہے، اسے مکمل خاموشی سے سننا چاہیے۔

4. سکوت (اپنی بات سے خاموشی اختیار کرنا)

سکوت وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں انسان اپنی بات بند کر کے خاموش ہو جائے۔

◈ عام محاورہ میں کہا جاتا ہے:
’’تکلم الرجل ثم سکت‘‘
یعنی: "آدمی نے بات کی اور پھر خاموش ہو گیا۔”

◈ مزید وضاحت کے لیے کہا جاتا ہے:
’’فاذا انقطع کلامه فلم يتکلم أو أُبهم، قيل: سكت‘‘
یعنی: "جب اس کا کلام بند ہو جائے اور وہ مزید نہ بولے تو کہا جاتا ہے کہ وہ چپ ہو گیا۔”

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت:

◈ رسول اللہ ﷺ کی نماز کے عمل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
«كان يسكت بين التكبير وبين القراءة»
یعنی: "آپ ﷺ تکبیر اور قراءت کے درمیان خاموش ہوتے تھے۔”

◈ پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
«يا رسول الله! إسكاتك بين التكبير والقراءة؟»
اس موقع پر بھی انصات کا لفظ نہیں آیا بلکہ سکوت استعمال ہوا۔

5. انصات اور سری نماز

انصات صرف اسی خاموشی کو کہا جاتا ہے جو کسی اور کی بات سننے کے لیے اختیار کی جائے۔
◈ بعض لوگ سری نماز میں مقتدی کی قراءت کو فاستمعوا کی آیت سے منع کرتے ہیں، حالانکہ یہ لغوی اور اصطلاحی غلطی ہے۔
◈ ان کا عربی اصطلاح سے ناواقف ہونا ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ انصات وہ خاموشی ہے جو دوسرے کی بات کو سننے کے لیے اختیار کی جاتی ہے۔

6. سکوت کا مجازی معنی

سکوت کا مجازی معنی آہستہ بات کرنے پر بھی آتا ہے۔
◈ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی آہستہ قراءت کو سکوت کہا گیا، کیونکہ آپ بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے۔

وبالله التوفيق

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1