الولاء والبراء: دوستی و دشمنی کا اسلامی معیار قرآن و حدیث کی روشنی میں
تالیف: شیخ صالح بن فوزان بن عبداللہ الفوزان ,، ترجمہ: شیخ عبداللہ ناصر الرحمانی

الحمد لله والصلاة والسلام على نبينا محمد صلى الله عليه وسلم وآله وصحبه ومن اهتدى هداه وبعد:
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے بعد ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دوستوں کے ساتھ محبت اور اس کے دشمنوں کے ساتھ عداوت و نفرت قائم کی جائے۔ چنانچہ عقیدہ اسلامیہ جن قواعد پر قائم ہے، ان میں سے ایک عظیم الشان قاعدہ یہ ہے کہ اس پاکیزہ عقیدے کو قبول کرنے والا ہر مسلمان اس عقیدے کے ماننے والوں سے دوستی اور نہ ماننے والوں سے عداوت قائم و بحال رکھے۔ یہ شرعی فریضہ ہے کہ ہر صاحبِ توحید سے محبت کرے اور اس کے ساتھ دوستی کا رشتہ استوار رکھے، اسی طرح ہر شرک کرنے والے سے بغض رکھے اور اس کے ساتھ عداوت کی راہ پر قائم رہے۔
سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کا یہی اسوہ حسنہ ہمارے لیے بطورِ خاص قرآن حکیم میں نقل کیا گیا ہے اور ہمیں ملت ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ﴾
(الممتحنہ: 4)
ترجمہ: تحقیق تمہارے لیے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے رفقاء میں ایک اچھا نمونہ ہے، جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا کرتے ہو، ان سب سے بے تعلق اور ناراض ہیں، ہم تمہاری اس روش کا انکار کرتے ہیں اور جب تک تم ایک اللہ تعالیٰ وحده لا شريك له پر ایمان نہیں لے آتے، ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت اور بغض قائم رہے گا۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی بھی یہی تعلیم ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾
(المائدہ: 51)
ترجمہ: اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ، یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو کوئی تم میں سے انہیں دوست بنائے گا وہ بلاشبہ انہی میں سے ہوگا۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
یہ آیت مبارکہ بطورِ خاص اہلِ کتاب سے دوستی و تعلق قائم کرنے کی حرمت و ممانعت پر دلیل ہے۔ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر ہر قسم کے کافروں سے دوستی قائم کرنے کو حرام قرار دیا ہے۔ فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ﴾
( الممتحنہ: 1)
ترجمہ: اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست مت بناؤ۔
بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو ایسے کفار کی دوستی بھی مسلمانوں پر حرام قرار دے دی ہے، جو خونی رشتے اور نسب کے اعتبار سے انتہائی قریب ہوں۔ فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾
(التوبة:8)
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تمہارے (ماں) باپ اور( بہن) بھائی ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کرتے ہیں، تو ان سے دوستی مت رکھو اور تم میں سے جو بھی ایسوں سے دوستی رکھے گا وہ یقیناً ظالم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ﴾
( المجادلہ: 22)
ترجمہ: جو لوگ اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، انہیں تم ایسے لوگوں سے دوستی رکھنے والا نہیں پاؤ گے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھتے ہوں، خواہ وہ ان کے (ماں) باپ، اولاد، (بہن) بھائی یا خاندان کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔
آج اس عظیم شرعی قاعدے سے بہت سے لوگ غافل اور ناآشنا ہیں۔ حتیٰ کہ میں نے ایک عرب ریڈیو پر ایک ایسے شخص کو، جو اپنے آپ کو عالم اور داعی سمجھتا ہے، یہ کہتے سنا کہ نصاریٰ ہمارے بھائی ہیں۔ ہائے افسوس! یہ بات کتنی خطرناک ہے۔
برادرانِ اسلام!
جس طرح اللہ تعالیٰ نے کفار اور عقیدہ اسلامیہ کے دشمنوں کی دوستی کو حرام قرار دیا ہے، اسی طرح ان کے مقابلے میں مسلمانوں (مومنوں) سے دوستی قائم کرنے اور محبت رکھنے کو واجب قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ‎. وَمَن يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ.﴾
( المائدہ: 55-56)
ترجمہ: تمہارے دوست تو صرف اللہ تعالیٰ، اس کا رسول اور مومن لوگ ہیں، جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور رکوع کرنے والے ہیں۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور مومنوں سے دوستی کرے گا (تو وہ اللہ تعالیٰ کی جماعت میں شامل ہے )اور اللہ تعالیٰ کی جماعت ہی غالب ہو کر رہنے والی ہے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾
(الفتح: 29)
ترجمہ: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں، وہ کفار پر بہت سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں۔
نیز فرمایا:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾
( الحجرات: 10)
ترجمہ: بے شک مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
ثابت ہوا کہ دین اور عقیدے کا تعلق اس قدر مضبوط اور مستحکم ہے کہ اس نے تمام اہلِ ایمان کو اخوت اور بھائی چارے کے انتہائی پاکیزہ رشتے سے منسلک کر دیا ہے، خواہ ان کے حسب و نسب، قوم و وطن، ذات و برادری اور زمان و مکان میں کتنی ہی دوری اور تفاوت ہو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾
(الحشر: 10)
ترجمہ: اور ان کے لیے بھی جو (مہاجرین) کے بعد آئے اور دعا کرتے ہیں کہ ہمارے پروردگار! ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے، جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں، گناہ معاف فرما اور مومنوں کے واسطے ہمارے دلوں میں کینہ بغض نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے رب! بے شک تو بڑا شفقت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

لہٰذا تمام مومنین اول تا آخر، زمان و مکان کی دوریوں سے بالکل بے نیاز، ایک دوسرے سے رشتہ اخوت سے منسلک ہیں، ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی اقتداء کرتے ہیں، ایک دوسرے کے لیے دعائیں مانگتے ہیں اور استغفار کرتے رہتے ہیں۔

کفار سے محبت کی علامات:

دوستی اور دشمنی کی ان حدود کی معرفت کے بعد معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں دوستی اور دشمنی کی بڑی واضح علامات بیان کی گئی ہیں۔ (ان علامات کو پیش نظر رکھ کر ہر شخص اپنے آپ کو تول سکتا ہے کہ وہ کس قدر اسلام کے دوستی اور دشمنی کے معیار پر پورا اتر رہا ہے۔)
اولاً:
ہم ان امور کو بیان کرتے ہیں جو کفار سے دوستی اور محبت کی دلیل ہیں۔ جو درج ذیل ہیں:

(1)لباس و گفتار کی تقلید:

یعنی ہم اپنے لباس و گفتار میں جس قوم کی نقل کریں گے تو گویا ان سے اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں، کیونکہ لباس و گفتار وغیرہ میں کسی قوم کی تشبیہ ان سے محبت ہی کی دلیل ہے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"من تشبه بقوم فهو منهم”
ترجمہ: جو کسی قوم کی نقالی کرے گا، وہ انہی میں سے شمار ہوگا۔
لہٰذا کفار کی وہ عادات، عبادات، اخلاق اور طور طریقے جو ان کا خاصہ بن چکے ہیں، ان کی تشبیہ اختیار کرنا حرام ہے۔ مثلاً: داڑھی منڈوانا، لمبی موچھیں رکھنا، بلا ضرورت ان کی زبان بولنا، لباس میں ان کی نقل اتارنا اور کھانے پینے میں ان کے طور طریقے اختیار کرنا وغیرہ۔

(2)ان کے علاقوں میں اقامت اختیار کرنا:

یعنی کفار کے علاقوں میں مستقل اقامت اختیار کر لینا اور مسلمانوں کے علاقوں میں سکونت پذیر ہونے سے گریز کرنا بھی ان سے محبت کی دلیل ہے۔
حالانکہ محض اپنے دین کے تحفظ کے خاطر کفار کے علاقوں سے بچ نکلنا اور مسلمانوں کی سرزمین میں سکونت اختیار کرنا شرعی مطلوب ہے۔ بلکہ اس عظیم الشان مقصد کے حصول کے لیے ہجرت کرنا ہر مسلمان کا شرعی فریضہ ہے، کیونکہ سرزمین کفر میں سکونت پذیر ہونا کفار سے محبت کی دلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے ایک مسلمان کا اگر وہ ہجرت پر قادر ہو کفار کے درمیان رہنا حرام قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
‏ ﴿إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ‎.‏ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا.﴾
(4-النساء:97،98)
ترجمہ: جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز و ناتواں تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کا ملک فراخ نہیں تھا کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ تو ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بُری جگہ ہے۔ ہاں جو مرد، عورتیں اور بچے بے بس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی راستہ جانتے ہیں، قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسوں کو معاف کر دے، اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ سرزمین کفر میں سکونت پذیر ہونے والوں کا اللہ تعالی کے ہاں کوئی عذر قابل قبول نہیں ہے البتہ جو لوگ کمزور ہیں اور ہجرت کی طاقت نہیں رکھتے انہیں کچھ چھوٹ ہے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی ناقابل گرفت ہے جن کے سرزمین کفر میں رہنے میں کوئی دینی مصلحت ہو۔مثلا : ان علاقوں میں دعوت الی اللہ اور اسلام کی نشر و اشاعت کا کام کر رہے ہوں۔ (بلکہ یہ تو عظیم جہاد ہے۔)

(3)محض تفریح کی خاطر کفار کے علاقوں کا سفر اختیار کرنا:

کفار کے علاقوں کا سفر کرنا ناجائز ہے، الا یہ کہ کوئی شدید ضرورت ہو، مثلاً علاج، تجارت کی غرض سے یا ایسے مفید قسم کے مضامین کی تعلیم کی خاطر جن کا حصول اس سفر کے بغیر ممکن نہ ہو۔ ان حالات میں کفار کے علاقوں میں بقدر ضرورت سفر کر کے جانا جائز ہے، اور جب ضرورت پوری ہو جائے تو فوری طور پر اپنے علاقوں کی طرف رجوع واجب ہے۔
لیکن اس سفر کے جائز ہونے کی شرط یہ ہے کہ سفر کرنے والے پر اپنے دین اسلام کا رنگ غالب ہو۔ شر اور فساد کے مقامات سے دور اور نفور ہو، دشمن کے مکر و فریب سے چوکنا اور محتاط ہو۔ اسی طرح کفار کے علاقوں کی طرف دعوتِ الی اللہ اور تبلیغِ اسلام کے لیے سفر کرنا جائز بلکہ بعض حالات میں واجب ہے۔

(4)مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کی مدد کرنا اور ان کا دفاع کرنا:

یہ بھی کفار سے محبت کی علامت ہے، بلکہ یہ فعل قبیح انسان کو اسلام کی دولت سے محروم کر دیتا ہے اور اسے مرتد بنانے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ ہم اس مرض سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔

(5)کفار سے مدد چاہنا اور ان پر اعتماد کرنا، اور انہیں مسلمانوں کے خفیہ رازوں سے متعلق عہدوں پر فائز کرنا، اور انہیں اپنا ھمراز یا مشیر بنانا:

یہ سب ان کی محبت کی علامات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کریں:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ ‎. هَا أَنتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۚ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ‎.‏ إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِن تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا.﴾
( آل عمران: 118 تا 120)
ترجمہ: مومنو ! کسی غیر مذہب کے ادمی کو اپنا رازداں نہ بناؤ ،یہ لوگ تمہاری خرابی( اور فتنہ انگیزی کرنے) میں کسی طرح کوتاہی نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ (جس طرح ہو) تمہیں تکلیف پہنچے ۔ ان کی زبانوں سے تو دشمنی ظاہر ہو چکی ہے اور جو (کینے) ان کے سینوں میں مخفی ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں۔اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دی ہیں۔ دیکھو تم ایسے (صاف دل) لوگ ہو کے ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہو،حالانکہ وہ تم سے دوستی نہیں رکھتے اور تم سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو( اور وہ تمہاری کتاب کو نہیں مانتے )اور جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے ائے اور پھر جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصہ کے سبب انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں ۔ان سے کہہ دو کہ (بدبختو ! ) اپنے غصے ہی میں مر جاؤ۔اللہ تعالی تمہارے دلوں کی باتوں سے خوب واقف ہے۔ اگر تمہیں آسودگی حاصل ہو تو ان کو بری لگتی ہے اور اگر رنج پہنچے تو وہ خوش ہوتے ہیں۔
ان آیات کریمہ نے واضح کر دیا کہ کفار کے دلوں میں مسلمانوں کے لیے کس قدر کینہ اور بغض چھپا ہوا ہے۔
وہ مسلمانوں کے خلاف مکر و خیانت کی تدبیریں اور پالیسیاں مرتب کرتے رہتے ہیں۔ ہر حیلہ اور وسیلہ بروئے کار لا کر مسلمانوں کو مبتلائے ضرور رکھنا ان کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔ مکرو فریب سے مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد ان کی مضرت و تذلیل کی منصوبہ بندی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
امام احمد رحمہ اللہ نے ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا” میرے پاس ایک عیسائی کاتب ہے“ تو امیر المؤمنین نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ تمہیں برباد کرے۔ عیسائی کاتب رکھنے کی کیا سوجھی کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا !اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم نے کوئی مسلمان کا تب کیوں نہ رکھا؟ میں نے کہا: امیر المؤمنین اس کا دین اس کے لئے ہے۔ مجھے تو اپنی کتابت چاہئیے۔ فرمایا:
جنہیں اللہ تعالیٰ نے ذلیل ورسوا کر دیا ہے میں انہیں عزت و کرامت نہیں دے سکتا اور جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہم سے دور کر دیا۔ میں انہیں اپنے سے قریب نہیں کر سکتا“
مسند احمد اور صحیح مسلم میں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر کے لئے نکلے۔ تو ایک مشرک آدمی بھی ساتھ ہو لیا اور حرہ مقام پر ملاقات کرتے ہوئے اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ میں شرکت کی خواہش ظاہر کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم واپس لوٹ جاؤ۔ ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیا کرتے۔
ان دلائل سے واضح ہوا کہ مسلمانوں کے امور سے متعلق کفار کو کسی منصب پر فائز کرنا حرام ہے، کیوں کہ وہ اس طرح مسلمانوں کے حالات اور خفیہ بھیڈ بڑی آسانی سے حاصل کر لیں گے اور نتیجہ ان کی ضرر رسانی کا سامان تیار کرنے کی سازشیں کرنے لگیں گے۔
آج کل کفار کو مسلمانوں کی سرزمین ،حرمین شریفین پر مزدور، کاریگر، ڈرائیور یا خدمت گار کے طور پر لایا جا رہا ہے اور وہ مسلمانوں کے ساتھ ان کے علاقوں میں مخلوط زندگی بسر کر رہے ہیں بلکہ گھروں میں مربی کی حیثیت سے رکھا جا رہا ہے اور وہ مسلمانوں کی فیملیوں کے ساتھ مخلوط زندگی گزار رہے ہیں۔ آج کے دور میں یہ روش حرمت اور انجام کار کی تباہی کے اعتبار سے سابقہ روش سے کوئی مختلف نہیں ہے۔

(6) کفار کے ہاں مروجہ تاریخ کو اپنانا :

یعنی جو تاریخ بلاد کفر میں رائج و مستعمل ہے، اسے اختیار کر لینا بھی ان سے محبت کی دلیل ہے۔ پھر خاص طور پر ایسی تاریخ جو ان کی کسی مناسبت یا عید کی ترجمانی کر رہی ہو، مثلاً: عیسوی تاریخ
عیسوی تاریخ:
عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی یادگار کے طور پر ہے، یہ تاریخ عیسائیوں نے خود اختراع کی ہے، عیسیٰ علیہ السلام کے دین سے اس تاریخ کا کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا اس تاریخ کا رواج و استعمال، ان کے اشعار اور عید کو زندہ کرنے میں ان کے ساتھ مشارکت کے مترادف ہے۔
امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے عہد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے مسلمانوں کے لئے تاریخ مقرر کرنے کا ارادہ کیا تو کفار کی مروجہ تمام تاریخوں کو ٹھکرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی تاریخ مقرر کر دی۔
اس سے ثابت ہوا کہ تاریخ کے تقرر اور اس قسم کے دیگر کفار کے خصائص میں ان کی مخالفت کرنا ایک شرعی فریضہ ہے۔ واللہ المستعان

(7) کفار کے تہوار میں شرکت

کفار کے تہواروں میں شرکت کرنا یا ان کے تہواروں کے انعقاد میں ان کے ساتھ تعاون کرنا یا ان کے تہواروں کی مناسبت سے انہیں مبارک باد کے پیغامات بھیجنا، یہ سب ان سے دوستی اور محبت کے نشانات ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفات میں ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے:
﴿وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ﴾ (الفرقان:72)
اي من صفات عباد الرحمن انهم لا يحضرون اعياد الكفار ( الزور (یعنی جھوٹ) میں ان محفلوں میں شریک ہونا بھی شامل ہے جو بدعت پر قائم ہیں، اس قسم کی محفلیں کذب کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے دین کے مخالف اور معاند ہیں اور قطعی طور پر دین کے مفاد میں نہیں ہیں۔)
جس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ رحمٰن کے نیک بندے کفار کے تہواروں اور عیدوں میں حاضر نہیں ہوتے۔

(8) کفار کی مدح سرائی اور ان کی تہذیب و تمدن کی تعریف و تشہیر

یعنی کفار کی مدح سرائی اور ان کی تہذیب و تمدن کی تعریف و توصیف اور ان کے عقائد باطلہ کو صرفِ نظر کرتے ہوئے ان کے اخلاق اور مہارت سے خوش ہونا، یہ سب ان کی محبت کی علامات ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ﴾ (طہ:131)
ترجمہ: (اور کئی طرح کے لوگوں کو جو ہم نے دنیا کی زندگی میں آرائش کی چیزوں سے بہرہ مند کیا ہے، تا کہ ان کی آزمائش کریں، ان پر نگاہ نہ کرنا۔ اور تمہارے پروردگار کی عطا فرمائی ہوئی روزی بہت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔)
لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ مسلمان اپنی قوت اور استحکام کے اسباب ہی چھوڑ کر بیٹھ جائیں بلکہ ان کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ (8-الأنفال:6)(8-الأنفال:60)مختلف صنعتوں کی تعلیم حاصل کریں، اقتصادیات کو مستحکم کرنے والی جائز راہیں اپنائیں اور دور حاضر کے تقاضوں کے ہم آہنگ عسکری اور حربی اسالیب کی تعلیم حاصل کریں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ﴾ (الانفال:60)
ترجمہ: (جس قدر طاقت ہو تیر اندازی (وغیرہ) سیکھ کر کفار کے مقابلے میں تیار رہو)
کائنات کے یہ تمام وسائل و منافع در حقیقت مسلمانوں ہی کے لئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ (الاعراف:32)
ترجمہ: (پوچھو کہ جو زینت و آرائش اور کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہیں، ان کو حرام کس نے کیا ہے؟ کہہ دو! کہ یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان لانے والوں کے لئے ہیں اور قیامت کے دن خالص انہی کا حصہ ہوں گی) ۔
نیز فرمایا:
﴿وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ﴾ (الجاثیہ:13)
ترجمہ: (اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے سب کو اپنے حکم سے تمہارے ہی واسطے مسخر کیا ہے۔)
﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾ (البقرہ:29)
ترجمہ: (اور اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے سب کا سب تمہارے ہی واسطے پیدا کیا ہے)۔
تو پھر یہ ضروری ٹھہرا کہ عقلمان ان منافعتوں اور قوتوں کے حصول میں سب سے آگے ہوں اور کفار کو یہ چیزیں حاصل کرنے کا موقع فراہم نہ کریں۔ یہ تمام کارخانے، فیکٹریاں مسلمانوں ہی کا حق اولین ہے۔

(9) کفار کے نام رکھنا:

بعض مسلمان اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے اجنبی نام رکھتے ہیں اور اپنے آباؤ واجداد کے نام، یا ایسے نام جو ان کے معاشرے میں معروف ہوتے ہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خير الأسماء عبد الله وعبد الرحمن
ترجمہ: (بہترین نام عبد اللہ اور عبدالرحمن ہیں)۔
ناموں کی اس تبدیلی کے مرض کے عام ہونے کی وجہ سے باقاعدہ ایسی مسلمان نسلیں وجود میں آگئیں، جو مغربی ناموں کی حامل ہیں۔ نتیجہ سابقہ نسلوں سے رشتہ و ناطہ توڑ بیٹھیں اور ایسے خاندانوں سے تعارف کا سلسلہ بھی مفقود ہو گیا، جنہوں نے اپنے مخصوص اسلامی ناموں کو اپنائے رکھا۔

(10) کفار کے حق میں دعا کرنا:

کفار کے حق میں مغفرت و رحمت کی دعا کرنا بھی ان سے محبت کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قرار دیا ہے اور فرمایا:
﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾ ‎(التوبہ:113)
ترجمہ: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ لوگ جو ایمان لائے، کو لائق نہیں، کہ جن پر ظاہر ہو گیا ہو کہ مشرکین اہل دوزخ ہیں تو ان کے لئے بخشش مانگیں۔ خواہ وہ ان کے قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں۔)
اس دعا کی حرمت کی وجہ بالکل ظاہر ہے، اور وہ یہ کہ دعا کرنا ان سے محبت کی نشانی ہے۔ نیز یہ ظاہر کرتی ہے کہ مشرکین بھی صحیح عقیدے پر قائم ہیں۔ (حالانکہ شرک اور مشرک انتہائی بخس اور پلید ہیں)
ثانیاً

مومنین سے محبت کی علامات

بہت سے امور ہیں جو مسلمانوں سے محبت کی علامت قرار پاتے ہیں۔ ان میں بعض درج ذیل ہیں۔

(1) سرزمین کفر کو چھوڑ کر مسلمانوں کے علاقوں کی طرف منتقل ہونا

ہجرت کا معنی ہے اپنے دین کی سلامتی اور تحفظ کی خاطر کفار کی سرزمین کو چھوڑ کر مسلمانوں کے علاقوں میں منتقل ہو جانا۔ یہ ہجرت جس میں یہ عظیم الشان مقصد کارفرما ہے تا قیامت باقی ہے اور واجب بھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس شخص سے برائت اور ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے جو مشرکیین کے درمیان مقیم ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان پر کفار کی سرزمین میں رہنا حرام ہے، إلا یہ کہ وہ ہجرت کی طاقت نہ رکھتا ہو یا پھر اس کے سرزمین کفر میں رہنے کی کوئی دینی مصلحت ہو ۔ مثلاً دعوت الی اللہ، یا تبلیغ دین وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ‎.‏ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا ‎. فَأُولَٰئِكَ عَسَى اللَّهُ أَن يَعْفُوَ عَنْهُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَفُوًّا غَفُورًا .﴾ (النساء:97-99)
۲ترجمہ: (جو لوگ اپنے جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں، کہ تم کس حال میں تھے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز و ناتواں تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کا ملک فراخ نہیں تھا، کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ تو ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے۔ ہاں جو مرد اور عورتیں اور بچے بے بس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی راستہ جانتے ہیں، قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسوں کو معاف کر دے، اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔)

(2) مسلمانوں کے ساتھ حسن تعاون

مسلمانوں کی مدد اور ان کی دینی و دنیاوی ضروریات میں جان و مال اور زبان کے ساتھ معاونت بھی محبت کی ایک نشانی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ (التوبة:71)
ترجمہ: (اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔)
اور فرمایا:
﴿وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ﴾ (الأنفال:73)
ترجمہ: (اور اگر وہ تم سے دین میں مدد طلب کریں تو تم پر ان کی مدد کرنا واجب ہے الا یہ کہ وہ ایسی قوم کے خلاف مدد طلب کریں جس کا تمہارے ساتھ کوئی معاہدہ ہے۔)

(3) مسلمانوں کی تکلیف پر غمزدہ ہونا اور ان کی خوشی پر خوش ہونا

یہ بھی باہمی محبت اور الفت کی ایک زبردست نشانی ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
مثل المسلمين فى توادهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد الواحد إذا اشتكىٰ منه عضو تداعىٰ له سائر الجسد بالسهر والحمىٰ
ترجمہ: (باہمی الفت و محبت اور دوستی و شفقت کے لحاظ سے مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہو تو سارا جسم بخار زدہ اور بیدار رہ کر اس تکلیف کا اظہار کرتا ہے۔)
ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
ایک مومن دوسرے مومن کے لئے ایک عمارت کی مانند ہے، جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کر کے یہ مثال سمجھائی۔

(4) جذبہ خیرخواہی

مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی، ان کے لئے ہر قسم کی بھلائی چاہنا اور ہر قسم کی دھوکہ دہی اور مکر و فریب سے گریز کرنا بھی ان کے ساتھ محبت کی علامت ہے۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لا يؤمن أحدكم حتىٰ يحب لأخيه ما يحب لنفسه
ترجمہ: (تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے (مسلمان) بھائی کے لئے وہ چیز پسند نہ کرنے لگے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔)
نیز فرمایا:
المسلم أخو المسلم لا يحقره ولا يخذله ولا يسلمه بحسب امرئ من الشر أن يحقر أخاه المسلم كل المسلم على المسلم حرام دمه وماله وعرضه
ترجمہ: (ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ تو وہ اسے حقیر سمجھتا ہے، نہ ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے تکلیفوں کا نشانہ بننے کے لئے چھوڑتا ہے۔ آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔)
ایک اور حدیث میں فرمایا:
لا تباغضوا ولا تدابروا ولا يبع بعضكم علىٰ بيع بعض وكونوا عباد الله إخوانا
ترجمہ: (آپس میں بغض نہ کرو،باہمی دشمنی نہ کرو ، ایک دوسرے کے سودے کو بگاڑنے کی کوشش نہ کرو، اور ایک دوسرے کے سودے پر اپنا سودا قائم کرنے کی کوشش نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔)

(5) عزت واحترام کی فضا

مسلم معاشرہ میں ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کا احترام اور عزت و توقیر بجا لانا نیز تذلیل و توہین اور عیب جوئی سے گریز کرنا بھی محبت کی واضح دلیل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
‏ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ . يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ﴾ ‎. (الحجرات:11،12)
ترجمہ: (مومنوں! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے، ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ہی ایک دوسرے کا برا نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام (رکھنا) گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں۔ اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تم ضرور نفرت کرو گے، (تو غیبت نہ کرو) اور اللہ تعالیٰ سے ڈر رکھو، بے شک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔)

(6) ہر حال میں وفاداری

مسلمانوں سے محبت اور دوستی کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ہر حال میں ان کے ساتھ رہے خواہ تنگی ہو یا آسانی، سختی ہو یا نرمی، صرف آسانی اور نرمی کی حالت میں ساتھ دینا اور سختی اور تکلیف کی حالت میں ساتھ چھوڑ دینا تو منافقین کا شیوہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللَّهِ قَالُوا أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (النساء:141)
ترجمہ: (جو تم کو دیکھتے رہتے ہیں، اگر اللہ کی طرف سے تم کو فتح ملے تو کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے اور اگر کافروں کو فتح نصیب ہو تو ان سے کہتے ہیں کہ کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے، اور تم کو مسلمانوں (کے ہاتھوں) سے بچایا نہیں۔ تو اللہ تم میں قیامت کے دن فیصلہ کرے گا اور اللہ کافروں کو مومنوں پر ہرگز غلبہ نہیں دے گا۔)

(7) زیارتوں اور ملاقاتوں کا تسلسل

مسلمانوں کا ایک دوسرے کی زیارت کرتے رہنا، ملاقات کی چاہت رکھنا، اور مل جل کر بیٹھنے کا شوق رکھنا، باہمی محبت کی دلیل ہے۔
ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وجبت محبتي للمتزاورين في.. وفي حديث آخر .. ان رجلا زار اخاله فى الله فا رصد الله على مد رجته ملكا ، فساله اين تريد ؟ قال ازوز اخالي فى الله . قال هل لك عليه من نعمة تربها عليه ؟ لا، غير اني احببته فى الله قال فاني رسول الله اليك بان الله قد احبك كما احببته فيه
ترجمہ: (محض میری رضا کی خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں کے لئے میری محبت واجب ہے۔)
ایک اور حدیث میں ہے، رسول ﷺ نے فرمایا: (ایک آدمی محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے کسی بھائی کی زیارت کے لئے نکلا، اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں ایک فرشتے کو بٹھا دیا جو اس کا انتظار کر رہا تھا، (جب وہ شخص وہاں پہنچا) تو اس فرشتے نے سوال کیا، کہاں جانا چاہتے ہو؟ اس شخص نے کہا: اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے بھائی کو ملنے جا رہا ہوں۔ فرشتے نے کہا: کیا تمہارا کوئی اس پر احسان ہے، جس کا بدلہ وصول کرنے جا رہے ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں، میں صرف اس سے اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کرتا ہوں۔ تو اس فرشتے نے کہا: میں تمہاری طرف اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا نمائندہ ہوں اور یہ بتانے آیا ہوں کہ جس طرح تم نے اپنے اس بھائی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر محبت کی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگا ہے۔)

(8) باہمی حقوق کا احترام

حقوق کا احترام بھی محبت میں اضافہ کا موجب ہے، چنانچہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی خرید پر اپنی خرید نہیں لگاتا اور نہ ہی اس کی بولی پر بولی لگاتا ہے۔ نہ اس کی منگنی پر اپنی منگنی کا پیغام بھیجتا ہے۔ الغرض جس مباح کام پر جو سبقت لے جائے، دوسرا اس کے آڑے نہیں آتا۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
(خبردار! کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر اپنا سودا نہ کرے اور نہ اس کے پیغام نکاح پر اپنا پیغام بھجوائے۔)
ایک اور روایت میں ہے (اور نہ اس کی لگائی ہوئی قیمت پر اپنی قیمت لگائے۔)

(9) کمزور کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ

یہ مشفقانہ حسن سلوک بھی باہمی محبت کی علامت ہے۔ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
ليس منا من لم يرحم صغيرنا ويوقر كبيرنا
ترجمہ: (جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور بڑوں کا احترام نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔)
ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
هل تنصرون وترزقون إلا بضعفائكم
ترجمہ: (تمہیں صرف تمہارے کمزور لوگوں کی بدولت رزق بھی دیا جاتا ہے اور مدد بھی کی جاتی ہے۔)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ (الكهف:28)
ترجمہ: (اور جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اس کی خوشنودی کے طالب ہیں، ان کے ساتھ صبر کرتے رہو، اور تمہاری نگاہیں ان میں سے (گزر کر اور طرف )نہ دوڑیں کہ تم آرائش زندگانی دنیا کے خواستگار ہو جاؤ۔)

(10) دعائے خیر

ایک مسلمان کا دوسرے مسلمانوں کے لئے دعا کرنا اور استغفار چاہنا بھی باہمی محبت کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾ (محمد:19)
ترجمہ: (اپنے گناہوں اور تمام مومن مرد اور عورتوں کے لئے مغفرت طلب کر۔)
اور اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر مومنین کی اسی دعا کا ذکر فرمایا ہے:
﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ﴾ (الحشر:10)
ترجمہ: (اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان تمام بھائیوں کو بھی بخش دے جو بحالت ایمان ہم سے پہلے گزر چکے ہیں۔)
تنبیہ: (قرآن حکیم کی ایک آیت سے کچھ لوگوں کو ایک غلط فہمی ہو سکتی ہے، جس کا ازالہ ضروری ہے۔) وہ آیت یہ ہے:
﴿لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ﴾ (الممتحنة:8)
ترجمہ: (جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا۔ ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تعالیٰ تم کو منع نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔)
اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے غلط فہمی کی بناء پر کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں بعض کفار سے دوستی اور محبت قائم کرنے کا حکم ملتا ہے۔
حالانکہ یہ مفہوم غلط ہے۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کفار میں سے جو شخص مسلمانوں کو اذیت پہنچانے سے باز آجائے، نہ تو ان سے جنگ کریں اور نہ ہی انہیں ان کے گھروں سے نکالیں تو مسلمان اس کے مقابلے میں عدل و احسان کے ساتھ دنیوی معاملات میں مکافات عمل اور حسن سلوک کا مظاہرہ کریں، نہ کہ ان سے دلی محبت اور دوستی کا رشتہ استوار کریں۔
تو گویا یہاں حکم نیکی اور احسان کا ہے، نہ کہ دوستی اور محبت کا، اس کی ایک اور مثال:
‏ ﴿وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ (لقمان:15)
ترجمہ: (اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے کہ جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں، تو ان کا کہنا نہ ماننا۔ ہاں! دنیا کے (کاموں) میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا اور جو شخص میری طرف رجوع کرے، اس کے رستے پر چلنا۔)
اسماء رضی اللہ عنھا کی والدہ جو کہ کافرہ تھیں، ان کے پاس آئیں اور ان سے ماں ہونے کے ناطے صلہ رحمی طلب کی، اسماء رضی اللہ عنھا نے اس بارے میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے اجازت طلب کی، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
(اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔) حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے:
﴿لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ﴾ (المجادلة:22)
ترجمہ: (ایسے لوگ تمہیں نہیں ملیں گے جو اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی بھی رکھتے ہوں، خواہ ان کے باپ یا بیٹے ہی کیوں نہ ہوں۔)
اس سے معلوم ہوا کہ دنیوی مکافات اور صلہ رحمی اور شئی ہے اور قلبی محبت اور دوستی بالکل دوسری شئی ہے۔
بلکہ اس صلہ رحمی اور حسن معاملہ میں کفار کو اسلام کی طرف راغب کرنے کا پہلو رکھا گیا ہے اور یہ چیز دعوت دین کے طرق میں سے ہے، جب کہ محبت اور دوستی کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے، محبت اور دوستی تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ کافر اپنے کفر پر صحیح ہے اور ہم اس سے راضی ہیں کیونکہ ایسا شخص اس کافر کو اسلام کی دعوت نہیں دے پاتا۔
یہاں یہ بات واضح طور پر سمجھ لینی چاہئے کہ کفار سے دوستی اور محبت کے حرام ہونے کا یہ معنی نہیں ہے کہ ان کے ساتھ دنیوی معاملات کرنا بھی حرام ہیں، نہیں، دنیوی معاملات کئے جا سکتے ہیں، مثلاً: جائز قسم کی تجارت کرنا، ان سے سامان اور مفید قسم کی مصنوعات منگوانا اور ان کی ایجادات سے فائدہ اٹھانا وغیرہ۔
نبی صلى الله عليه وسلم نے ایک بار راستے کی رہنمائی کے لئے ابن أريقط الليثي نامی کافر کو اجرت پر لیا تھا۔ اس کے علاوہ بعض یہودیوں سے قرضہ لینا بھی ثابت ہے۔
مسلمان ہمیشہ سے کفار سے مختلف مصنوعات اور سامان منگواتے رہے ہیں، یہ ایک چیز کی قیمت کے بدلے خریدنا ہے، اس میں ان کا ہم پر کوئی احسان نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں سے محبت اور دوستی اور کافروں سے بغض و عداوت کو واجب قرار دیا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ﴾ (الأنفال:72)
ترجمہ: (جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑے اور جنہوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔)
دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ﴾ ‎ (الأنفال:73)
ترجمہ: (اور جو لوگ کافر ہیں وہ بھی ایک دوسرے کے رفیق ہیں، تو مومنو! اگر تم یہ کام نہ کرو گے تو ملک میں فساد برپا ہو جائے گا۔)
اس آیت کریمہ کے تحت حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اگر تم مشرکین سے دور ہو کر نہیں رہو گے اور مومنین سے محبت نہیں کرو گے تو لوگوں کے درمیان فتنہ واقع ہو جائے گا اور وہ اس طرح کہ مسلمانوں کا کافروں کے ساتھ اختلاط اور اقتباس لازم آئے گا، جس سے لوگوں کے درمیان بہت لمبا چوڑا فساد برپا ہو جائے گا۔
میں کہتا ہوں کہ ہمارے اس زمانے میں یہ سب کچھ ظاہر ہو چکا ہے (والله المستعان)۔

محبت یا نفرت کا حقدار ہونے کے اعتبار سے لوگوں کی اقسام

دوستی یا دشمنی کے حقدار ہونے کے اعتبار سے لوگوں کی تین اقسام ہیں:
(1) وہ لوگ جو خالص محبت اور دوستی کے مستحق ہیں، ایسی محبت اور دوستی کہ جس میں عداوت یا نفرت کا کوئی عنصر شامل نہ ہو۔
(2) وہ لوگ جو بغض، عداوت اور نفرت کے مستحق ہیں، ایسی عداوت و نفرت کہ جس میں دوستی یا محبت کا کوئی عنصر شامل نہ ہو۔
(3) وہ لوگ جو بعض وجوہات کے اعتبار سے محبت کئے جانے اور بعض وجوہات کے اعتبار سے نفرت و عداوت کے مستحق ہیں۔

(1) خالص محبت کئے جانے کے مستحق افراد

وہ لوگ جن سے خالص محبت کرنا واجب ہے، ایسی محبت جس میں عداوت یا نفرت کا شائبہ تک نہ ہو، وہ خالص مومنین کی جماعت ہے، جن میں سرفہرست انبیاء کرام ہیں پھر صدیقین، پھر شہداء اور صالحین ہیں۔
پھر انبیاء کرام میں سب سے مقدم و سرفہرست محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ہیں، آپ صلى الله عليه وسلم سے ایسی محبت کرنا واجب ہے، جو اپنے نفس، اولاد، ماں باپ اور تمام لوگوں کی محبت پر حاوی اور غالب اور سب سے بڑھ کر ہو۔
پھر آپ کی ازواج مطہرات امہات المؤمنین اور دیگر اہل بیت اور صحابہ کرام رضوان الله عليهم أجمعين کی محبت ہے۔ صحابہ کرام میں بطور خاص خلفائے راشدین، عشرہ مبشرہ، مہاجرین اور انصار، بدری صحابہ، بیعت رضوان میں شریک صحابہ اور پھر بقیہ تمام صحابہ کرام ہیں، جو خالص محبت کے مستحق ہیں۔
پھر تابعین کرام، پھر ائمہ اربعہ وغیرہ کی محبت قابل ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾ (الحشر:10)
ترجمہ: (اور ان کے لئے بھی جو ان مہاجرین کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار! ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں، گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دلوں میں کینہ (حسد) نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار! تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے۔)
جس کے دل میں ایمان ہوگا، وہ کبھی صحابہ کرام یا سلف صالحین سے بغض یا عداوت نہیں رکھے گا، اس مقدس جماعت سے بغض قائم کرنا کج رو، منافقین اور اسلام دشمن افراد کا شیوہ ہے، مثلاً: روافض اور خوارج وغیرہ۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔

(2) صرف بغض و عداوت رکھے جانے کے اہل افراد

یہ کفار، مشرکین، منافقین، مرتدین اور ملحدین کی جماعت ہے، جن کی اجناس مختلف ہیں (لیکن قدر مشترک یہ ہے کہ یہ تمام لوگ عقیدہ خالصہ، عقیدہ توحید کے منکر ہیں)۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ﴾ (المجادلة:22)
ترجمہ: (جو لوگ اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں، انہیں تم ایسے لوگوں سے دوستی رکھنے والا نہیں پاؤ گے، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھتے ہوں، خواہ وہ ان کے ماں باپ، بہن بھائی یا خاندان کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔)
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
تَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ ‎. وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَٰكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ . (المائدة:80،81)
ترجمہ: (تم ان میں سے بہتوں کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی رکھتے ہیں، انہوں نے جو کچھ اپنے واسطے آگے بھیجا ہے برا ہے۔ (وہ یہ) کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناخوش ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہیں گے اور اگر وہ اللہ تعالیٰ پر اور پیغمبروں صلی اللہ علیہ وسلم پر اور جو کتاب ان پر نازل ہوئی تھی، اس پر یقین رکھتے تو ان لوگوں کو دوست نہ بناتے لیکن ان میں سے اکثر بدکردار ہیں۔)

(3) وہ افراد جو محبت اور عداوت دونوں کے مستحق ہیں

اس سے مراد وہ مومن ہیں کہ جن میں بوجوہ کچھ نافرمانیاں پائی جاتی ہیں (لیکن عقیدہ صحیح ہے)۔ یہ لوگ اپنے حسن عقیدہ اور دولت ایمان کی وجہ سے محبت کے قابل ہیں، لیکن بعض نافرمانیوں کے مرتکب ہونے کی بناء پر ناراضگی کے مستحق ہیں۔
شرط یہ ہے کہ ان کی نافرمانی کفر یا شرک کی حد کو نہ پہنچتی ہو۔ (کیونکہ اگر ان کی نافرمانی کفریا شرک کی حدود تک پہنچ گئی تو پھر یہ لوگ بھی دعوائے ایمانی کے باوجود مکمل نفرت اور بغض کے مستحق ہیں۔)
ایسے لوگوں کے ساتھ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے ساتھ خیرخواہی کی جائے اور جن نافرمانیوں کا ارتکاب کرتے ہیں، ان کا انکار کیا جائے۔
ان لوگوں کی نافرمانیوں پر خاموش رہنا جائز نہیں بلکہ ان کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عظیم جذبہ خیرخواہی کا بھرپور برتاؤ ضروری ہے۔
اور اگر ان کی معصیت ایسی ہو جو شرعی حد کو واجب کرتی ہے تو پھر اس حد یا تعزیر کا نفاذ تا آنکہ اپنی معصیت سے باز آ کر توبہ نہ کر لیں بھی خیرخواہی ہے۔
ایسے لوگوں سے مکمل بغض، ناراضگی اور نفرت روا نہیں ہے، جیسا کہ خوارج کا شیوہ ہے۔
بلکہ ان کی بابت اعتدال کا دامن تھامے رہنا چاہئے، چنانچہ حسن عقیدہ کی بناء پر دوستی اور محبت کا برتاؤ کیا جائے اور معصیتوں کے ارتکاب کی بناء پر ناراضگی و نفرت کا اظہار کیا جائے اور یہی اہل السنة والجماعة کا مسلک ہے۔
شرعی ہدایت یہ ہے کہ کسی سے محبت ہو تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اور عداوت ہو تو اللہ تعالیٰ کی خاطر، یہ عقیدہ ایمان کی مضبوط ترین کڑی ہے، بلکہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ: (قیامت کے دن انسان اس کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اس نے دنیا میں محبت کی۔)
المرء مع من احب فى الدنيا
لیکن آج کل حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں، عمومی طور پر لوگوں کی دوستیاں اور دشمنیاں دنیا کی بنیاد پر قائم ہو چکی ہیں۔
جس سے کوئی دنیوی لالچ یا طمع یا مفاد ہو، اس سے دوستی اور محبت کے رشتے قائم کر لئے جاتے ہیں، خواہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم اور اس کے دین کا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔
ابن جریر نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول نقل کیا ہے:
من أحب فى الله وأبغض فى الله ووالىٰ فى الله وعادىٰ فى الله فإنما تنال ولاية الله بذٰلك، وقد صارت عامة مؤاخاة الناس علىٰ أمر الدنيا وذٰلك لا يجدي علىٰ أهله شيئا (رواہ ابن جریر)
ترجمہ: (جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی اور اللہ تعالیٰ ہی کے لئے نفرت کی، اللہ تعالیٰ ہی کے لئے دوستی اور اللہ تعالیٰ ہی کے لئے دشمنی کی تو وہ اپنے اس نہایت شاندار کردار سے اللہ تعالیٰ کی دوستی اور قرب حاصل کر لے گا۔ لیکن افسوس آج لوگوں کی دوستی اور اخوت دنیوی مفادات پر قائم ہے جو بالکل بے فائدہ اور بے اثر سی روش ہے۔)
وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله تعالى قال: من عادىٰ لي وليا فقد آذنته بالحرب
ترجمہ: (ابو ہریرہ رضي الله عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جس نے میرے کسی دوست سے عداوت قائم کی، میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے۔)
اس جنگ کا سب سے زیادہ خطرہ مول لینے والا وہ شخص ہے جو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے صحابہ رضوان الله عليهم أجمعين سے بغض و عداوت رکھے، ان کی شان میں گستاخانہ رویہ اپنائے اور ان کی تنقیص شان کی سعی لاحاصل میں مصروف رہے۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
(میرے صحابہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، انہیں اپنی تنقید کا نشانہ نہ بناؤ، جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے دکھ دیا اور جس نے مجھے دکھی کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی، اور جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی اللہ تعالیٰ اسے عنقریب صفحہ ہستی سے مٹا ڈالے گا۔)( ترمذی شریف )
افسوس کہ بعض گمراہ فرقوں کا مذہب اور عقیدہ ہی صحابہ کرام رضوان الله عليهم أجمعين کی عداوت پر قائم ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے اس کے غضب اور دردناک عذاب سے پناہ مانگتے ہیں اور عفو و عافیت کے سائل و خواستگار ہیں۔
وصلى الله عليه وسلم وبارك على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1