حدیث کی صحت و ضعف جانے بغیر بیان کرنے کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد 3، اصول، تخریج الروایات اور ان کا حکم، صفحہ 214

سوال

کیا ایسے شخص کے لیے ضعیف اور مردود روایات کو بطور دلیل پیش کرنا جائز ہے جو حدیث کی صحت و ضعف سے ناواقف ہو، یا جان بوجھ کر صحیح اور ضعیف احادیث کو بیان کرتا ہو؟ کیا ایسے شخص کے لیے حدیث بیان کرنا درست ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

➊ حدیث سے ناواقف شخص کا حکم:

اگر کوئی شخص حدیث کی صحت و ضعف سے ناواقف ہے، تو اس کے لیے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے علاوہ کسی اور حدیث کی کتاب سے روایت بیان کرنا جائز نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ممکن ہے وہ لاعلمی میں کوئی ضعیف یا مردود روایت کو یقینی بات سمجھ کر بیان کر دے، اور اس طرح وہ خود اس حدیث کا مصداق بن جائے جس میں سخت وعید وارد ہوئی ہے:

"جس نے مجھ پر جھوٹ بولا، تو وہ اپنا ٹھکانا آگ میں تلاش کرے۔”
(صحیح بخاری: 108، صحیح مسلم: 32)

➋ حدیث کی صحت و ضعف سے آگاہ شخص کا حکم:

اگر کوئی شخص احادیث کی صحت اور ضعف کو جانتا ہے، اس کے باوجود وہ ضعیف روایت کو بغیر کسی وضاحت کے بطور جزم پیش کرتا ہے، تو یہ عمل انتہائی بڑا جرم ہے۔
(تاریخ: 11 مارچ 2013ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے