خلع لینے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے – دلائل کے ساتھ وضاحت
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ، جلد 3 باب: نکاح و طلاق کے مسائل صفحہ: 171

خلع لینے والی عورت کی عدت کا حکم

سوال:

ایسی عورت جو اپنے شوہر سے خلع لے لے، اس کی عدت کتنی ہوگی؟ کیا وہ عام طلاق یافتہ عورت کی طرح تین حیض یا وضع حمل کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے؟ براہ کرم دلیل اور تحقیق کے ساتھ جواب دیجیے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ (ایک سائل)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روشنی میں

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:

ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی (جو مشہور قول کے مطابق حبیبہ بنت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں) نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنے شوہر سے خلع لیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک حیض کی عدت گزارنے کا حکم دیا۔

سنن الترمذی (1185) وقال "حسن غریب”
سنن ابی داؤد (2229)
المستدرک للحاکم (2/206 ح 2825) – الحاکم نے اسے صحیح قرار دیا اور ذہبی نے تلخیص میں اس کی موافقت کی۔

یہ حدیث حسن لذاتہ سند سے روایت ہوئی ہے۔ امام عبدالرزاق کا مرسل روایت کرنا اس کے ضعف کی وجہ نہیں بنتا، بلکہ زیادت ثقہ کے اصول کے تحت یہ روایت مرسلاً اور متصلاً دونوں حیثیتوں سے صحیح ہے۔

دوسری حدیث: سنن دارقطنی کی روایت

سنن دارقطنی (جلد 3، صفحہ 255، حدیث 3589) میں صحیح سند سے ہشام بن یوسف کی روایت ہے جس میں الفاظ ہیں:

"فجعل النبي صلى الله عليه وسلم عدتها حيضة”

یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خلع والی عورت کی عدت ایک حیض مقرر فرمائی۔ یہ روایت بھی حسن لذاتہ ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ خلع لینے والی عورت کی عدت ایک ماہ ہے۔

ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا واقعہ

ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے (سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں) خلع لیا اور عدت کے بارے میں دریافت کیا تو سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

تم پر کوئی عدت نہیں ہے، الاّ یہ کہ شوہر تمہارے پاس تھا اور تم نے تازہ خلع لیا ہے، تو ایسی صورت میں تمہیں ایک حیض عدت گزارنا ہوگی۔

سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مزید فرمایا:

میں اس مسئلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی پیروی کرتا ہوں جو آپ نے مریم المغالیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں دیا تھا۔

سنن النسائی (جلد 6، صفحہ 186۔187، حدیث 3528)
سنن ابن ماجہ (حدیث 2058)
فتح الباری، ابن حجر (جلد 9، صفحہ 99، حدیث 5273)

یہاں مریم المغالیہ سے مراد وہی بیوی ہے جو ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خلع لینے والی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حیض کی عدت کا حکم دیا تھا۔ (ملاحظہ ہو: الاصابہ، جلد اول، صفحہ 1766)

ممکن ہے کہ "المغالیہ” سے مراد حبیبہ بنت سہل کے علاوہ کوئی اور خاتون ہو۔ واللہ اعلم

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصحیح

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:

ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے شوہر سے خلع لیا۔ پھر ان کا چچا (سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ان کے لیے مسئلہ پوچھنے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ وہ ایک حیض عدت گزارے گی۔

ابتداء میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ یہ تھا کہ خلع والی عورت تین حیض عدت گزارے گی۔ لیکن جب انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ سنا، تو انہوں نے اپنا فتویٰ بدل دیا اور فرمایا:

وہ ہم میں سب سے بہتر اور سب سے زیادہ علم والے ہیں۔

مصنف ابن ابی شیبہ (جلد 5، صفحہ 114، حدیث 1845) – سند صحیح

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا سابقہ فتویٰ واپس لے لیا تھا۔

امام نافع کا بیان

امام نافع (مولیٰ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت ہے:

ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: خلع والی عورت کی عدت ایک حیض ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ (جلد 5، صفحہ 114، حدیث 18455) – سند صحیح

فقہاء کا مؤقف اور راجح قول

حنفی اور بعض دیگر فقہاء کا موقف ہے کہ:

خلع والی عورت مطلقہ کی طرح تین حیض یا وضع حمل کی عدت گزارے گی۔

لیکن مذکورہ احادیث، خلیفہ راشد کے فیصلے اور صحابہ کے فتوے کی روشنی میں راجح اور درست بات یہی ہے کہ:

خلع والی عورت ایک حیض کی عدت گزارنے کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے۔

(7 نومبر 2009ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے