بیماری عذر کی حالت کا نام ہے۔ جس میں انسان اپنے کام معمول کے مطابق نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی بندوں پر یہ کمال شفقت ہے کہ اس نے انسان کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر کسی بھی حکم کا پابند نہیں بنایا۔ فرمایا:
فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ
(64-التغابن:16)
پس اللہ سے ڈرو جس قدر تم استطاعت رکھتے ہو۔
عبادات ادا کرنے کے لیے اس نے عذر کی حالت میں تخفیف کر دی۔ نماز روزانہ پانچ دفعہ کا معمول ہے۔ اس لیے بیماری کی حالت میں سب سے زیادہ اس کے مسائل معلوم کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ خواتین اکثر بیماری کی مختلف حالتوں میں وضو اور نماز سے متعلق پوچھتی رہتی ہیں۔ انہی کی ضرورت کو سامنے رکھ کر یہ کتابچہ مرتب کیا ہے۔
طویل احادیث دینے کی بجائے حوالے دینے پر ہی اکتفا کیا ہے تا کہ کتابچہ مختصر رہے۔ حوالے پورے درج کیے ہیں تا کہ اصل ماخذ کی طرف رجوع کیا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ تمام بیماروں کو روحانی اور جسمانی شفا عطا کرے۔
اَللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ أَذْهِبِ الْبَاسَ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءٌ لَا يُغَادِرُ سَقَمًا
”اے اللہ! لوگوں کے رب، اس تکلیف کو دور کر، اور شفا عطا فرما کہ صرف تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں ایسی شفا دے جو کسی بیماری کو باقی نہ چھوڑے۔“
مسلسل ناپاکی کی حالت
بعض بیماریاں ایسی ہیں کہ ان میں انسان کسی وقت بھی پاک نہیں رہ سکتا، ان میں سے بعض بیماریاں مندرجہ ذیل ہیں:
● مسلسل پیشاب کے قطرے آنا
● مسلسل پاخانہ خارج ہونا
● عورت کا مسلسل خون جاری ہونا
● مذی کا مسلسل جاری ہوتا
● عورتوں کا مسلسل سفید پانی آتے رہنا
● کسی کی مسلسل ریح خارج ہوتے رہنا
ان تمام صورتوں کا حکم یکساں ہے:
① ان بیماریوں میں کسی نماز کے اول سے آخر وقت تک کے دوران اگر کوئی وقفہ ہو جاتا ہے تو وقفے کے وقت میں طہارت حاصل کر کے نماز ادا کرنا ہو گی۔
② اگر وقفہ نہیں آتا تو ہر نماز کے وقت استنجا کرنا (البتہ ریح یا سفید پانی (لیکوریا) کی صورت میں استنجا کرنے کی ضرورت نہیں) اور ③ استنجا کرنے کے فوراً بعد وضو کر لیا جائے۔ استنجا کرنے کے بعد مسلسل پیشاب، پاخانہ، خون یا ندی کے جاری رہنے کی صورت میں کپڑے کی گدی یا پیمپر وغیرہ لگا لیا جائے تا کہ دوسرے کپڑے ناپاک نہ ہوں۔
④وضو کرنے کے ساتھ ہی موجود وقت کی نماز ادا کر لی جائے اگر ایسا نہ کیا اور کچھ وقفہ ہو گیا تو نئے سرے سے طہارت حاصل کر کے وضو کرنا ہو گا۔
⑤ ایک وضو سے موجود وقت کی تمام فرض، سنت رکھتیں پڑھی جا سکتی ہیں۔
⑥ اگر دو نمازیں ملا کر پڑھ رہے ہیں تو دونوں نمازیں ایک وضو سے پڑھی جا سکتی ہیں۔
⑦ اگر مسلسل بیماری کے علاوہ کسی اور وجہ سے وضو ٹوٹ جائے تو پھر نیا وضو کرنا ہو گا لیکن استنجا کرنے اور نیا کپڑا یا گدی باندھنے کی ضرورت نہیں۔
ان تمام بیماریوں کا حکم مستحاضہ کے حکم پر قیاس کیا جائے گا۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ بنت جیش رضی اللہ عنہا سے فرمایا جنہیں استحاضہ کا مرض تھا کہ جب حیض کا خون ہو جو سیاہ رنگ کا ہوتا ہے اور پہچانا جاتا ہے تو نماز سے رک جا۔ جب دوسرا خون ہو تو وضو کر اور نماز پڑھ وہ تورگ کا خون ہے۔
(سنن ابی داؤد 2740، نسائی)
مناسب یہ ہے کہ سلسل البول جیسے مرض والا آدمی اور مستحاضہ اپنی شرمگاہ پر کپڑا باندھ لے تا کہ دیگر کپڑوں کو ناپاکی نہ لگے جیسے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے جو کہ موطا امام مالک، کتاب المطہرہ اور ابو داؤد وغیرہ میں ہے۔
(تقسیم الدین از مبشر احمد ربانی ص: 160)
جسم کے کسی حصے سے خون بہنا:
اگر جسم کے کسی حصے سے وضو کرنے کے بعد خون بہہ نکلے، مثلاً نکسیر پھوٹے، بلغم کے ساتھ خون آئے، زخم سے خون بہنے لگے، مسوڑھوں سے خون نکلے تو وضو نہیں ٹوٹتا کیونکہ خون کا بہنا ناقض وضو نہیں اور خون لگنے سے کپڑے یا جسم ناپاک نہیں ہوتا۔ خون صرف کھانا حرام ہے، اپنی ذات میں نجس نہیں ہے کہ اس سے کپڑے، جسم یا جگہ وغیرہ ناپاک ہو جائے۔
(دیکھیے سنن ابوداؤد: 198)
جو خون سبيلين (پیشاب اور پاخانے کی راہ) سے نکلے وہ نجس بھی ہے اور ناقض وضو بھی۔
دوران نماز اگر خون یا زخم سے پیپ بہہ رہی ہو تو صاف کرنے کے لیے روئی، ٹشو پیپر یا کوئی اور چیز ایک ہاتھ سے استعمال کی جا سکتی ہے۔
بہنے والے زخم پر نماز سے قبل اس طرح پٹی باندھنا چاہیے کہ پیپ یا لہو بہہ کر نہ نکلے۔
اگر زخم والی جگہ پر پانی بہانا نقصان دہ ہو تو مسح کیا جا سکتا ہے۔
اگر زخم پر پٹی، پلاسٹر، دوا کا لیپ یا کوئی اور چیز ہو تو مسح کر لینا کافی ہے۔
(جدید فقہی مسائل)
کوئی شخص کرسی پر بیٹھ سکتا ہے لیکن جھک نہیں سکتا، اسے وضو کرانے والا بھی کوئی نہیں تو اس کے لیے پاؤں پر پانی بہا دینا کافی ہے ملنے کی ضرورت نہیں۔ وضو کرتے ہوئے قوم کا ٹکڑا پانی میں بھگو کر پاؤں کے نیچے رکھ کر دباؤ ڈالے تو پانی اچھل کر ایڑیوں وغیرہ کو تر کر دے گا یا پاؤں کو پانی بھرے برتن میں ڈال کر ڈبو لے۔
اگر کوئی شخص سر یا کان کا مسح نہیں کر سکتا اور کوئی مدد کرنے والا بھی نہیں تو اس کے بغیر ہی وضو ہو جائے گا۔
تیمم
تیمم مٹی کے ساتھ طہارت حاصل کرنے کا نام ہے۔ فرمایا:
وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ
(5-المائدة:6)
اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے پھر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (کر کے تیمم) کر لو۔
یہ مندرجہ ذیل صورتوں میں کیا جا سکتا ہے:
● پانی اس قدر دور ہو کہ اس تک پہنچنے یا لانے تک موجود نماز کا وقت نکل جائے گا۔
● پانی ایسی جگہ پر ہو جہاں پہنچنا مشکل ہو جیسے راستے میں کسی جنگل، یا کسی موذی جانور یا دشمن کا حائل ہونا۔
● پانی اتنا کم موجود ہو کہ وضو کر لینے سے پینے کے لیے پانی نہیں بچے گا۔ اور مزید پانی جلدی ملنے کا یقین نہ ہو۔
● پانی استعمال کرنے سے شدید بیماری یا موت کا اندیشہ ہو۔
● یہ خطرہ ہو کہ ٹھنڈے پانی کے استعمال سے شدید بیماری آئے گی اور پانی گرم کرنے کا ذریعہ بھی موجود نہ ہو۔
●پانی موجود ہو لیکن بیماری کے سبب آدمی اس تک نہ پہنچ سکتا ہو اور کوئی مدد کرنے کے لیے بھی نہ ہو۔
تیمم کا طریقہ:
بسم الله کہ کر پاک مٹی پر ہاتھ مار کر دائیں ہاتھ کی پشت اور سامنے والے حصے کی انگلیوں سے لے کر ہتھیلیوں یا کہنیوں تک ہاتھ لے جائیں دونوں طرح درست ہے۔ پھر دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی پشت اور سامنے والے حصے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنیوں یا ہتھیلیوں تک لے جائیں۔
(ابن ماجہ:569)
مٹی پر دوبارہ دونوں ہاتھ مار کر منہ پر اس طرح دونوں ہاتھ پھیریں جس طرح وضو کرتے ہوئے منہ پر پانی پھیرتے ہیں۔ یعنی پیشانی سے دونوں کانوں تک اور ٹھوڑی کے نیچے تک کے حصے پر ہاتھ پھیرا جائے۔ دوسری بار زمین پر ہاتھ مارے بغیر ایک ہی بار مٹی پر ہاتھ مار کر دونوں ہتھیلیوں اور منہ پر ہاتھ مار لینا بھی درست ہے۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے سنن ابن ماجہ ابواب التیمم تشریح صلاح الدین یوسف)
غسل کی صورت:
جسم کے جو اعضا دھوئے جا سکتے ہیں ان کو دھو لیا جائے اور جن کو پانی سے ضرر پہنچنے کا خدشہ ہو ان کا مسح کر لیا جائے۔
وضو کرتے وقت بھی جو اعضا دھوئے جا سکتے ہیں دھوئے جائیں اور جنہیں ضرر پہنچے کا خدشہ ہو ان کا مسح کر لیا جائے۔
(ابن ماجہ تشریح از مولانا صلاح الدین یوسف، ابواب التیمم)
غسل کے لیے بھی تیمم کا مندرجہ بالا طریقہ ہی کافی ہے۔ نیز ایک تیمم سے وضو اور غسل دونوں کی حاجت پوری ہو جاتی ہے غسل کے لیے الگ تیمم کرنے کی ضرورت نہیں۔
جس طرح ایک وضو کے ساتھ ایک سے زیادہ نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں اسی طرح ایک تیمم سے بھی زیادہ نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں۔
تیمم ان چیزوں سے ختم ہو جاتا ہے جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
جیسے ہی پانی مل جائے یا بیمار کی بیماری جان لیوا صورت سے باہر نکل آئے تیمم کا حکم ختم ہو جائے گا اور اب پانی سے وضو یا غسل کی حاجت کے وقت غسل کرنا ہو گا۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے سنن ابی داؤد، کتاب الطہارہ، باب التیمم)
مٹی کیسی ہو:
پوری زمین پاک ہے لہذا اس کی مٹی بھی پاک ہے البتہ کسی جگہ گندگی واضح نظر آ رہی ہو یا یہ پتا ہو کہ لوگ اس پر غلاظت پھینکتے ہیں اس جگہ کی مٹی سے تیمم نہیں کیا جائے گا۔
اگر زمین ریتلی ہو تو ریت ہی سے تیمم کر لیا جائے اگر مٹی مل جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
پتھریلا علاقہ ہو یا پہاڑ ہوں تو جہاں کہیں دھول مٹی جمی ہوئی ہے وہی تیمم کے لیے کافی ہے۔
جو گرد و غبار، برتنوں، دیواروں اور دیگر چیزوں پر جمع ہو جاتا ہے اس سے بھی تیمم کیا جا سکتا ہے۔
اگر برفانی پہاڑ ہے، نہ مٹی ہے نہ پانی تو ایسی صورت میں برف ہی پر ہلکا سا ہاتھ پھر کر تیمم کر لیا جائے۔
اگر برف پر ہاتھ چپک جانے کا خدشہ ہو تو پھر بغیر وضو اور تیمم کے ہی نماز ادا کر لی جائے۔ پاک سی درخت وغیرہ پر ہاتھ مار کر تیمم کر لیا جائے۔
مٹی سے استنجا:
مٹی سے استنجا کرنا عذر اور بغیر عذر دونوں حالتوں میں جائز ہے۔
مٹی سے استنجا کرنے سے طہارت ہو جاتی ہے اگرچہ پانی بھی موجود ہو۔
اگر مٹی سے استنجا کرنے کے بعد پانی استعمال نہ بھی کیا جائے تو پانی سے وضو کر کے نماز ادا کرنا درست ہے۔
استنجا کے لیے تین ڈھیلے استعمال کرنا واجب ہے، نیز پیشاب کے لیے الگ تین ڈھیلے اور قضائے حاجت کے لیے الگ تین ڈھیلے لینے ہوں گے۔ چاہے ایک ڈھیلے ہی سے صفائی ہو جائے۔
(سنن ابی داؤد: 40)
اگر تین ڈھیلوں سے صفائی نہ ہو سکے تو پھر مزید ڈھیلے بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
ڈھیلے صرف استنجا کرنے کے لیے ہیں اگر نجاست اپنی جگہ سے پھیل کر آس پاس کی جلد پر لگ گئی تو وہ پانی ہی سے صاف ہو گی، ڈھیلے سے صاف کرنا درست نہیں۔
ٹشو پیپر یا کسی کپڑے سے استنجا:
استنجا کرنے کے لیے اصل ذریعہ مٹی اور پانی ہی ہیں، یہ دونوں نہ ہوں، یا استعمال کرنے میں ضرر کا اندیشہ ہو تو کوئی ایسی چیز استعمال کی جا سکتی ہے جو صفائی کر دے البتہ وہ قابل احترام چیز نہ ہو، مثلاً کھانے پینے کی چیزیں، درختوں کے پتے، کھانے کی چیزوں کے چھلکے، ہڈیاں، کاغذ اور گوبر وغیرہ۔ ہڈی، گوبر اور کوئلہ جنوں کی غذا ہے۔
(ابوداؤد:39)
ٹشو پیپر صفائی کے لیے ہی بنایا جاتا ہے، اس لیے اس سے طہارت بھی ہو جاتی ہے۔ پاک کپڑے کے ٹکڑے سے بھی استنجا کیا جا سکتا ہے۔
ٹشو پیپر یا کپڑا بھی تین تین استعمال کیے جائیں اور شرط یہ بھی ہے کہ نجاست اپنے مقام سے ادھر ادھر نہ پھیلے ورنہ پانی ہی سے طہارت حاصل کرنا ہو گی۔
اگر بیماری ہے یا پانی سے کسی بیماری کا خوف ہے تو پھر ٹشو پیپر یا کپڑے سے جسم کی نجاست صاف کی جا سکتی ہے۔
اگر کوئی شخص خود پانی سے طہارت نہ کر سکتا ہو:
ایسے شخص کو دوسرا شخص پانی سے اس طرح طہارت کرائے گا کہ ہاتھ براہ راست شرمگاہ کو نہ لگے، وہ ہاتھ پر کوئی کپڑا، پلاسٹک کی تھیلی یا دستانہ وغیرہ چڑھائے۔
اگر کوئی شخص پاس موجود نہ ہو یا یہ کام انجام نہ دے سکتا ہو تو پھر کپڑا گیلا کر کے جسم کے ناپاک حصوں پر پھیر لیا جائے۔ اس کپڑے کو پانی سے دھو کر پھر دوسری مرتبہ جسم کے ناپاک حصوں پر پھیر لیا جائے۔
اگر پانی استعمال کرانا باعث تکلیف ہو:
ایسی صورت میں پانی کے بجائے گیلا کپڑا نجاست صاف کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
اگر گیلا کپڑا پھیرنا ممکن نہیں تو شخص معذور ہے اس حالت میں بھی وہ نماز ادا کر سکتا ہے۔
جو شخص نجاست سے نہ بچ سکتا ہو:
جو شخص بیماری اور کمزوری کے سبب اپنی طہارت قائم رکھنے اور اپنے کپڑے پاک رکھنے پر قادر نہ ہو اور اس کے پاس کوئی ایسا شخص بھی نہ ہو جو اس میں اس کی مدد کرے تو ایسا شخص معذور ہے وہ انہی کپڑوں میں نماز ادا کر سکتا ہے۔ کیونکہ نماز کو مؤخر کرنا جائز نہیں۔
(ابن ماجہ، ابواب التیمم تشریح صلاح الدین یوسف)
مصنوعی اعضاء کا وضو اور غسل میں حکم:
اگر مصنوعی اعضاء آسانی سے جسم سے الگ کیے جا سکتے ہیں تو انہیں الگ کر کے وضو یا غسل کیا جائے گا۔ مثلاً دانت کو منہ سے نکال کر کلی کرنا۔
اگر مصنوعی اعضا آسانی سے الگ نہیں ہو سکتے تو پھر ان کا حکم پٹی کی طرح یا لکڑی کی بچی کی طرح ہے جو ہڈی ٹوٹنے کی صورت باندھی جاتی ہے۔ لہذا ان پر مسح کیا جائے گا۔
(جدید فقہی مسائل)
جرابوں پر مسح:
جن لوگوں کو پانی استعمال کرنے سے کسی بیماری کا خدشہ ہو یا کسی وجہ سے وضو بار بار ٹوٹ جاتا ہو تو ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ ایک بار وضو کر کے جرابیں پہن لیں اور دوبارہ جب وضو کرنے کی ضرورت ہو تو جرابوں پر مسح کر لیں۔
قیام کی حالت میں جرابوں پر مسح چوبیس گھنٹے تک کیا جا سکتا ہے اور سفر کی حالت میں تین دن تک مسح کرنے کی اجازت ہے۔
یاد رہے کہ غسل کرنے کے لیے جرابوں کو اتار کر پاؤں دھونا ضروری ہے۔ مسح صرف وضو کی صورت میں ہے۔
(ابوداؤد: 157)
یاد رہے کہ جرابیں باریک ہوں یا موٹی، چمڑے کی ہوں یا کپڑے کی اور اگر جوتا بند ہو تو بھی ان سب پر مسح کیا جا سکتا ہے۔
(دیکھیے سنن ابی داؤد: 120)
پیشاب کے قطرے آنے کا شک:
اگر کسی شخص کو وضو کرنے کے بعد یہ شک ہو کہ اس کی پیشاب گاہ سے پیشاب یا کسی اور چیز کے قطرے خارج ہوئے ہیں تو اسے چاہیے کہ وہ وضو کرنے کے بعد اپنی پیشاب گاہ پر موجود کپڑے پر پانی کا چھینٹا دے لے۔
عام حالت میں بھی یہ مستحب ہے کہ کپڑوں پر چھینٹا دے لیا جائے۔
(ابوداؤد: 166، 167، 168)