حاجی کے سر کے کچھ بال جہالت میں کٹوانے کا حکم
سوال:
اگر کوئی حاجی لاعلمی کی وجہ سے اپنے سر کے کچھ بال کٹوا لیتا ہے اور پھر وہ حلال ہو جاتا ہے، تو اس صورت میں اس کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کوئی حاجی لاعلمی (جہالت) کی بنیاد پر اپنے سر کے کچھ بال کٹوا لے اور پھر حالتِ احرام سے نکل کر حلال ہو جائے، تو اس پر کوئی کفارہ یا فدیہ لازم نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے یہ عمل جہالت میں کیا ہے۔ البتہ، وہ شخص جب بھی ممکن ہو، اپنے سر کے بقیہ بال مکمل طور پر منڈوائے یا کٹوائے، تاکہ احرام سے مکمل طور پر نکلنے کا عمل مکمل ہو جائے۔
ایک اہم نصیحت
اس موقع پر حاجیوں اور تمام مسلمانوں کو ایک اہم نصیحت کرنا ضروری ہے:
✿ جب بھی کوئی بندہ کسی عبادت کو انجام دینے کا ارادہ کرے، تو وہ اس عبادت کی شروعات اس وقت تک نہ کرے، جب تک وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ حدود و احکام کو مکمل طور پر نہ جان لے۔
✿ اس علم کے بغیر عبادت میں داخل ہونے کا خطرہ یہ ہے کہ انسان غیر دانستہ طور پر کوئی ایسا کام کر بیٹھے جو اس عبادت کے فاسد ہونے یا ناقص ہونے کا سبب بن جائے۔
قرآن مجید سے رہنمائی
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں ارشاد فرمایا:
﴿قُلۡ هَٰذِهِۦ سَبِيلِيٓ أَدۡعُوٓاْ إِلَى ٱللَّهِۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا۠ وَمَنِ ٱتَّبَعَنِيۖ وَسُبۡحَٰنَ ٱللَّهِ وَمَآ أَنَا۠ مِنَ ٱلۡمُشۡرِكِينَ﴾
—يوسف:108
’’کہہ دو میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں (ازروئے یقین و برہان) سمجھ بوجھ کر۔ میں بھی (لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں) اور میرے پیروکار بھی، اور اللہ پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُل هَل يَستَوِى الَّذينَ يَعلَمونَ وَالَّذينَ لا يَعلَمونَ إِنَّما يَتَذَكَّرُ أُولُوا الأَلبـبِ﴾
—سورة الزمر: 9
’’کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے، دونوں برابر ہو سکتے ہیں (اور) نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں، جو عقل مند ہیں۔‘‘
علم و بصیرت کے ساتھ عبادت کا مقام
✿ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت علم و بصیرت کے ساتھ انجام دیتا ہے تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ عبادت کو محض جہالت یا غیرعلم رکھنے والوں کی تقلید میں ادا کرے۔
✿ علم کے بغیر کی جانے والی عبادت میں نقص اور خطا کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب