سجدے میں جانے کی کیفیت
رکوع قومہ اور نکے اذکار سے فارغ ہو کر سجدہ کیا جاتا ہے، جسکے لئے زمین پر پہلے ہاتھ پھر گھٹنے رکھنے کا طریقہ بھی مروج ہے اور پہلے گھٹے اور پھر ہاتھ رکھنے کا بھی، اور ان دونوں طریقوں میں سے از روئے دلیل کو نسا انداز قومی و صحیح تر ہے، اس بات کا پتہ لگانے کیلئے دونوں کے دلائل کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ (یہ ہماری چند ریڈیائی تقاریر کا مجموعہ ہے، جو ریڈ یو متحدہ عرب امارات ام القیون سے نشر کی گئی تھیں ۔ )
پہلے ہاتھ رکھنے کے دلائل:
تو آئیے پہلے زمین پر ہاتھ اور پھر گھٹنے رکھنے والوں کے دلائل دیکھیں:
پہلی دلیل:
لتاريخ الكبير للبخاری، ابو داؤد، نسائی، مشکل الآثار و شرح معانی الآثار طحاوي ، دارمی، دار قطنی بہتی مجللی ابن حزم ، شرح السنہ بغوی، کتاب الاعتبار بین الناسخ والمنسوخ من الآثار للحازمي اور مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
«وإذا سجد أحدكم فلا يبرك كما يبرك البعير وليضع يديه قبل ركبتيه» شرح السنه بغوی 135٫3، مسند احمد 2 /1381، الفتح الربانی البنا 276/30، ابو داود دمع العون 0٫3 7 ترمذی مع التخصه 136/2، مشکوۃ تحقیق البانی 282/1، الارواء للالبانی 78٫2، دار قطنی 344/1/1 محلی ابن حزم 169/4/2 بیہقی 99٫2 100، الاعتبار امام حازمی ص 79
تم میں سے جب کوئی سجدہ کرے تو اسطرح نہ بیٹھے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے، بلکہ گھٹنوں سے پہلے دونوں ہاتھ رکھنے چاہییں ۔
1 : تردید نظریہ ضعف:
اس حدیث کو کثیر کبار محد ثین کرام نے صحیح قراردیا ہے جسکی تفصیل کیلئے شرح السنہ کی تحقیق از شیخ شعیب الارناؤوط (3/ 135)، زاد المعاد کی تحقیق از شیخ شعیب الا نا ووط و شیخ عبد القادر الارناؤوط (223/1)، ارواء الغلیل از شیخ البانی (2/ 78 ) ، شرح المواہب زرقانی (320/7) کمافی الا رداء (2/ 78 ) وتحقیق الاحسان (240/5)، المجموع شرح المهذب امام نووی (394/3) دیکھیں جاسکتی ہیں۔ علامہ عبد الرحمن مبارکپوری نے تحفہ الاحوذی شرح ترمذی میں کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا کم از کم حسن لذاتہ ہے، اور ا سکے تمام راوی ثقہ ہیں۔ تحفۃ الاحوذی علامه عبد الرحمن مبارکپوری 138/2
اور حافظ عبدالحق اشبیلی کی الاحکام الکبری سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، جبکہ ان کی دوسری کتاب ”کتاب التوحید “میں لکھا ہے کہ یہ حدیث اس حدیث سے سند کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے ، جس میں کہ گھٹنے پہلے رکھنے کا ذکر آیا ہے ۔ بحوالہ صفۃ الصلو للا لبانی ص 81 وا لا روا 78/2 ، مشکوۃ 282/1
2: تردید نظریہ قلب و اضطراب:
البتہ امام ابن قیم نے کہا ہے کہ اس حدیث میں قلب متن و اضطراب پایا جاتا ہے کہ دراصل حدیث یوں تھی:
وليضع ركبتيه قبل يديه اسے چاہیے کہ ہاتھوں سے پہلے گھٹنے زمین پر رکھے۔
اور مختلف روایات میں اس کے الگ الگ الفاظ آئے ہیں اور اس سلسلہ میں جو گفتگو انہوں نے زادالمعاد میں کی ہے، وہ جلد اول کے صفحہ 223 سے لیکر 231 تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس پر زاد المعاد کے محققین شیخ شعیب و عبد القادر نے تحقیق زاد المعاد میں (223/1 230) میں شیخ احمد شاکر نے تحقیق ترمذی (1/ 58-59) میں ، علامہ عبد الرحمن مبارکپوری نے تحفہ الاحوذی (2/ 138-139) میں اور علامہ البانی نے صفتہ الصلوۃ صفحہ 82 پر مختصر اور ارواء الغلیل (175/2-180) میں اور الصحیفہ (332-328/2) میں مفصل تعاقب کیا ہے، اور علامہ ابن قیم کے اس نظریہ قلب و اضطراب کی تختی سے تردید کی ہے، اور دلائل بھی ذکر کئے ہیں جن کی تفصیلات متعلقہ ، مذکورہ مقامات پر دیکھی جاسکتی
ہیں۔
دوسری دلیل:
پہلے ہاتھ اور پھر گھٹنے رکھنے کی دوسری دلیل صحیح بخاری شریف میں تعلیقاً اور موقوفا علی ابن عمر رضی اللہ عنہم اور صحیح ابن خزیمہ و دار قطنی بیہقی، معانی الآثار طحاری و کتاب الاعتبار حازمی اور مستدرک حاکم میں موصولاً اور مرفوعاً مروی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت نافع بیان فرماتے ہیں:
كان ابن عمر يضع يديه قبل ركبتيه بخاری مع الفتح 290/2
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ (زمین) پر رکھا کرتے تھے۔
اور دیگر کتب میں مرفوعا یوں ہے حضرت نافع ،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرماتے ہیں:
أنه كان يضع يديه قبل ركبتيه وقال:كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعل ذالك بخاری 290/2 ، ابن خذیمه 319/1 و صححہ للالبامی ، بیہقی 100/2، دار قطنی1/344، الضعیفہ للالبانی 331/2، الاعتبار ص 79 بلوغ المرام حافظ ابن حجر عسقلانی اسرار 186/1 مع سبل السلام
وہ (ابن عمر رضی اللہ عنہ ) گھٹنوں سے پہلے دونوں ہاتھ رکھا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی کیا کرتے تھے۔
اس حدیث کو امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے اور علامہ ذہبی نے تلخیص المستدرک میں انکی بات پر اور موافقت کی ہے ۔ حافظ ابن حجر نے بلوغ المرام میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے، اور فتح الباری میں گھٹنے پہلے رکھنے والی حدیث پر ترجیح دی ہے اور محدث البانی نے ارواء الغلیل اور صحیح ابن خزیمہ پر اپنی تعلیقات میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔ تحقیق ابن خزیمہ 318/1، مستدرک حاکم و تلخیص الذھبی 226/1 قدیم و349/1 جدید ، ارواء الغلیل 77/2، بلوغ المرام 1/1/186، فتح الباری ابن حجر 2/291
تیسری دلیل:
امام حاکم نے مستدرک میں کہا ہے: اس مسئلہ میں میرا دل حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی اس حدیث کی طرف زیادہ مائل ہے، جس میں پہلے ہاتھ اور پھر گھٹنے زمین پر لگانے کا ذکر ہے اور یہ اسلئے کہ اس کی تائید میں صحابہ و تابعین سے مروی آثار بکثرت ہیں۔ (حوالہ سابقہ )
چوتھی دلیل:
سنن کبری بیہقی میں ایک روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں مرفوعاً مروی ہے:
إذا سجد أحدكم فلا يبرك كما يبرك الجمل وليضع يديه على ركبتيه بیہقی 100/2 اوزادالمعاد ابن قیم 1/230
جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے، بلکہ اسے چاہیے کہ دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھے ۔
امام بیہقی نے اسے روایت کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اگر یہ محفوظ ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سجدہ جاتے وقت پہلے ہاتھ اور پھر گھٹنے زمین پر رکھے جائیں۔ امام بیہقی نے یہ محض اپنے خدشہ کا اظہار فرمایا ہے، جبکہ اس مفہوم کی حدیث ہم ذکر کر آئے ہیں، جسے کبار محدثین نے محفوظ و صحیح اور راجح قرار دیا ہے۔ لہذا اس روایت سے استدلال نہیں تو استشہاد میں مضایقہ نہیں ہے۔
پانچویں دلیل:
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:
أدركت الناس يضعون أيديهم قبل ركبهم وروي عن ابن عمر فيه حدیث للاعتبار ص 80 نقلہ عن ابن المنذ روزاد المعادار 1/230، مسائل الامام المروزی (1/47/1) کمافی صفتہ اصلوة ص 81 و صححہ
میں نے لوگوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) کو پایا ہے کہ وہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ رکھتے تھے اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم سے اس معاملہ میں ایک حدیث بھی مروی ہے۔
غرض امام مالک اور اوزاعی رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے کہ سجدہ جاتے وقت پہلے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے جائیں اور پھر گھٹنے ۔ امام ابن الجوزی نے اتحقیق میں اور امام ابن قدامہ نے المغنی میں امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مسلک بتایا ہے، اگرچہ ان سے دوسری روایت بھی ملتی ہے ۔ علامہ ابن حزم بھی اسی کے قائل تھے اور ابن ابی داؤد کے بقول تمام اہلحدیث و محدثین کا بھی یہی مسلک ہے، جیسا کہ علامہ ابن قیم نے زاد المعاد جلد اول صفحہ 230 پر، ابن حزم نے المحلی جلد دوم جزء چہارم صفحہ 129 پر ، امام بغوی
نے شرح السنہ جلد سوم صفحہ 134 اپر ، حافظ ابن حجر نے فتح الباری جلد دوم صفحہ 291 پر ، علامہ عبد الرحمن مبارکپوری نے تحفہ الاحوذی جلد دوم صفحہ 135 پر علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے عون المعبود جلد سوم صفحہ71 پر ، امام شوکانی نے نیل الاوطار جلد اول جزء دوم صفحہ 253-254 پر امام حازمی نے کتاب الاعتبار صفحه 80 پر اور ابن قدامہ نے المغنی جلد اول صفحہ 514 پر تفصیل ذکر کی ہے۔ اور امام ابو دا اد کے بیٹے نے اسے ہی اہل مدینہ کا مذہب قرار دیا ہے ۔ نیل الاوطار امام شوکانی 255/2/1۔
پہلے گھٹنے رکھنے کے دلائل:
اور اب باری ہے اس سلسلہ میں دوسرے مسلک یعنی سجدہ جاتے وقت پہلے گھٹنے زمین پر رکھنے کے دلائل کی ، چنانچہ اس نظریہ کے قائلین بھی بعض احادیث سے استدلال کرتے ہیں مثلاً:
دلیل اول:
انکی پہلی دلیل وہ حدیث ہے جو سنن اربعہ و دارمی، دار قطنی و بیہقی ، ابن خزیمہ وابن حبان ، شرح السنہ بغوی اور کتاب الاعتبار حازمی میں حضرت وائل بن حجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:
رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سجد يضع ركبتيه قبل يديه وإذانهض رفع يديه قبل ركبتيه ابو داؤ د 68/3، ترمذی 134/2، شرح السنه 133/3 بیہقی ، 98/2 ابن حبان ص 132 الموارد، الضعیفہ للالبانی 329/2، الا روا 75/2، 1 حیص ابن حجر 1/1/254 ، دار قطنی 1/1/ 345 ، الا عتبار ص 80
میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو دیکھا کہ جب سجدہ کرتے تو ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھتے اور جب اٹھتے تو گھٹنوں سے پہلے ہاتھ اٹھاتے ۔
اسکی استنادی حیثیت:
اس حدیث کو روایت کرنے بعد خود امام دار قطنی ترمذی بیہقی اور حازمی نے اسکی شدید جرح کی ہے اور اسکے مرفوعاً و موصولاً صحیح ہونے پر کلام کیا ہے اور امام حازمی نے امام طحاوی اور دیگر متقدمین حفاظ کی طرف بھی اسی جرح کو منسوب کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے بھی ذکر کئے گئے حفاظ کے علاوہ ابن ابی داؤد سے بھی جرح نقل کی ہے ۔ (متعلقہ حوالہ جات سابقہ)
علامہ عظیم آبادی و مبارکپوری نے اپنی شروح سنن میں اور شیخ شعیب وعبد القادر ارناووط نے تحقیق زاد المعاد میں (223/1) یہ جرحیں نقل کی ہیں۔ امام شوکانی نے ان حفاظ کے علاوہ امام نسائی سے بھی اس روایت کی سند پر جرح نقل کی ہے ۔ النیل 253/2/1
اور دور حاضر کے معروف محدث علامہ البانی نے اس روایت کو تحقیق مشکوة (282/1) ارواء الغلیل 2/ 75-77 اور الاحادیث الضعیفہ (2/ 328-332) میں ضعیف قرار دیا ہے۔
شرح السنہ بغوی کی تحقیق میں شیخ شعیب نے اسکے دو اور طرق بھی بتائے ہیں ، جن میں سے ایک ابوداؤد میں ”محمد بن حجاده عن عبدالجبار بن وائل عن أبيه “والاطریق ہے، جبکہ عبدالجبار کے اپنے والد سے سماع کی خود ہی نفی بھی کی ہے۔ اور آگے چل کر تنبیہہ کے زیر عنوان لکھا ہے کہ موارد الظمآن فى زوائد ابن حبان میں اسرائیل بن برنس کے طریق سے بھی یہ حدیث مروی ہے اور اگر یہ اسرائیل شریک سے متحرف نہ ہو تو پھر یہ شریک کیلئے اچھی متابعت ہے، اور اسکی سند صحیح ہے، جبکہ حفاظ میں سے کسی نے اس طرف توجہ نہیں دلائی سوائے ملا علی قاری کے، انھوں نے المرقاۃ شرح مشکوۃ میں ابن حجر ہیشمی سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کے دوطریق اور بھی ہیں اور انکی مراد شاید یہی ابوداؤد اور ابن حبان والے دونوں طریق ہوں ۔ تحقیق شرح السنہ 133/3 134
لیکن شیخ البانی نے ملا علی قاری کی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
ولا تغتر لما حكاه الشيخ القاري عن ابن حجر الفقيه: ان له طريقين آخرين فإنه من أوهامه تحقیق مشکوۃ 282/1
علامہ ملا علی قاری نے ابن حجر فقیہہ سے جو نقل کیا ہے کہ اسکے دو اور بھی طریق ہیں ؛ اس سے دھوکے میں نہیں آنا چاہئیے ، کیونکہ یہ انکے اوہام (وہموں) میں سے ہے۔
اور موارد الظمان (صفحہ 132، حدیث 487 ) کی سند میں اسرائیل واقعی متحرف ہے کیونکہ اصل ابن حبان میں یہاں شریک ہے۔ دیکھئے الاحسان 237٫5، حدیث: 1912 تحقیق الارنا ووط جو کہ ضعیف ہے۔
معلوم ہوا کہ یہ روایت ضعیف ہے، درجہ صحت وحسن کو نہیں پہنچتی۔ اگرچہ ابن حبان و ابن خزیمہ اور ابن سکن وغیرہ نے اسکی تصحیح کی ہے۔
دلیل دوم:
اسی مفہوم کی ایک روایت ابن ماجہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے، جس میں ہے:
كان يخر على ركبتيه ولا يتكى ابن حبان ص 134 الموارد
آپ گھٹنوں کے بل نیچے جاتے تھے اور ٹیک نہیں لیتے تھے۔
اس روایت کی سند میں کئی راویوں کے مجہول ہونے کی وجہ سے امام ابن المدینی اور بعض دیگر محمد ثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، جیسا کہ لسان المیزان میزان الاعتدال اور اتقریب وغیرہ رجال اور نقد و جرح میں معاذ بن محمد اور محمد بن معاذ کے تراجم میں مذکور ہے ۔بحوالہ الضعیفہ 328/2
دلیل سوم:
سنن دار القطنی و بیہقی مستدرک حاکم محلی ابن حزم، الاحادیث المختاره للضياء المقدسی اور الاعتبار حازمی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
اس حدیث کو روایت کر کے خود امام دار قطنی و بیہقی نے اسکی سند و متن پر تنقید کی ہے اور امام بیہقی، ابن قیم اور ابن حجر نے اسکی سند کے ایک راوی العلا بن اسماعیل کو مجہول قرار دیا ہے جیسا کہ زاد المعاد اور اشخیص الجیر میں ہے ۔ زادالمعاد1/229، التخیص 254/1/1
اور ابن ابی حاتم نے اپنے والد امام ابو حاتم سے العلل میں نقل کیا ہے کہ انھوں نے اس حدیث کو منکر قرار دیا ہے ۔ العلل ابن ابی حاتم 188/1، بحوالہ زادالمعادا /229 والضعیفہ 331/2
[3] تردید نظریۂ اضطراب:
مصنف ابن ابی شیبہ بیہقی، سنن اثرم اور معانی الآثار طحاوی میں حضرت ابو ہریرہ سے مرفوعاً مروی ہے:
إذا سجد أحدكم، فليبدابر كبتيه قبل يديه ولا يبرك كبروك الفحل مصنف ابن ابی شیبه 1/294، بیہقی 100٫2، زاد المعاد 1/ 226 227 ، ارواء الغلیل للالبانی 69/2
تم میں سے جب کوئی سجدہ کرے تو ہاتھوں سے پہلے گھٹنوں کے بل بیٹھے، اور اونٹ کی طرح نہ بیٹھے۔
جبکہ اسکی سند میں عبد اللہ بن سعید المقبر ی متروک وضعیف راوی ہے جیسا کے محققین زادالمعاد نے لکھا ہے ۔ اور امام بخاری ، دارقطنی، احمد بن حنبل ، یحیی بن سعید اور فلاس سے علامہ مبارکپوری نے اس راوی کا منکر الحدیث، متروک و ذاهب الحدیث، غیر ثقہ وضعیف ہونا نقل کیا ہے ۔ تحفۃ الاحوذی 138/2
امام بیہقی نے اسے روایت کر کے خود اسکی سند کوضعیف کہا ہے۔ ( حوالہ سابقہ )
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں انکی اس معاملہ میں متابعت کی ہے ۔ فتح الباری 291/2
شیخ البانی نے اسے باطل قرار دیا ہے ۔ الإرواء ايضاً
لہذا یہ روایت اس لائق نہیں کہ اسکی وجہ سے حدیث اول کو مضطرب کہا جاسکے جیسا کہ علامہ ابن قیم اور بعض دیگر حضرات نے کہا ہے ۔
[4] تردید دعوائے نسخ:
امام ابن خزیمہ نے دونوں طرح کی احادیث میں ضعف و قوت کی بناء پر ترجیح کا انداز اپنانے کی بجائے ہاتھوں کو پہلے زمین پر رکھنے کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور اس پر دلیل میں انھوں نے اور امام بیہقی نے وہ حدیث بیان کی ہے جو کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں ہے:
كنا نضع اليدين قبل الركبتين فأمر بركبتين قبل اليدين ابن خذیمه /1319، بیہقی 100/2
ہم گھٹنوں سے پہلے دونوں ہاتھ رکھتے تھے ، پھر یہ حکم ہوا کہ ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھیں ۔
یہ حدیث اگر صحیح ہوتی تو بقول حافظ ابن حجر واقعی جانبین کے درمیان فیصلہ کن ثابت ہوتی لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ انتہائی ضعیف ہے ۔الفتح ايضاً
امام بیہقی اسے روایت کر کے کہتے ہیں کہ یہ حدیث تو اس طرح وارد ہوئی ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت دوران رکوع تطبیق کے منسوخ ہونے کی ہے۔ (حوالہ سابقہ )
تو گویا امام بیہقی نے اس حدیث میں نسخ کے ذکر کو رواۃ میں سے کسی کی خطا پر محمول کیا ہے اور امام حازمی نے بھی کتاب الاعتبار میں نسخ تطبیق والی حدیث کو ہی محفوظ قرار دیا ہے اور اس حدیث کو شاز و متکلم فیہ۔ الاعتبار ص 80
امام نووی نے المجموع میں اسے ضعیف قرار دیا ہے اور امام بہیقی کا اسے ضعیف کہنا بھی ذکر کیا ہے۔ اسکے ایک راوی یحیی بن سلمہ کو باتفاق حفاظ ضعیف کہا ہے۔ ابو حاتم سے اسکا منکر الحدیث ہونا نقل کیا ہے اور امام بخاری سے نقل کیا ہے کہ اسکی بیان کردہ احادیث میں منکر احادیث بھی ہیں ۔ تہذیب معالم السنن لابن قیم علی عون المعبود 73/3 74، زاد المعاد 227/1
علامہ ابن قیم نے تہذیب معالم السنن اور زاد المعاد میں لکھا ہے کہ بعض رواۃ سے غلطی ہوئی اور وضع اليدين على الركبتين کی بجائے اس سے وضع اليدين قبل الركبتين ہو گیا ۔ اور اسے ہی معروف قرار دیا ہے کہ نسخ کا تعلق رکوع میں تطبیق سے ہے، اس مسئلہ زیر بحث سے نہیں ۔
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ یہ روایت بیان کرنے میں ابراہیم بن اسماعیل اور انکے والد اسماعیل بن یحیی بن سلمہ منفرد ہیں اور وہ دونوں ضعیف ہیں ۔ فتح الباری 2 /231
اور اپنی دوسری کتاب التقریب میں انھوں نے ابراھیم کو ضعیف ، اور اسماعیل ویکی کومتروک قرار دیا ہے۔ التقریب لابن حجر ص 549، 46، 19
علامہ البانی نے تعلیقات ابن خزیمہ میں اس حدیث کو سخت ضعیف قرار دیا ہے۔ حوالہ سابقہ و تحقیق ابن خزیمہ 319/1
تحقیق شرح السنہ میں شیخ شعیب ارناؤوط نے بھی امام بخاری ، ابن معین اور نسائی سے اسکی تضعیف اور ابن قیم سے اسکے متن میں قلب و تغیر کی بات نقل کی ہے۔ تحقیق شرح السنه 135/3
اس ساری تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس حدیث کا فیصلہ کن ثابت ہونا تو درکنار یہ تو سخت ضعیف ہونے کی وجہ سے ناقابل استدلال ہے۔
ایک اثر فاروقی :
اس سلسلہ میں ایک اثر فاروقی مصنف عبدالرزاق اور معانی الآثار طحاوی میں ہے جس میں اسود اور علقمہ کہتے ہیں:
حفظنا عن عمر فى صلوته خر بعد ركوعه على ركبتيه كما يخر البعير وضع ركبتيه قبل يديه طحاوی 151/1، بحوالہ الضعیفه 133/2 او مصنف عبدالرزاق: 169/2 تحقیق الاعظمی
ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نماز سے یہ یاد ہے کہ وہ رکوع کے بعد گھٹنوں کے بل بیٹھتے تھے جیسے کہ اونٹ بیٹھتا ہے۔ وہ ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھتے تھے۔
امام طحاوی نے اس اثر کی سند کو صیح قرار دیا ہے اور شیخ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ میں انکی یہ صحیح نقل کی ہے اور اس پر کوئی تعاقب نہیں کیا بلکہ اسکے ایک راوی اعمش کی تحدیت کی صراحت کر کے انکی تائید و موافقت کی ہے۔ ( حوالہ سابقہ )
لیکن یہ چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر موقوف ایک اثر ہے اور دوسری طرف نبی اکرم سے ثابت ایک حدیث ہے، لہذا یہ اسکا مقابلہ نہیں کر سکتا کہ گھٹنوں والی حدیث کو ترجیح دی جاسکے اور اس سلسلہ میں پائے جانے والے دوسرے آثار کی نسبت بھی یہی جواب ہے کہ جب ایک طرف ایک حدیث صحیح و ثابت موجود تو پھر دوسری طرف چاہے کتنے بھی صحابہ کے آثار کیوں نہ آجائیں ، فلا اثر للآثار – مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے۔
أنه كان يضع ركبتيه إذا سجد قبل يديه مصنف ابن ابی شیبه 1/ 295
سجدہ کرتے وقت وہ ہاتھوں سے پہلے گھٹنے لگاتے تھے۔
جبکہ یہ بھی ضعیف ہے اسکا ایک راوی ابن ابی لیلی ردی الحفظ ہے اور نافع سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا کا یہ فعل روایت کرنے میں اس نے عبید اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مخالفت بھی کی ہے جو کہ اس سے کہیں زیادہ ثقہ ہیں ۔بحوالہ الاعتصام جلد 43 شماره بابت ، 13 جمادی الآخر 1412ھ 2 دسمبر 1991 مقالہ مولانا محمد اسحاق صاحب مدرس مدرسہ رحمانیہ لاہور۔
یہ آثار ضعیف و موقوف ہونے کی وجہ سے اور یہ احادیث ضعیف ہونے کی وجہ سے اس بات کی دلیل نہیں بن سکتیں کہ نمازی کو ہو جاتے وقت پہلے گھلنے زمین پر رکھنے چاہئیں اور پھر ہاتھ بلکہ صحیح احادیث کی رو سے پہلے ہاتھ اور پھر گھٹنے رکھنا ثابت ہوتا ہے۔
[5] اونٹ کے گھٹنے؟
البتہ اس سے قبل والے اثر فاروقی میں ایک بات واضح طور پر آگئی ہے کہ اونٹ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہے جو کہ اسکی انگلی ٹانگوں میں ہوتے ہیں اور جب یہ بات ایسے ہی ہے تو پھر نمازی کو زمین پر گھٹنے پہلے نہیں رکھنے چاہیے کیونکہ اس سے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے منع فرمایا ہے ۔ الضعیفہ 331/2
جیسا کہ اس مفہوم کی بعض احادیث ذکر کی جا چکی ہیں۔ علامہ ابن قیم نے زاد المعاد میں اس کا انکار کیا ہے کہ اونٹ کے گھٹنے انگلی ٹانگوں میں ہوں اور لکھا ہے کہ یہ بات اہل لغت کے علم میں بھی نہیں ہے ۔ زادالمعاد 225/1
جبکہ ان کی یہ بات ایک تسامح ہے اور زاد المعاد کے محققین کے علاوہ کثیر کبار اہل علم نے اس پر انکا تعاقب ورد کیا ہے اور چونکہ اس معنی کی حدیث سے جانبین نے ہی استدلال کیا ہے، لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ کے گھٹنوں کے بارے میں کچھ تحقیقی جائزہ پیش کر دیا جائے جس سے پتہ چل سکے کہ اس معاملہ میں کونسی جانب مبنی برحق ہے اور کس طرف خطا ہے؟
از روئے لغت:
علامہ ابن قیم نے تو زاد المعاد میں کہہ دیا ہے کہ اونٹ کے گھٹنوں کا اسکی انگلی ٹانگوں میں ہونا لغت عربی کے ماہرین کے یہاں بھی معروف و متعارف نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عرب اہل لغت کے یہاں یہ بات ملتی ہے کہ اونٹ کے گھٹنے اسکی انگلی ٹانگوں میں ہی ہوتے ہیں پچھلی میں نہیں ۔ چنانچہ لغت کی ہیں ضخیم جلدوں پر مشتمل کتاب لسان العرب میں ابن المنظور افریقی نے مادہ” رکب“ میں لکھا ہے:
وركبة البعير فى يده وكل ذي أربع ركبتاه فى يديه لسان العرب ابن المنظور 236/14
اونٹ کا گھٹنا اسکی اگلی ٹانگوں میں ہوتا ہے، بلکہ ہر چوپائے کے گھٹنے اسکی اگلی ٹانگوں میں ہوتے ہیں ۔
اہل لغت میں سے صاحب لسان العرب کی اس صراحت کے بعد یہ کہنا تو صحیح نہیں رہا کہ اہلِ لغت کے یہاں یہ بات متعارف نہیں ہے۔
مشكل الآثار وشرح معانی الآثار:
مشکل الآثار اور شرح معانی الآثار میں امام طحاوی نے اس حدیث کی تصحیح و تثبیت کے دوران اور اونٹ بلکہ تمام جانوروں کی اگلی ٹانگوں میں انکے گھٹنے ہونے میں کوئی استحالہ نہ ہونے کا پتہ دیتے ہوئے ، اور انسان کو اس سے مستشنیٰ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
لا يبرك على ركبتيه اللتين فى رجليه كما يبرك البعير على ركبتيه اللين فى يديه ولكن يبدأ فيضع أولا يديه اللتين ليس فيهما ركبتان، ثم يضع ركبتيه، فيكون ما يفعل فى ذالك بخلاف ما يفعل البعير بحوالہ تحقیق زاد المعاد1/ 225 وصفته الصلاة ص82
وہ گھٹنوں کے بل نہ بیٹھے جو کہ اسکی ٹانگوں میں ہوتے ہیں جس طرح کہ اونٹ گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہے جو کہ اسکی انگلی ٹانگوں میں ہوتے ہیں، بلکہ پہلے ہاتھ رکھے جن میں کہ اس کے گھٹنے نہیں ہوتے ، پھر گھٹنے رکھے اسطرح وہ بیٹھنے میں اُونٹ کے برعکس طریقہ سے بیٹھے گا۔
اور علماء احناف میں سے ہی علامہ علی قاری نے المرقاۃ شرح المشکوۃ میں حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: اذا سجد أحدكم فلا يبرك كما يبرك البعير میں اس بات سے روکا گیا ہے کہ کوئی شخص اونٹ کی طرح پہلے گھٹنے اور پھر ہاتھ رکھے ۔ اس حدیث میں اونٹ سے تشبیہ دی گئی ہے جب کہ وہ اپنے ہاتھ ہی گھٹنوں سے پہلے رکھتا ہے، کیونکہ انسان کے گھٹنے اسکی ٹانگوں میں ہوتے ہیں اور جانوروں کے گھٹنے اسکے ہاتھوں (اگلی ٹانگوں ) میں ہوتے ہیں۔ پس جب کوئی پہلے گھٹنے زمین پر رکھے گا تو وہ بیٹھنے میں اونٹ سے مشابہ ہو گا۔ اور آگے وليضع يريه قبل ركبتيه کی شرح میں لکھا ہے کہ تو ربشتی نے اعتراض کیا ہے کہ:
اونٹ کی طرح بیٹھنے سے کیسے روکا ہے؟ جبکہ آگے پھر ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے رکھنے کا حکم بھی فرمایا ہے جبکہ اونٹ اپنے ہاتھ پہلے رکھتا ہے۔ تو اسکا جواب یہ ہے کہ انسان کے گھٹنے تو اسکی ٹانگوں میں ہوتے ہیں جبکہ چوپایوں کے گھٹنے تو انکے ہاتھ (انگلی ٹانگوں ) میں ہوتے ہیں۔المرقاة ملاعلی قاری بحوالہ تحفۃ الاحوذی 136/2
لسان العرب میں ابن المنظور کے علاوہ ازہری نے تہذیب اللغہ (216/10) میں اور ابن سیدہ نے الحکم (16/7) میں بھی ذکر کیا ہے کہ اونٹ کے گھٹنے اسکی اگلی ٹانگوں میں ہوتے ہیں ۔بحوالہ ہفت روزہ الاعتصام ایضاً
معروف محقق علامہ ابن حزم نے بھی المحلی میں اسی بات کو ثابت کیا ہے کہ اونٹ کے گھٹنے اسکے ہاتھوں یعنی ٹانگوں میں ہوتے ہیں نہ کے پچھلی ٹانگوں میں ۔ المحلی 129/4/2
اور وہ بیٹھتے وقت گھٹنے ہی زمین پر پہلے لگاتا ہے، جبکہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے اس طرح بیٹھنے سے نمازی کو منع کیا ہے اور پہلے زمین پر ہاتھ اور پھر گھٹنے رکھنے کا حکم فرمایا ہے۔
کتب حدیث کی روشنی میں:
اونٹ کے گھٹنوں کا اسکی انگلی ٹانگوں میں ہونا، کتب حدیث سے بھی ثابت ہے:
1: امام قاسم سرقسطی نے اپنی کتاب غریب الحدیث میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا:
لا يبرك احد بروك البعير الشارد
تم میں سے کوئی کسی بپھرے ہوئے اونٹ کی طرح نہ بیٹھے۔
اور امام قاسم اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ نماز میں سجدہ جانے کے بارے میں ہے کہ آدمی اپنے جسم کو یکبارگی نہ گرا دے جس طرح کہ بدکا ہوا اور غیر مطمئن اونٹ کرتا ہے، بلکہ اطمینان کے ساتھ بیٹھے ۔ پہلے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے اور پھر دونوں گھٹنے ۔ اور اس سلسلہ میں ہی ایک مرفوع و مفسر حدیث بھی ہے۔ اور انہوں نے آگے اس موضوع کے شروع میں بیان کی گئی پہلی حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی وارد کی ہے ۔تحقیق زاد المعاد 225/1 نقلا عن غریب الحدیث للامام السرقسطی 70/2 و تجاه وصفته الصلوۃ ص82
2:اسی طرح ہی وہ اثر فاروقی بھی ہے جو ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں لہذا اسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں اس میں بھی واضح طور پر یہ بات آگئی ہے کہ اونٹ کے گھٹنے اسکی اگلی ٹانگوں میں ہی ہوتے پر ہیں نہ کہ پچھلی ٹانگوں میں ۔
3:اور ان دو آثار پر مستزاد صحیح بخاری شریف اور دیگر کتب کی وہ حدیث بھی ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ سے تعلق رکھتی ہے۔ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے وہ گھوڑا لے کر نبی صلى الله عليه وسلم کی تلاش میں نکلے اور دیکھ بھی لیا لیکن جب قریب پہنچے تو انکا گھوڑا معجزاتی طور پر گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا۔ اس حدیث میں حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں:
ساحت يدا فرسي فى الأرض حتى بلغنا الركبتين بخاری مع الفتح وتحفة الاحوذی 139/2
میرے گھوڑے کی دونوں اگلی ٹانگیں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئیں۔
بخاری میں معروف صحابی کے ان الفاظ سے بھی معلوم ہوا کہ اونٹ اور دیگر چوپایوں کے گھٹنے اگلی ٹانگوں میں ہوتے ہیں۔
خلاصہ :
اس ساری بحث سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی پہلی حدیث کا جزء اول جزء ثانی کے مخالف نہیں ہے بلکہ اس طرح ہی صحیح ہے کہ نمازی اونٹ کی طرح اپنے گھٹنے زمین پر پہلے نہ رکھے بلکہ ہاتھ پہلے رکھے کیونکہ اونٹ کی طرح گھٹنے پہلے رکھنے سے نبی صلى الله عليه وسلم نے منع فرمایا ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آیا ہے۔
علامہ ابن قیم کی وجوہات تربیح :
علامہ ابن قیم نے تہذیب معالم السنن اور زاد المعاد میں گھٹنے پہلے رکھنے کو راجح قرار دینے کیلئے دس (10) وجوہات ترجیح بیان کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی پہلی حدیث مقلوب ① و مضطرب ② اور منسوخ ③ و متکلم ④ فیہ ہے، جبکہ حضرت وائل رضی اللہ عنہ والی حدیث پر اکثر کا عمل ⑤ ہے، اسکے بعض ⑥ شواہد ہیں بعض ⑦ صحابہ کے آثار اسکے موافق ہیں ، اسمیں ⑧ حکایت فو حکایت فعل ہے اور اس میں واردہ افعال ⑨ دوسری روایات سے بھی ثابت ہیں اور وہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُونٹ کی طرح بیٹھنے سے ممانعت ⑩ والی حدیث کے موافق بھی ہے۔مختصراً از زاد المعاد230/1-231
جب کہ موصوف کے اس موقف پر تعاقب کرتے ہوئے محققین زادالمعاد نے لکھا ہے کہ مصنف نے جس جانب کو راجح قرار دیا ہے ، وہ صحیح نہیں بلکہ راجح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث ہے، اور اسکے اسباب و وجوہات بھی انھوں نے تحقیق و تعلیقات میں ذکر کئے ہیں ۔ تحقیق زاد المعاد 1/ 223 230
مختلف مواقف :
1:امام نووی نے المجموع میں دونوں طرح کے دلائل ذکر کر کے لکھا ہے کہ مجھ پر کسی جانب کی ترجیح ظاہر نہیں ہوسکی ۔ ( المجموع وبحوالہ سابقہ )
2:امام شوکانی نے نیل الاوطار میں تمام تفصیلات ذکر کر کے اس مسئلہ کو معارک الا نظار اور مضائق الافکار میں سے ایک قرار دے دیا ہے ۔ نیل الاوطار 1 / 99/3/2٬283/2
3: محقق مقبلی ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور مولانا محمد جونا گڑھی نے دونوں طرح کی احادیث میں جمع و تطبیق کی راہ اپنائی ہے کہ جب زمین کے قریب ہو جائیں اور گھٹنے مڑ جائیں تو ہاتھ پہلے رکھ لیں اور پھر گھٹنے، جبکہ ایک روایت میں امام مالک و احمد رحمہ اللہ اور علامہ مقبلی و جونا گڑھی نے دونوں کو ہی برابر قرار دیا ہے چاہے کسی کو بھی اختیار کر لیں ۔ النيل ايضاً وصلوة الرسول ﷺ محقق ص 283 نقلا عن صلوة محمدی ، تحفۃ الاحوذی 136٫2، فتح الباری 2 291٫
جب کہ بات دراصل یوں ہے کہ یہ اُس وقت ہوتا جب دونوں طرف کی احادیث صحیح ہوتیں، لیکن یہاں ایسا نہیں ہے، ہم تفصیل بیان کر آئے ہیں کہ ہاتھ پہلے رکھنے والی احادیث صحیح ہیں اور گھٹنے پہلے رکھنے کا پتہ دینے والی روایات ضعیف ہیں۔
4: اسکے باوجود جمہور اہل علم اور بقول قاضی ابو الطیب کے، عام فقہاء نے اسے ہی اختیار کیا ہے ۔ ابن المنذر نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، ابراہیم نخعی، مسلم بن بسیار ثوری (ایک روایت میں ) احمد بن حنبل رحمہ اللہ ، شافعی رحمہ اللہ ، اسحاق بن راہویہ اور اہل رائے احناف سے یہی مسلک نقل کیا ہے اور خود بھی اسے ہی اپنایا ہے ۔ النیل 97/3/2، زاد المعادا229٫ 230، کتاب الاعتبار حازمی ص 79 80 تحفتہ الاحوذی 135/2 عون المعبود 3/ 68 57، فتح الباری 291٫2
5:گھٹنے پہلے رکھنے والی روایات کے ضعف کے پیش نظر اور ہاتھ پہلے رکھنے والی احادیث کے صحیح ہونے کی بنا پر امام مالک رحمہ اللہ ، اوزائی، ایک روایت میں امام احمد رحمہ اللہ اور جمہور اہلحدیث ومحد ثین نے پہلے ہاتھ رکھنے کا مسلک اختیار کیا ہے اور امام مالک رحمہ اللہ نے تو یہ بھی کہا ہے:
هذه الصفة أحسن فى خشوع الصلواة
یہ انداز، از روئے خشوع بہت اچھا ہے۔
اسباب و وجوہات ترجیح:
اس آخری مسلک کے راجح ہونے کے اسباب و وجوہات بھی کئی ہیں ، مثلاً:
1: ہاتھ پہلے رکھنے کا پتہ دینے والی حدیث صحیح ہونے کے ساتھ قولی ہے اور گھٹنے پہلے رکھنے کا پتہ دینے والی حدیث ضعیف ہونے کے علاوہ فعلی ہے۔ اور تعارض کی صورت میں ترجیح قولی حدیث کو ہوا کرتی ہے، جیسا کہ وجوہ ترجیح کے ضمن میں امام حازمی نے سینتیسویں (37) وجہ یہ لکھی ہے:
ان يكون احد الحديثين قولا والآخر فعلا، فالقول ابلغ فى البيان ولا ن الناس لم يختلفوا فى كون قوله حجة واختلفور فى التباع فعل لان الفعل لا يدل بنفسه على شي بخلاف القول فيكون أقوى الاعتبار ص 20 نیز دیکھئے ص 8 اوجہ ترجیح نمبر 26
دو حدیثوں میں سے ایک قولی اور دوسری فعلی ہوتو قول، بیان میں زیادہ بلیغ ہوتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے دلیل حجت ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف بھی نہیں ہے ۔ البتہ اتباع عمل میں اختلاف ہے، کیونکہ فعل فی نفسہ کسی چیز پر دلالت نہیں کرتا ،بخلاف قول کے ، لہذا قولی حدیث اقوئی (زیادہ قوی ) ہوتی ہے۔
اور علامہ ابن الترکمانی نے بھی سنن کبری بیہقی کے حاشیہ الجو ہر النفی میں لکھا ہے کہ ہاتھ پہلے رکھنے کا پتہ دینے والی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قولی ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے بھی اسکی تائید ہوتی ہے۔ لہذا علماء اصول کے نزدیک اسے گھٹنے پہلے رکھنے کا پتہ دینے والی حضرت وائل رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پر ترجیح ہوگی کیونکہ اسکی دلالت فعلی ہے۔ الجوھر النقی ابن الترکمانی ماوردی 100/ 1
اور یہاں فعلی کی قولی پر ترجیح والے اصول کی بنیاد میں کارفرما سبب بھی بیان کرتے جائیں کہ امت کی نسبت قولی حدیث میں کسی قسم کا کوئی اشکال نہیں پایا جاتا کہ یہ عمل افراد امت کیلئے نبی صلى الله عليه وسلم نے تجویز فرمایا ہے ۔ جب کہ فعلی حدیث میں اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ وہ عمل کہیں نبی صلى الله عليه وسلم کے خصائص میں سے نہ ہو، جیسے ایک مرد کے نکاح میں زیادہ سے زیادہ چار بیویوں والی آیت اور قولی احادیث ہیں۔ اور خود نبی صلى الله عليه وسلم کاعمل مبارک بیک وقت نو ازواج مطہرات سے نکاح ہے۔ ہمارے لئے قولی واجب العمل اور یہ فعل نبی صلى الله عليه وسلم کے خصائص میں سے ہے۔ اور خصائص کے بارے میں عمو ماً صراحت ہوتی ہے لیکن چونکہ کبھی صراحت نہ ہو نیکی وجہ سے کسی کام کے خصائص مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ لہذا علماء اصول نے مستقل اصول وضع کر دیا کہ قولی حدیث راجح ہوگی اور فعلی مرجوح اور مسئلہ زیر بحث میں قولی حدیث پہلے ہاتھ رکھنے کا پتہ دیتی ہے۔
2: اگر دونوں طرح کی احادیث کو صحیح مان لیا جائے (حالانکہ فی الحقیقت ایسا نہیں ہے ) تو پھر بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہاتھوں والی قولی حدیث کی تائید حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک دوسری صحیح حدیث سے بھی ہو جاتی ہے جو صیح بخاری میں تعلیقا و موقوفا اور ابن خزیمہ و دار قطنی پہنن بیہقی و کتاب الاعتبار حازمی اور مستدرک حاکم کے حوالے سے ہم ذکر کر چکے ہیں اور امام حاکم نے اپنا رجحان ہاتھوں والے نظریہ کی طرف ظاہر کیا ہے اور اسکا سبب یہ لکھا ہے کہ اسکے بارے میں صحابہ و تابعین سے بہت ساری احادیث و آثار ملتے ہیں۔ لہذا راجح مسلک یہی ہے اور دوسری جانب اگرچہ حضرت وائل رضی اللہ عنہ والی حدیث ہے، لیکن وہ چونکہ ضعیف ہے اور پھر حضرت انس وابی بن کعب رضی اللہ عنہماوالی روایات ہیں تو وہ ذکر کی گئی تفصیل کی رو سے اتنی ضعیف ہیں کہ پہلی کی شاہد و موید بننے کے قابل نہیں ۔ لہذا یہ جانب مرجوح ہے۔
3:ایک ہی موضوع سے متعلقمہ دو طرح کی احادیث آجائیں اور اس تعارض میں ایک نفی پر مشتمل ہو اور دوسری اثبات پر ، یعنی ایک میں کسی کام کو کرنے کا حکم دیا گیا ہو اور دوسری میں نہ کرنے کا تو ایسی صورت میں حذ رو ممانعت والی حدیث راجح ہوگی، اور یہ ایک مستقل وجہ ترجیح ہے۔ مسئلہ زیر بحث میں حضرت وائل رضی اللہ عنہ والی حدیث مثبت ہے، جبکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی منفی ہے کہ اونٹ کی طرح پہلے گھٹنے زمین پر مت لگاؤ لہذا یہی راجح ہے۔ ان اور ایسی ہی دوسری وجوہات و اسباب کی بناء پر حافظ ابن حجر نے بلوغ المرام میں اسی طرح حافظ ابن سید الناس ، قاضی ابوبکر ابن العربی اور علامہ ابن الترکمانی نے بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہاتھوں کو پہلے رکھنے والی حدیث کو ہی راجح قرار دیا ہے اور امام بخاری کا واضح رجحان بھی اسی طرف ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری میں انکی تبویب سے معلوم ہو رہا ہے۔ اور امام ابن العزی کے بقول، یہی عمل اہل مدینہ بھی ہے۔ شیخ احمد شاکر ، علامہ عبدالرحمن مبارک پوری محدث البانی ، شیخ عبد القادر ارناؤوط اور شیخ شعیب ارناؤوط نے بھی پہلے زمین پر ہاتھ رکھنے اور پھر گھٹنے لگانے والے موقف کو ہی راجح قرار دیا ہے اور اختیار کیا ہے۔ امام خطابی نے معالم السنن میں حضرت وائل رضی اللہ عنہ والی حدیث کو راجح قرار دیا ہے ۔ معالم السنن خطابی 180/1، المنتقی للمجد ابن تیمیه 99/3/2
اور ہماری ذکر کردہ تفصیل سے انکی اس بات کا ضعف بھی واضح ہو گیا ہے ۔ ولله الحمد مزید تفصیلات کیلئے دیکھیئے بلوغ المرام مع السبل 189/1/1، الجوهر النقی 100/1 تحفۃ الاحوذی 137/2-138، بخاری مع الفتح 290/2۔ 291 ، عون المعبود 71/3، تحقیق زاد المعاد 1/ 223-231، الضعیفه 332/2، الارواء 80/2، صلوۃ الرسول مولانا سیالکوئی تحقیق عبد الرؤوف ص283-286
ایک وضاحت:
سجدہ جاتے وقت پہلے ہاتھ رکھے جائیں یا گھٹنے؟
اس سلسلہ میں تفصیلی تحقیق ہم نے ذکر کر دی ہے، جسکی رو سے ہمارے نزدیک ہاتھوں کا زمین پر گھٹنو سے پہلے رکھنا ہی اولیٰ ہے، لیکن یہاں اس بات کی وضاحت کر دینا مناسب لگتا ہے کہ بعض اہلِ علم نے جو کہا ہے کہ ان دونوں طرح کی احادیث کو یوں جمع کر لیا جائے کہ قیام سے سجدہ کی طرف اس انداز سے جھکیں کہ جیسے آپ کے گھٹنے اور ہاتھ بیک وقت ہی زمین پر جا لگیں گے لیکن قریب ہو کر پہلے ہاتھ لگائیں اور پھر گھٹنے ، اس جمع و تطبیق میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ بڑی مناسب بات ہے ۔ خصوصاً اس لئے کہ پہلے گھٹنے رکھنا صحیح طور پر ثابت نہیں ہو رہا اور اس میں بظاہر کچھ شان کبر ونخوت سی بھی پائی جاتی ہے اور اگر کھڑے کھڑے ہی دونوں ہاتھوں کو آگے کی طرف بڑھاتے ہوئے سجدہ جانے لگیں تو یہ بھی کچھ اتنا اچھا نہیں لگتا، بلکہ ایسے محسوس ہوتا ہے ، جیسے کوئی فلائی (پرواز ) کرنے لگا ہو، خصوصاً اگر کوئی لا پرواہی سے آگے ہاتھ بڑھائے سجدہ جا رہا ہو۔
لہذا غیر اولی انداز اور بے ہنگم و غیر درست انداز کے مابین مذکورہ جمع و تطبیق سے کام لیا جائے تو اولیٰ پر عمل ہو جائے گا اور معیوب انداز سے بھی بچا جاسکے گا۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ کھڑے کھڑے ہی ہاتھوں کو آگے کی جانب نہ بڑھایا جائے اور انہیں زمین پر پہلے لگائیں اور پھر ساتھ ہی گھٹنے لگالیں۔
الله الموفق إلى سواء السبيل