سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا کے نکاح سے متعلق روایت کی تحقیق اور صحیحین کے اجماعی مقام کی وضاحت
سوال
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ اپنی کتاب "الصلوۃ والسلام علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” (اردو ترجمہ صفحہ 166) میں نقل کرتے ہیں:
"صحیح مسلم میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مسلمان نہ ابو سفیان کی طرف دیکھا کرتے تھے اور نہ اسے اپنے پاس بٹھایا کرتے تھے۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: تین باتیں ہیں جو مجھے عطا فرما دیجیے۔ فرمایا: اچھا۔ کہا: میرے پاس عرب کی سب سے حسین و جمیل لڑکی اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے، میں اسے آپ کے نکاح میں دینا چاہتا ہوں۔”
اس حدیث کو سمجھنے میں بعض لوگوں کو اشکال پیش آیا کیونکہ تاریخی اعتبار سے:
- اُم المؤمنین اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے پہلے ہو چکا تھا۔
- یہ نکاح حبشہ میں نجاشی نے پڑھایا۔
- اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنے والد کے اسلام سے قبل ہی مدینہ آ چکی تھیں۔
لہٰذا اعتراض یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کیوں کہا کہ: "میں اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے کرنا چاہتا ہوں؟”
بعض علماء نے اس روایت کو من گھڑت قرار دیا۔ ابن حزم رحمہ اللہ نے کہا: "عکرمہ بن عمار نے یہ جھوٹ بنایا ہے” (ص166-167)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے اسی کتاب کے صفحہ 167 سے 175 تک ان علماء کی رائے کا رد کیا جو اس روایت کے دفاع میں ہیں، اور آخر میں لکھا:
ٹھیک تو یہی ہے کہ یہ حدیث غیر محفوظ ہے اور اس میں کچھ خلط ملط ضرور ہوا ہے۔ (صفحہ 175)
جواب:
الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
روایت کی سند
النَّضْرُ ، وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ الْيَمَامِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، حَدَّثَنَا أَبُو زُمَيْلٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ …
(صحیح مسلم: 2501، دارالسلام: 6409)
سند کے رواۃ کی حیثیت
1. نضر بن محمد بن موسیٰ الجرشی الیمامی
- یہ راوی صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داود، ترمذی، ابن ماجہ کے راوی ہیں۔
- ثقہ قرار دیے گئے ہیں:
- امام عجلی، امام مسلم، ابن حبان رحمہم اللہ نے ثقہ کہا۔
- ابن حبان: "ربما تفرد”
- حافظ ذہبی: "ثقہ” (الکاشف 3/219)
- حافظ ابن حجر: "ثقہ لہ افراد” (تقریب التہذیب: 7148)
- یاد رہے: ثقہ و صدوق راوی کا تفرد بھی قابل قبول ہوتا ہے بشرطیکہ اس میں شذوذ نہ ہو۔
2. عکرمہ بن عمار
- جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق اور حسن الحدیث ہیں، بشرطیکہ سماع کی تصریح موجود ہو — جو کہ اس سند میں ہے۔
- یحییٰ بن معین، علی بن المدینی، عجلی رحمہم اللہ نے ثقہ کہا۔
- ان پر یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت میں کلام ہے، لیکن یہ روایت اس راوی سے نہیں، لہٰذا جرح غیر متعلق ہے۔
امام مسلم رحمہ اللہ کا اصول:
"فَأَمَّا مَا كَانَ مِنْهَا عَنْ قَوْمٍ هُمْ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ مُتَّهَمُونَ … فَلَسْنَا نَتَشَاغَلُ بِتَخْرِيجِ حَدِيثِهِمْ…”
(مقدمۃ صحیح مسلم ص6)
لہٰذا ابن القیم اور ابن حزم کی جرح جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے، اور اس حدیث کو جھوٹ کہنا باطل ہے۔
3. ابو زمیل سماک بن الولید الیمامی الکوفی
- امام احمد بن حنبل، ابن معین، عجلی، ابن حبان نے ثقہ کہا۔
- ابو حاتم الرازی: "صدوق لا باس بہ”
- ان کے استاد: عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
سند کی درجہ بندی
نضر بن محمد کی یہ سند حسن لذاتہ یعنی حجت ہے۔
اس حدیث کو دیگر محدثین نے بھی روایت کیا ہے:
- ابن ابی عاصم: الآحاد والمثانی (1/364، 5/418)
- ابن حبان: صحیح ابن حبان (7166، دوسرا نسخہ: 7210)
- طبرانی: المعجم الکبیر (23/ح 404، 12/199ح 12885)
- بیہقی: السنن الکبری (7/140)
- عبدالغنی المقدسی: المصباح فی عیون الصحاح (ص48)
- حسین الجورقانی: الاباطیل والمناکیر (1/189، ح180) – کہا: "ھذا حدیث صحیح”
ان محدثین نے روایت نضر بن محمد سے ان ثقہ رواۃ کے ذریعے کی:
- احمد بن یوسف السلمی
- عباس بن عبد العظیم العنبری
- احمد بن جعفر المعقری
متنی اشکال کا حل
حافظ ابن القیم وغیرہ کے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ ابو سفیان نے یہ تینوں مطالبے ایک ہی مجلس میں کیے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے وضاحت کی:
"وَإِنْ كَانَتْ مَسْأَلَتُهُ الْأُولَى … وَهُوَ كَافِرٌ … وَالْمَسْأَلَةُ الثَّانِيَةُ وَالثَّالِثَةُ وَقَعَتَا بَعْدَ إِسْلَامِهِ …”
(السنن الکبری 7/140)
یعنی:
- پہلا سوال (اُم حبیبہ کے نکاح کا) شاید اس وقت ہوا جب ابو سفیان کافر تھے اور مدینہ آئے تھے۔
- دوسرے اور تیسرے سوال اسلام لانے کے بعد ہوئے۔
لہٰذا صحیح مسلم کی یہ حدیث محفوظ ہے۔
ابن کثیر کی توجیہ
ابن کثیر رحمہ اللہ (الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ص254) لکھتے ہیں:
ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو داماد بنانے کو فخر سمجھا اور پیشکش کی کہ میں اپنی دوسری بیٹی عزہ کا نکاح آپ سے کرنا چاہتا ہوں۔
ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خود بھی کہا: "یا رسول اللہ! آپ میری بہن سے نکاح کر لیں”۔ آپ نے فرمایا: "کیا تمہیں یہ پسند ہے؟”
انھوں نے کہا: جی ہاں۔
(صحیح بخاری: 5106،510؛ صحیح مسلم: 15/1449)
ممکن ہے "عزہ” کی کنیت ام حبیبہ ہو، یا راوی کو اشتباہ ہوا ہو۔ اس طرح کے بے شمار شواہد موجود ہیں۔
صحیحین پر اجماع اور اہل حدیث کا موقف
اہل حدیث کے نزدیک:
صحیح بخاری و صحیح مسلم کی تمام مرفوع، مسند، متصل احادیث یقیناً اور قطعی طور پر صحیح ہیں۔
زمانہ تدوین حدیث میں کسی روایت یا راوی پر تنقید ہو سکتی تھی، لیکن اجماع کے بعد اس پر جرح باطل و مردود ہے۔
حافظ ابن کثیر (متوفی 774ھ) فرماتے ہیں:
"امت نے صحیحین کو بالاتفاق قبول کیا ہے۔ دارقطنی جیسے بعض نے بعض الفاظ پر تنقید کی، لیکن امت کا اجماع ثابت ہے، اور امت معصوم عن الخطا ہے۔”
(اختصار علوم الحدیث 1/124-125)
حافظ ثناء اللہ الزاہدی کا رسالہ:
"احادیث الصحیحین بین الظن والیقین” میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ:
- ابو اسحاق الاسفرائنی، امام الحرمین الجوینی، ابن القیسرانی، ابن الصلاح، ابن تیمیہ رحمہم اللہ نے صحیحین کی احادیث کو قطعی الثبوت قرار دیا۔
شاہ ولی اللہ الدہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"صحیحین کی تمام مرفوع متصل احادیث یقیناً صحیح ہیں، اور ان دونوں کتابوں کو تواتر کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔ جو ان پر اعتماد نہ کرے وہ بدعتی ہے۔”
(حجۃ اللہ البالغہ عربی 1/134، اردو ترجمہ: 1/242، مترجم: عبدالحق حقانی)
نتیجہ
- مذکورہ روایت صحیح مسلم میں حسن لذاتہ سند سے موجود ہے۔
- اس پر محدثین کی توثیق موجود ہے۔
- جو اشکال تھا، اس کی متنی و تاریخی توجیہ امام بیہقی اور ابن کثیر رحمہما اللہ کی عبارتوں سے واضح ہو گئی ہے۔
- اہل حدیث کا منہج ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی تمام احادیث کو یقینی اور قطعی طور پر صحیح مانتے ہیں۔
وما علینا إلا البلاغ